0 / 0
14,89031/07/2003

اگرعورت طلاق لے کر کہیں اورشادی کرلے توکیا اسے اپنی اولاد کی پرورش کا حق حاصل ہے ؟

سوال: 9463

ایک سائلہ کہتی ہے کہ :
وہ اپنے خاوند سے طلاق یا خلع حاصل کرنے والی ہے اس لیے کہ اس کا خاوند اس سے معاملات اچھے نہیں رکھتا اوراس کے تین بچے بھی ہیں جن کی پرورش بھی کرنی پڑے گی اس کا سوال یہ ہے ( حالانکہ ابھی اس کی عدت بھی شروع نہیں ہوئی ) :
اگرکسی شخص نے شادی کا پیغام بھیجا اوروہ اس سے شادی کرلے تو قانون کے مطابق تواسے بچوں کی پرورش کا حق حاصل ہوگا لیکن وہ اللہ سے ڈرتی اورشریعت اسلامیہ کی مخالفت نہيں کرنا چاہتی ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول :

عورت کواپنے خاوند کے بارہ میں صبرکرنا چاہے اورخاص کرجبکہ اس کی اولاد بھی ہوتواورزيادہ صبرکرے ، کوئی بھی گھر اختلافات سے خالی نہيں ، لیکن اگر خاوند کے معاملات بہت ہی زيادہ برے ہیں اوروہ اس کے ساتھ زندگی نہيں گزار سکتی تواوربات ہے ۔

دوم :

جب عورت کوطلاق ہوجاۓ تواس کی عدت تین حیض ہے ، لیکن اگر وہ اپنے خاوند سے خلع حاصل کرتی ہے تواس کی عدت ایک حیض ہوگی اوراس عدت کے دوران منگنی کرنا حرام ہے ۔

سوم :

شریعت اسلامیہ نے بیان کردیا ہے کہ جب میاں اوربیوی کے مابین علحیدگی ہوجاۓ تو اولاد کی پرورش کا حق ماں کو باپ کی نسبت زیادہ ہے ، لیکن اگر وہ شادی کرلیتی ہے توپھر اس کا حق پرورش ساقط ہوجاۓ گا ۔

اس کی دلیل نبی صلی اللہ کا فرمان ہے : عبداللہ بن عمرورضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ :

نبی صلی اللہ علیہ سے اپنے خاوند سے طلاق بعد اپنے بچے کی پرورش طلب کی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا تھا :

( تجھے نکاح سے قبل زيادہ حق ہے ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2276 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود ( 1991 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

یعنی شادی سے قبل والدہ کواپنے بچے کی پرورش کا حق ہے لیکن شادی کے ساتھ ہی یہ حق ساقط ہوجاۓ گا ۔

تویہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ شادی سے قبل عورت کو بچوں کی پرورش کا خاوند سے زیادہ حق حاصل ہے ۔

اس لیے ہم سوال کرنے والی بہن کونصیحت کرتے ہیں کہ وہ طلاق یا خلع لینے سے قبل اچھی طرح غورو فکر کرے اگرتوآپ خاوند کی اذیت پر صبر کرسکتی ہیں اورگفت وشنید کے بعد آپ کے مابین اختلافات ختم ہوسکتے ہیں تویہ زیادہ بہتر اورافضل ہے ، لیکن اگر آپ خاوند کے ساتھ زندگی نہيں گزار سکتیں توپھر یہ معاملہ آپ پر ہے ۔

اوراگر علیحدگی ہوجاۓ توپھر عورت اولاد یا پھر اور خاوند میں سے جسے چاہے اختیار کرسکتی ہے ، اوراسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالی سے استخارہ اوراس سے مدد طلب کرے اوراس کے سامنے التجا کرتے ہوۓ دعا کرے کہ وہ اسے صحیح اوراچھے راستے کی راہنمائی فرماۓ ، اس مسئلہ میں اسلام کا حکم تویہی ہے ۔

لیکن اگر آپ کے ملک میں یہ قانون ہے کہ شادی کے بعد بھی بچوں کی پرورش پر ماں کا ہی حق ہے تویہ شریعت اسلامیہ کے مخالف ہے جوکہ جائز نہيں ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

کیا وہ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں ، اوریقین کرنے والی قوم کے لیے اللہ تعالی سے اچھا اوربہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے المائدۃ ( 50 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android