كيا ٹى وي پر فٹ بال ميچ چاہے وہ ملكى ہو يا غير ملكى حلال ہے يا حرام ؟
فٹ بال ميچ ديكھنے كا حكم
سوال: 95280
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مستقل فتاوى كميٹى كے سامنے اس جيسا ہى ايك سوال پيش كيا گيا ذيل ميں ہم سوال اور جواب پيش كرتے ہيں:
ورلڈ كپ كھيلوں كے ميچ ديكھنے كا حكم كيا ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
” فٹ بال ميچ جو مال وغيرہ انعام پر كھيلا جائے وہ حرام ہے؛ كيونكہ يہ قمار بازى اور جوا ہے؛ اس ليے كہ عوض اسى چيز پر لينا جائز ہے جس ميں شريعت نے اجازت دى ہے، اور وہ گھوڑوں اور اونٹوں كى دوڑ اور تير اندازى ہے، اس بنا پر ان ميچ ميں جانا حرام ہے، اور اسىطرح اسے ديكھنا بھى، جسے علم ہو كہ يہ معاوضہ پر كھيلا جا رہا ہے اس كے ليے وہاں جانا اور اسے ديكھنا جائز نہيں؛ كيونكہ اس ميچ ميں جانا اس كو صحيح قرار دينا ہے.
ليكن اگر يہ ميچ اور مقابلے بغير كسى عوض كے ہوں اور اللہ تعالى كے واجب كردہ اعمال مثلا نماز وغيرہ سے مشغول بھى نہ كريں، اور كسى ممنوعہ كام پر بھى مشتمل نہ ہوں مثلا ستر ننگا كرنا، يا مرد و عورت كا اختلاط، يا پھر موسيقى وغيرہ دوسرے گانے بجانے كے آلات نہ ہوں تو پھر اسے ديكھنے ميں كوئى حرج نہيں.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
عبد العزيز بن عبد اللہ باز
عبد العزيز بن عبد اللہ آل شيخ
صالح بن فوزان الفوزان
بكر بن عبد اللہ ابو زيد.” انتہى.
ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 15 / 238 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
نيكر پہن كر كھيلنے اور ورزش كرنے، اور اس عمل كو ديكھنے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
جب كسى واجب كى ادائيگى ميں خلل پيدا نہ ہو اور اس سے مشغول نہ كرے تو كھيل اور ورزش جائز ہے، ليكن اگر وہ واجب چيز سے روك دے اور اس ميں خلل پيدا كرے تو يہ حرام ہو گى.
اور اگر انسان اسے عادت ہى بنا لے كہ اس كا اكثر وقت اسى ميں گزرتا ہو تو يہ وقت كا ضياع ہے، تو اس حالت ميں يہ كم از كم مكروہ ہو گى.
اور اگر كھيلنے اور ورزش كرنے والا نيكر پہنے اور اس كى ران يا اس كا اكثر حصہ ننگا ہو تو يہ جائز نہيں، كيونكہ صحيح يہى ہے كہ نوجوان اپنى رانيں چھپا كر ركھيں اور اسے ننگا مت كريں، اور اس حالت ميں كھيلنے والوں كو ديكھنا بھى جائز نہيں، كيونكہ انہوں نے ستر ننگا كر ركھا ہے ” انتہى.
ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 431 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب