ايك شخص كو رات احتلام ہوا اور صبح جب بيدار ہوا تو ڈيوٹى سے ليٹ ہوگيا اور موسم بھى ٹھنڈا اور بارش والا تھا تو اس نے پاكيزہ مٹى كے ساتھ تيمم كر ليا تو كيا ايسا كرنا اس كے ليے جائز تھا، يہ علم ميں رہے كہ اسے ڈيوٹى سے ليٹ ہونے كے ساتھ ساتھ بيمار اور ہلاك ہونے كا خدشہ تھا ؟
اگر تاخير سے بيدار ہو اور پانى ٹھنڈا ہو تو كيا تيمم كر لے ؟
سوال: 93865
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جسے احتلام ہو اور منى خارج ہو جائے نماز كے ليے اس پرغسل جنابت كرنا واجب ہے، اس كے ليے غسل چھوڑ كر تيمم كرنا جائز نہيں، ليكن اگر اسے پانى نہ ملے، يا پھر پانى كے استعمال ميں اسے ضرر اور نقصان ہونے كا انديشہ ہو تو وہ غسل چھوڑ كر تيمم كر سكتا ہے؛ كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو! جب تم نماز كے ليے كھڑے ہوؤ تو اپنے چہرے اور كہنيوں تك ہاتھ دھو لو، اور اپنے سروں كا مسح كرو، اور اپنے پاؤں ٹخنوں تك دھوؤ، اور اگر تم جنابت كى حالت ميں ہو تو غسل كرو، اور اگر تم بيمار ہو يا مسافر، يا تم ميں كوئى شخص قضائے حاجت كر كے آئے، يا تم نے بيوى سے ہم بسترى كى ہو اور تمہيں پانى نہ ملے تو تم پاكيزہ مٹى كے ساتھ تيمم كرو، اور اس سے اپنے چہرے اور ہاتھ پر مسح كرو المآئدۃ ( 6 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" مٹى مسلمان شخص كے وضوء ہے، چاہے اسے دس برس بھى پانى نہ ملے، اور جب اسے پانى ملے تو وہ اللہ سے ڈرے اور پانى كو اپنى جلد پر ڈالے كيونكہ يہ اس كے ليے بہتر ہے "
اسے بزار نے روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 3861 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
تو جو شخص بھى جنابت كى حالت ميں بيدار ہو اور اسے موسم ٹھنڈا ہونے كى بنا پر ضرر اور نقصان پہنچنے كا خدشہ ہو اور وہ پانى گرم كر سكتا ہو تو اس كے ليے ايسا كرنا لازم ہے، چاہے نماز كا وقت بھى نكل جائے؛ كيونكہ سوايا ہوا شخص معذور ہے، اور اس كے حق ميں نماز كا وقت وہى ہے جب وہ بيدار ہوا ہو، تو اس كے ليے نماز ادا كرنى اور نماز كے ليے طہارت و پاكيزگى كى سب شروط پورى كرنى لازم ہيں.
اور اگر اسے پانى گرم كرنے كے ليے كچھ نہ ملے تو اس وقت اس كے ليے تيمم كرنا جائز ہے.
اور ڈيوٹى سے تاخير ہونے كا خوف كوئى ايسا عذر شمار نہيں ہوتا جس كى بنا پر غسل ترك كر كے اس كے ليے تيمم كرنا جائز ہوتا ہو.
اور جو شخص بھى بغير كسى جائز عذر كے تيمم كرے اسے اس تيمم كے ساتھ ادا كردہ نماز دوبارہ ادا كرنى ہوگى، تا كہ وہ برى الذمہ ہوسكے.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر بہت شديد سردى ہو اور برتن ميں پانى جما ہوا ہو اور لوٹے ميں برف كى طرح اور انسان كو وضوء كرنا ہو، اور پانى اس پر اثرانداز ہو كر اسے بيمار كر ديتا ہو تو كيا كرنا چاہيے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" اگر تو معاملہ ايسا ہى ہو جيسا بيان ہوا ہے تو وہ تيمم كر لے كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور اگر تم مريض ہو يا مسافر يا تم ميں كوئى شخص قضائے حاجت كر كے آيا ہو، يا تم نے بيوى سے ہم بسترى كى ہو اور تمہيں پانى نہ ملے تو تم پاكيزہ مٹى سے تيمم كرلو، اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح كرو .
ليكن اگر اس كے ليے آگ پر پانى گرم كرنا ممكن ہو تو اس كے ليے ايسا كرنا واجب ہے، اور اس كے ليے غسل كرنا واجب ہوگا كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اللہ تعالى كا تقوى اپنى استطاعت كے مطابق اختيار كرو . انتہى.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب