0 / 0
6,88807/10/2007

ابتدائى تراويح رہ جانے كى صورت ميں ادائيگى كا طريقہ

سوال: 93747

اگر ميں نماز عشاء سے پيچھے رہ جاؤں اور اكيلا نماز عشاء ادا كر كے نماز تراويح ميں شامل ہو جاؤں جبكہ عشاء كى نماز ادا كرنے سے ميرى دو تراويح رہ جائيں، تو ميں يہ دو ركعت كيسے ادا كروں، اكيلے يا مجھے كيا كرنا ہو گا ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

اگر آپ كى نماز عشاء رہ جائے، اور آپ مسجد ميں داخل ہوں تو امام نماز تراويح پڑھا رہا ہو، تو افضل اور بہتر تو يہى ہے كہ آپ اس كے پيچھے عشاء كى نيت سے نماز ادا كريں، اور جب امام سلام پھيرے تو آپ اٹھ كر بقيہ عشاء كى نماز مكمل كريں، اور اكيلے عشاء كى نماز ادا نہ كريں، اور نہ ہى كسى اور دوسرى جماعت كے ساتھ بلكہ نماز تراويح كے امام كے ساتھ ہى ادا كريں، تا كہ ايك ہى وقت ميں دو جماعتيں نہ ہوں، تو اس طرح تشويش اور آوازيں ايك دوسرے ميں گڈ مڈ ہونگى.

دوم:

اور جو تراويح آپ كى رہ جائيں اگر تو آپ وہ ادا كرنا چاہيں تو امام كے ساتھ آپ وتر كو دو ركعت بنا ليں اور پھر آپ رہ جانے والى تراويح ادا كر كے وتر ادا كريں.

امام كے ساتھ وتر كو دو ركعت بنانے كا معنى يہ ہے كہ آپ وتروں ميں امام كے ساتھ سلام نہ پھيريں، بلكہ اٹھ كر ايك ركعت ادا كر كے سلام پھير ليں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

جب ميں دوران تراويح نماز ميں شامل ہوؤں اور كچھ تراويح رہ جائيں تو كيا وتروں كے بعد رہ جانے والى تراويح ادا كروں يا كہ مجھے كيا كرنا ہوگا ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" وتروں كے بعد آپ رہ جانے والى نماز ادا نہ كريں، ليكن اگر آپ رہنے والى تراويح ادا كرنا چاہيں تو آپ امام كے ساتھ وتروں كو جفت كر ليں ( يعنى ايك ركعت اور ادا كر كے سلام پھريں ) پھر اپنى رہنے والى تراويح ادا كر كے وتر ادا كريں.

يہاں ايك مسئلہ كى تنبيہ كرنا ضرورى ہے وہ يہ كہ: اگر آپ آئيں اور امام تراويح پڑھا رہا ہو اور آپ نے عشاء كى نماز ادا نہ كى ہو تو آپ كيا كريں ؟

آيا آپ اكيلے عشاء كى نماز ادا كريں، يا كہ عشاء كى نيت سے تراويح ميں امام كے ساتھ شامل ہو جائيں ؟

ا سكا جواب يہ ہے كہ:

آپ امام كے ساتھ تراويح ميں عشاء كى نيت سے شامل ہو جائيں، اور جب امام سلام پھيرے تو اٹھ كر عشاء كى باقى نماز ادا كر ليں، امام احمد رحمہ نے بعينہ يہى مسئلہ بيان كيا ہے.

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ نے اسے اختيار كيا ہے، اور راجح قول بھى يہى ہے؛ كيونكہ راجح قول كےمطابق فرض ادا كرنےوالے كے ليے نفلى نماز ادا كرنے والے كى اقتدا كرنى جائز ہے اس كى دليل معاذ بن جبل رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے:

" معاذ بن جبل رضى اللہ تعالى عنہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا ميں نماز عشاء ادا كيا كرتے اور پھر اپنى قوم كے ہاں جا كر انہيں عشاء كى نماز پڑھايا كرتے تھے، تو اس طرح يہ ان كے ليے نفلى اور قوم كے ليے فرضى نماز ہوتى تھى " انتہى.

ماخوذ از: اللقاء الشھرى.

افضل تو يہ ہے كہ اگر جماعت ميسر ہو تو رہ جانے والى تراويح جماعت ميں ادا كى جائيں، اور اگر جماعت ميسر نہ ہو تو انفرادى طور پر بھى رہ جانے والى تراويح ادا كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android