كيا كسى دوسرے كى جانب سے كيا جانے والا حج گناہوں كى بخشش كا سبب بنتا ہے، اور خاص كر نماز ترك كرنے كا گناہ، اگر اس شخص نے وصيت كى ہو يا نہ ؟
اور كيا اپنى جانب سے حج كرنے والے شخص كے گناہ بخش ديے جاتے ہيں، خاص كر نماز ادا نہ كرنے كا گناہ ؟
كيا بے نماز كى طرف سے حج كيا جائيگا ؟
سوال: 9400
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
آپ كا يہ قول:
( خاص كر نماز ادا نہ كرنے كا گناہ ) آپ نے يہ جملہ دو بار كہا ہے، جو اس بات كى دليل ہے كہ نماز ترك كرنا اللہ تعالى كے ہاں عظيم گناہوں ميں شمار ہوتا ہے، اور واقعتا ہے بھى ايسا ہى.
علماء كرام نے تارك نماز كے كافر ہونے كے بارہ ميں اختلاف كيا ہے، ليكن صحيح يہى ہے كہ بے نماز كافر ہے، اور و مرتد ہونے كى وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہے، اس كى دليل درج ذيل احاديث ہيں:
1 – عبد اللہ بن بريدہ اپنے والد سے بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہمارے اور ان كے درميان عہد نماز ہے، چنانچہ جس نے بھى نماز ترك كى اس نے يقينا كفر كيا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2545 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 459 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1069 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن ترمذى حديث نمبر ( 2113 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
2 – ابو سفيان بيان كرتے ہيں كہ ميں نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے سنا وہ كہہ رہے تھے، ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" يقينا آدمى اور شرك و كفر كے درميان نماز كا ترك كرنا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 116 ).
صحابہ كرام كا تارك نماز كے كفر پر اجماع ہے، اور ان كے بعد والے علماء كرام كا بھى يہى كہنا ہے، ان علماء ميں عبد اللہ شقيق، ابراہيم النخعى، اسحاق بن راہويہ، احمد بن حنبل، عبد اللہ بن مبارك، حكم بن عتيبۃ وغيرہ شامل ہيں.
اور روز قيامت بندے سے سب پہلا سوال بھى نماز كے متعلق ہى ہونا ہے چنانچہ اگر اس كى نماز صحيح ہوئى تو باقى سارے اعمال بھى صحيح ہونگے اور اگر اس ميں ہى خرابى ہوئى تو باقى سارے عمل بھى خراب ہونگے.
اس ليے تارك نماز كو اپنے اعمال كا كوئى فائدہ نہيں ہوتا، بلكہ اس كے سارے كے سارے اعمال باطل اور تباہ ہو جاتے ہيں.
اللہ سبحانہ وتعالى كا كفار كے متعلق فرمان ہے:
اور انہوں نے جو اعمال كيے تھے ہم نے ان كى طرف بڑھ كر انہيں پراگندہ ذروں كى طرح كر ديا الفرقان ( 22 ).
اور ايك مقام پر اللہ تعالى كا فرمان ہے:
يقينا ہم نے تيرى طرف اور تجھ سے پہلے ( تمام انبياء ) كى طرف بھى وحى كى گئى ہے كہ اگر تو نے شرك كيا تو بلا شبہ تيرا عمل ضائع كر ديا جائيگا الزمر ( 65 ).
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے بھى نماز عصر ترك كى اس كے اعمال ضائع ہو گئے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 553 ).
اس بنا پر اگر تارك نماز حج كرتا ہے اور نماز ترك كرنے پر مصر ہے تو اس كا حج صحيح نہيں تو بالاولى ترك نماز كے گناہ كا كفارہ بھى نہيں بنےگا، اور اسى طرح جو شخص ترك نماز پر مصر ہو اور اسى حالت ميں اس كى موت واقع ہو جائے تو اس كى موت كے بعد اس كى جانب سے كيے جانے والے اعمال صالحہ كا اسے كوئى فائدہ نہيں ہوگا.
اور اگر كسى شخص كے بارہ ميں علم ہو كہ وہ نماز ترك كرنے پر مصر تھا اور اسى حالت ميں اسے موت آئى ہو تو كسى بھى شخص كے ليے اس كى بخشش اور رحمت كى دعا كرنى يا اس كى جانب سے حج كرنا جائز نہيں كيونكہ وہ كافر اور مشرك ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور ايمان والوں كے لائق نہيں كہ وہ مشركوں كے ليے بخشش كى دعا كريں، چاہے وہ ان كے قريبى رشتہ دار ہى كيوں نہ ہوں، اس كے بعد كے انہيں يہ معلوم ہو چكا ہے كہ وہ جہنمى ہيں التوبۃ ( 113 )
ليكن اگر تارك نماز توبہ كر كے نماز كى پابندى كرنے لگے اور اپنے كيے پر نادم ہو اور اسلام كى طرف پلٹ آئے تو يقينا اللہ تعالى اس كے سارے گناہ معاف كرنے والا ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
كافروں كو كہہ ديں كہ وہ باز آجائيں تو ان كے پچھلے گناہ بخش ديے جائينگے الانفال ( 38 ).
وہ باز آجائيں تو: يعنى اپنے كفر سے باز آ جائيں اور يہ اسلام قبول كرنے اور اللہ وحدہ لاشريك كے سامنے سرتسليم خم كرنے كے ساتھ ہو گا.
تفسير السعدى.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اسلام اپنے سے قبل سب گناہ ختم كر ديتا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 121 ). يعنى گناہ
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب