ميں كچھ گناہوں سے توبہ كرنا چاہتى ہوں، ليكن ايسا نہيں كر سكتى، جب بھى توبہ كى نيت كرتى ہوں اور اپنے كيے پر نادم ہوتى ہوں تو اسى عمل كو دوبارہ كرنا شروع كر ديتى ہوں، لگتا ہے ان سب گناہوں كا سبب ميرا منگيتر ہے.
ہر بار وہ ميرے ساتھ وعدہ كرتا ہے كہ وہ توبہ ميں ميرى مدد كريگا، ليكن كوئى فائدہ نہيں، مجھے كچھ سمجھ نہيں آ رہى كہ ميں كيا كروں ؟
يہ علم ميں رہے كہ ميں اسلامى پردہ بھى كرتى ہوں كيا ميں اپنى منگنى ختم كر لوں يا كيا كروں ؟
يہ بھى علم ميں ركھيں كہ عنقريب چند ماہ ميں ميرى رخصتى ہونے والى ہے، ميں اسے بہت چاہتى ہوں اور وہ بھى مجھے بہت چاہتا ہے ؟
بار بار گناہ ميں پڑنے كا سبب منگيتر كو سمجھتى ہے
سوال: 93872
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ اور آپ كے منگيتر كو ہدايت نصيب فرمائے، اور آپ دونوں كو سچى توبہ كرنے كى نعمت سے نوازے، اور نيك و صالح عمل كى توفيق دے، اور آپ دونوں كو ايك نيك و صالح خاندان اصل بنائے جو اللہ كے حقوق كا خيال كرنے والا ہو اور اس كے قوانين و شريعت كو قائم كرنے والا اور اس كے شعار كى تعظيم كرنے والا بنے.
دوم:
آپ كے سوال سے ہميں جو ظاہر ہوا ہے وہ يہ ہے كہ آپ خير و بھلائى كو پسند كرتى ہيں، اور شر سے بغض ركھتى ہيں، اس كى علامت يہ ہے كہ:
آپ نے شرعى پردہ كر ركھا ہے، اور گناہ كے بعد توبہ كر كے دوباہ گناہ نہيں كرنا چاہتيں.
ہمارى بہن يہ معاملہ ايسا ہے كہ كسى شخص سے تعلق نہيں ركھتا كہ وہ اطاعت ميں ہمارى معاونت نہيں كرتا، يا پھر وہ ہميں برائى سے نہيں روكتا.
بلكہ يہ سارا معاملہ تو انسان كے اپنے نفس كے ساتھ تعلق ركھتا ہے كيونكہ نفس امارہ تو برائى كى طرف رغبت دلاتا اور ابھارتا ہے، اور شيطانى وسوسوں كو قبول كرتا ہے.
ہم آپ سے يہ چاہتے ہيں كہ آپ اپنے نفس كى اصلاح كريں تا كہ آپ اپنے خاوند كى اصلاح كا سبب بن سكيں، بلكہ اپنى اولاد كى اصلاح كا باعث بنيں.
آپ نے جو منگنى توڑنے اور ختم كرنے كى جو تجويز پيش كى ہے اس مسئلے كا يہ حل نہيں ہے؛ كيونكہ آپ اس سے متعلق ہيں: جى ہاں اب يہ معاملہ ايسے كيوں نہيں ہو سكتا ؟
اور ابھى آپ نے شادى بھى نہيں كى، جب آپ اپنے حقيقى دين كى طرف رجوع كر كے سچى اور پكى و خالص توبہ كريں گى تو پھر توبہ اور اپنے محبوب خاوند دونوں كو جمع كرنا ممكن ہے.
سوم:
آپ يہ علم ميں ركھيں كہ معاصى و گناہوں سے فورا توبہ كرنا شرعى طور پر واجب ہے، اس پر علماء كرام كا اتفاق ہے.
اور پھر اللہ عزوجل كا فرمان ہے:
اے ايمان والو اللہ كى طرف سچى اور پكى و خالص توبہ كرو، اميد ہے كہ تمہارا پروردگار تمہارے گناہ معاف كر ديگا اور تمہيں ايسى جنتوں ميں داخل كريگا جس كے نيچے سے نہريں جارى ہونگى التحريم ( 8 ).
سچى اور پكى و خالص توبہ ماضى اور حاضر اور مستقبل كے معاملہ كے ساتھ تعلق ركھتى ہے، ماضى يہ كہ جو كچھ ہو چكا اس پر نادم ہوا جائے، اور حاضر يہ كہ فورى طور پر گناہ اور معصيت كو چھوڑ ديا جائے، اور مستقبل ميں يہ كہ پختہ عزم كيا جائے كہ آئندہ ايسا كام دوبارہ نہيں كيا جائيگا.
شنقيطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” سچى و پكى اور توبہ نصوح يہ ہے كہ:
يہ سچى توبہ ہوتى ہے اس كا حاصل يہ ہے كہ: توبہ كے تينوں اركان صحيح طور پر پورے كيے جائيں، وہ اسطرح كہ اگر گناہ كا شكار تھا تو فورى طور پر اس گناہ كو چھوڑ ديا جائے، اور اللہ عزوجل كے حكم كى خلاف ورزى ميں جو كچھ ہو چكا اس پر نادم ہوا جائے، اور پكى اور پختہ نيت كرے كہ آئندہ وہ كبھى اس معصيت كا ارتكاب نہيں كريگا ” انتہى
ديكھيں: اضواء البيان ( 6 / 206 ).
چہارم:
جب انسان پكى اور خالص و سچى توبہ كر لے اور پھر اس كا نفس كمزور ہو جائے اور شيطان اسے گمراہ كر دے تو وہ دوبارہ وہى گناہ كر بيٹھے تو اس سے سابقہ توبہ باطل نہيں ہو جائيگى، ليكن اسے نئے گناہ سے ايك اور توبہ كرنى چاہيے، اور جب بھى كوئى نيا گناہ ہو تو وہ نئے سرے سے توبہ كرے.
شنقيطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اہل علم كے اقوال ميں سے سب سے زيادہ اظہر قول يہ ہے كہ:
جس نے بھى سچى اور پكى وخالص توبہ كى اور اللہ تعالى نے اس سچى توبہ كے ساتھ اس كے گناہ معاف كر دے، اور پھر وہ اس كے بعد دوبارہ گناہ ميں پڑ گيا تو اس كى پہلى توبہ بالكل مطلوبہ طور پر صحيح ہے، گناہ كى طرف واپس پلٹنے سے وہ توبہ باطل نہيں ہوئى.
بلكہ اس پر نئے گناہ كى وجہ سے نئے سرے سے توبہ كرنى واجب ہے، ليكن كچھ يہ كہتے ہيں كہ گناہ كو دوبارہ كرنا پہلى توبہ كو توڑ ديتا ہے يہ بات صحيح نہيں ” انتہى
ديكھيں: ا ضواء البيان ( 6 / 206 ).
جب بھى گناہ ميں پڑ جائے تو اسے حق حاصل نہيں كہ وہ توبہ و استغفار چھوڑ دے، بلكہ شيطان تو چاہتا ہى يہى ہے كہ عاصى انسان سے ايسا نہ ہونے دے تا كہ توبہ و استغفار كو چھوڑ كر وہ گناہ اور نااميدى دونوں كو اس بندے ميں جمع كر دے.
ابن رجب الحنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” حسن بصرى رحمہ اللہ سے كہا گيا: كيا ہم ميں سے كوئى ايك اپنے پررودگار سے شرماتا نہيں كہ وہ اپنے گناہوں سے استغفار كرتا ہے اور پھر دوبارہ گناہ كرنے لگتا ہے، پھر استغفار كرتا ہے اور پھر گناہ كرنے لگتا ہے.
انہوں نے فرمايا: شيطان كى تو خواہش ہى يہى ہے كہ اگر وہ تم سے اس چيز ميں كامياب ہو جائے، اس ليے تم توبہ و استغفار سے مت اكتاؤ.
ديكھيں: جامع اللوم و الحكم ( 1 / 165 ).
ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ نے عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ سے نقل كيا ہے انہوں نے فرمايا:
” لوگو جو كسى گناہ ميں پڑ جائے تو اسے اللہ سے استغفار كرنى چاہيے، اور توبہ كرے، اور اگر وہ پھر گناہ ميں پڑ گيا ت واسے استغفار كرنى چاہيے اور وہ توبہ كرے، اور اگر دوبارہ گناہ ميں پڑ جائے تو استغفار كرے اور توبہ كرنى چاہيے، كيونكہ گناہ تو مردوں كى گردنوں ميں طوق بنى ہوئى ہيں، اور ہلاكت تو ان گناہوں پر اصرار كى بنا پر ہے ”
پھر ابن رجب رحمہ اللہ كہتے ہيں:
معنى يہ ہے كہ: بندے كے مقدر ميں جو گناہ ہيں وہ اس نے ضرور كرنے ہيں، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” ابن آدم پر زنا سے اس كا حصہ لكھا ہوا ہے، تو وہ لامحالہ اسے پائےگا ”
ليكن اللہ سبحانہ و تعالى نے بندے كے گناہوں سے نكلنے كا مخرج بنايا ہے، اور اسے ختم كرنے كے ليے توبہ و استغفار بنائى ہے، اس ليے اگر وہ ايسا كر ليتا ہے يعنى و توبہ و استغفار كر ليتا ہے تو گناہوں كے شر سے چھٹكارا پائيگا، اور اگر وہ گناہوں پر اصرار كرتا تو ہلاك و تباہ ہو جائيگا ” انتہى
ديكھيں: جامع العلوم و الحكم ( 1 / 165 ).
پنجم:
آپ اور آپ كے منگيتر كو وصيت يہ ہے كہ:
آپ دونوں اس حال پر رہيں جسے اللہ سبحانہ و تعالى پسند كرتا ہے، اور آپ كو چاہيے كہ آپ كو ہم توبہ كے وجوب كے متعلق جو كچھ بتا چكے ہيں وہ آپ اپنے منگيتر كو بتائيں اور اسے نصيحت كريں، اور يہ كہ توبہ سچى اور پكى ہو، اور آپ دونوں يہ علم ميں ركھيں كہ عمر بہت ہى تھوڑى ہے، انسان كو كوئى علم نہيں كہ كب وہ اپنے پروردگار سے جا ملے.
اس ليے ندامت كا وقت آنے سے قبل اسے اطاعت و فرمانبردارى كے كام كرنے كى حرص ركھنى چاہيے، اور برائى اور منكرات سے اجتناب كرنا چاہيے.
كيونكہ وہ موت كو ايك سيكنڈ بھى مؤخر كرنے كى استطاعت نہيں ركھتا، اور نہ ہى مرنے كے بعد دنيا ميں واپس آنے كى استطاعت ركھتا ہے.
اس ليے آپ دونوں كو ہى اطاعت ميں ايك دوسرے كى معاونت كرنى چاہيے، اور آپ معصيت و گناہ ترك كرنے پر ايك دوسرے سے وعدہ كريں، اور اپنے وقت كو اللہ سبحانہ و تعالى كے ذكر ميں گزاريں.
اور خاص كر صبح و شام كے اذكار اور دعاؤں كى ضرور ہميشگى كريں، اور نوافل كى پابندى كريں، اور دعا كرتے رہيں اور آپ ايسا كرنے سے اجتناب كريں كہ رخصتى ميں معصيت و گناہ بھى ہو مثلا گانا بجانا اور موسيقى اور مرد و عورت كا اختلاط اور فحاشى.
كيونكہ يہ سب كچھ اللہ عزوجل كى ناراضگى كا باعث ہے اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كو بركت عطا فرمائے، اور دونوں ميں بركت دے، اور دونوں كو خير و بھلائى پر جمع كرے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو ايسے كام كرنے كى توفيق سے نوازے جس ميں اس كى رضامندى و خوشنودى ہے.
ششم:
اگر تو آپ كى وہ معصيت و گناہ وہ ہے جو منگيتر لڑكے اور لڑكى ميں ہوتى ہے يعنى بعض حدود سے تجاوزات تو ہمارى آپ دونوں كو نصيحت ہے كہ آپ جتنى جلدى ہو سكے عقد نكاح كر ليں، تا كہ آپ اس كى بيوى بن جائيں اور وہ آپ كا خاوند تو اس طرح آپ دونوں ايك دوسرے كے ليے حلال ہو جائينگے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب