جب ميں بالغ ہوا اور مجھے احتلام ہونے لگا تو مجھے غسل فرض ہونے كا علم نہيں تھا، چنانچہ ميں تين برس تك اسى حالت ميں رہا، اور تين برس كے بعد مجھے غسل فرض ہونے كا علم ہوا، ميرا سوال يہ ہے كہ:
اس مدت كے درميان بغير غسل كيے ادا كردہ نمازوں كا مجھے كيا كرنا ہو گا، كيا ميرے ذمہ ان كى قضاء ہے يا نہيں ؟
تين برس تك غسل جنابت كيے بغير ہى نماز ادا كرتا رہا
سوال: 9446
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جب بھى آپ اپنے لباس پر منى لگى ہوئى پائيں تو آپ كے ليے غسل كرنا واجب ہو گا، چاہے آپ كو احتلام ياد نہ بھى ہو، اس ليے جب مسلمان نيند سے بيدار ہو اور اپنے لباس يا جسم يا ران وغيرہ پر نمى كے آثار پائے تو اس پر غسل كرنا واجب ہے، چاہے اسے ياد نہ بھى ہو كہ اسے نيند ميں احتلام ہوا ہے اس كے ليے غسل كرنا ضرورى ہے، كيونكہ منى كے نكلنے سے غسل واجب ہو جاتا ہے چاہے اسے نيند ميں احتلام ياد ہو يا نہ.
ليكن اگر اسے نيند ميں احتلام ہونا ياد ہو اور اس سے كوئى چيز خارج نہ ہوئى ہو، مثلا اگر آپ يہ كہيں كہ مجھے نيند ميں احتلام ہوا تھا وہ اس طرح كہ كسى عورت كے ساتھ نيند ميں جماع كيا، ليكن بيدار ہونے كے بعد آپ كو منى كے كوئى آثار نہ ملے نہ تو لباس ميں اور نہ ہى بدن پر اور نہ ہى سونے والى جگہ پر تو كيا پھر بھى غسل واجب ہو گا ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ جب منى كے آثار نہيں ہيں تو اس صورت ميں غسل واجب نہيں ہو گا، اگرچہ آپ نے خواب ديكھا ہو، كيونكہ غسل تو منى خارج ہونے كى صورت ميں واجب ہوتا ہے.
ليكن آپ كا يہ كہنا كہ آپ تين برس تك غسل جنابت كيے بغير ہى نمازيں ادا كرتے رہے ہيں، اس سلسلہ ميں آپ اور آپ جيسے افراد پر واجب ہے كہ اس كے متعلق آپ كسى سے پوچھ ليتے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا ارشاد ہے:
اگر تمہيں علم نہيں تو اہل علم سے دريافت كر ليا كروالنحل ( 43 )
اللہ تعالى كے ہاں آپ معذور نہيں اور نہ ہى آپ كے پاس كوئى عذر ہے كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے آپ كو صحت و عافيت سے نواز ركھا ہے، اور آپ كو صحت بھى دى ہے، اور آپ كو حكم ديا ہے كہ آپ اہل علم سے سوال كريں اس ليے آپ كے ليے بغير علم كے جہالت ميں ہى اللہ تعالى كى عبادت كرنى جائز نہيں، كيونكہ جہالت و گمراہى ميں رہ كر عبادت كرنا تو عيسائيوں كا طريقہ ہے.
كيا آپ نے سورۃ الفاتحہ كا مطالعہ نہيں كيا، اور كيا آپ روزانہ نماز ميں يہ آيت نہيں پڑھتے:
اھدنا الصراط المستقيم صراط الذين انعمت عليھم غير المغضوب عليھم و لا الضالين الفاتحۃ ( 6 – 7 ).
اے اللہ ہميں صراط مستقيم دكھا، ان لوگوں كى راہ جن پر تو نے انعام كيا نہ كہ ان لوگوں كى راہ جن پر تيرا غضب نازل ہوا، اور نہ ہى گمراہ لوگوں كى راہ دكھانا.
چنانچہ يہاں مغضوب عليھم يعنى جن پر اللہ تعالى كا غضب ہوا اس سے مراد يہودى ہيں جن كے پاس علم تو تھا ليكن وہ اس پر عمل نہيں كرتے تھے، اور الضالين يعنى گمراہوں سے مراد عيسائي ہيں، جو جہالت اور گمراہى كے ساتھ اللہ تعالى كى عبادت كرتے تھے.
چنانچہ مسلمان شخص بھى جب ايسى طرح جہالت اور گمراہى ميں رہ كر عبادت كرے گا تو وہ گمراہوں ميں سے ہے.
بعض علماء كرام كا كہنا ہے: ہمارے علماء ميں سے جو بھى فاسد اور خراب ہو جائے اس ميں يہوديوں كى مشابہت ہے، اور ہمارى عابد لوگوں ميں سے جو كوئى بھى گمراہ و فاسد اور خراب ہو جائے اس ميں عيسائيوں كى مشابھت پائى جاتى ہے.
آپ كو اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرتے ہوئے كثرت سے نوافل ادا كرنے چاہيں، بلكہ بعض علماء كرام تو آپ پر ان تين برس كى نمازوں كى قضاء لازم قرار ديتے ہيں، ليكن جب يہ سب كچھ جہالت كى بنا پر ہوا اور ان نمازوں كى تعداد بھى زيادہ ہے تو مجھے اميد ہے كہ ان شاء اللہ آپ پر كوئى حرج نہيں ليكن آپ اس كمى كو دور كرنے كے ليے كثرت سے نوافل كى ادائيگى كريں اور اس كے ساتھ ساتھ اگر قضاء كرنى ممكن ہو تو ہرحال ميں يہ متعين ہے، اور اگر آپ چاہيں تو توبہ كے ساتھ ساتھ كثرت سے نوافل ادا كريں، جيسا كہ اہل علم نے اس اختلافى مسئلہ ميں جمع اور تطبيق كرتے ہوئے كہا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى فضيلۃ الشيخ عبد اللہ بن حميد صفحہ نمبر ( 64 )