كئى برس كى تلاش كے بعد مجھے ايك كمپنى ميں ملازمت ملى ہے، ليكن مجھے ايك يہ مشكل درپيش ہے كہ ميرے ذمہ جو كام لگايا گيا ہے اس ميں يہ بھى شامل ہے كہ ميں رپورٹ تيار كر كے فائنل ٹيكنكل فائل كے ساتھ لگاؤں، آپ كے علم كے ليے يہ بتانا چاہوں گا كہ وركشاپ ميں ہونے والے كام سے ملانے سے يہ معلومات چيك اپ كرنے والے آلہ سے آٹوميٹك حاصل ہوتى ہيں، مجھے جو چيز پريشان كرتى ہے وہ يہ كہ مجھ سے كہا گيا ہے كہ اس رپورٹ كو كپيوٹر پر لكھوں اور چيك اپ كرنے والے آلہ نے ٹيكنكل رپورٹ ميں جو عيب بھى ظاہر كيا ہے اسے مٹا ديا جائے، حالانكہ ہونا يہ تھا كہ عيب موجود ہونے كى صورت ميں ملازمين گاہك كے پاس جائينگے اور اس عيب كى مرمت كى جائيگى، ليكن جب گاہك چيك اپ آلہ سے جارى ہونے والى رپورٹ ميں كوئى عيب نہيں پائيگا تو وہ بل ادا كر ديگا، كيونكہ يہ رپورٹ بہت ہى مصدقہ ہوتى ہے اور اس ميں جعل سازى كرنا بہت مشكل ہے، صرف كپيوٹر كے جديد پروگرام كے ذريعہ ہى ايسا كيا جا سكتا ہے, برائے مہربانى آپ اس كا كوئى حل بتائيں اور مجھے اپنے ضمير كى ملامت سے نكاليں.
آلہ سے چيك كرنے ميں ظاہر ہونے والے عيوب مٹانا تا كہ گاہك نہ ديكھ سكے
سوال: 95353
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جس طرح آپ نے بيان كيا ہے رپورٹ ميں اس طرح كا تصرف كرنا دھوكہ و فراڈ ہے جو كہ جائز نہيں، جس كے نتيجہ ميں لوگوں كا ناحق مال كھايا جاتا ہے، اور جو كوئى بھى اس دھوكہ اور فراڈ ميں شريك ہو گا وہ گنہگار ہے.
واجب تو يہ ہے كہ جو كام كيا جا رہا ہے اس كے عيوب كا خريدار كو بتايا جائے، اور اگر وہ اس پر راضى ہوتا ہے تو ٹھيك، وگرنہ كاريگر اسے ٹھيك كريں اور اس كى مرمت كر كے ديں جيسا كہ آپ نے بيان كيا ہے.
امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس نے بھى دھوكہ ديا وہ ہم ميں سے نہيں ہے ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 101 ).
اور امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے حكيم بن حزام رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جب تك خريدار اور فروخت كرنے والا ايك دوسرے سے جدا نہيں ہوتے انہيں اختيار حاصل ہے، اور اگر وہ سچائى اختيار كرينگے اور وضاحت كر دينگے تو ان دونوں كى بيع ميں بركت كر دى جائےگى، اور اگر وہ چھپائيں گے، اور جھوٹ بوليں گے تو ان كى بيع كى بركت مٹا دى جائيگى ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2079 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1532 ).
يہ بات آپ كے علم ميں ہونى چاہيے كہ روزى ايك ايسا معاملہ ہے جو اللہ تعالى نے آسمان و زمين پيدا كرنے سے قبل ہى لكھ ديا تھا اور اس كا اندازہ مقرر كر ديا تھا، اس ليے روزى كا كم ہونا اور دير سے آنا آپ كو اس پر نہ ابھاريں كہ آپ اللہ كى معصيت و نافرمانى كے ذريعہ روزى حاصل كرنے لگيں.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” يقينا روح القدس نے ميرے دل ميں يہ بات ڈالى ہے كہ كوئى بھى جان اس وقت تك فوت نہيں ہوگا جب تك كہ وہ اپنى روزى پورى نہ كر لے، اور سارا رزق كھا نہ لے، تو تم اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتے ہوئے روزى كا حصول اچھى طرح كرو، اور تم ميں سے كسى كو بھى روزى كا ليٹ اور كم ہو جانا اس پر مت ابھارے كہ تم اللہ كى نافرمان و معصيت كر كے روزى حاصل كرنے لگو، كيونكہ جو كچھ اللہ تعالى كے پاس ہے وہ اللہ كى اطاعت و فرمانبرداى كے ذريعہ ہى حاصل ہو سكتا “
اسے ابو نعيم نے ” الحليۃ ” ميں روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2085 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اس ليے آپ كو چاہيے كہ آپ كمپنى كے ذمہ داران كو نصيحت كريں اور ان كے سامنے اس بات كى وضاحت كريں كہ دھوكہ دينا حرام ہے، اور دنيا ميں اس كى سزا بركت ختم ہونا، اور آخرت ميں عذاب ظلم اور لوگوں كا ناحق مال كھانے كى سزا ہے، اگر تو كمپنى كے ذمہ داران آپ كى بات تسليم كر ليں تو ، اور اگر وہ قبول نہيں كرتے تو اس كام كو ترك كر كے كوئى اور كام تلاش كر ليں.
فرمان بارى تعالى ہے:
اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے، اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے روزى بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اس كو وہم وگمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى اللہ تعالى پر توكل كرتا ہے اللہ تعالى اس كو كافى ہو جاتا ہے، يقينا اللہ تعالى اپنے كام كو پورا كرنے والا ہے، اور اللہ تعالى نے ہر چيز كا اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 – 3 ).
ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كى روزى ميں وسعت كرے، اور آپ كے مال و دولت ميں بركت فرمائے، اور آپ كو حرام كے بدلے حلال دے كر حرام سے غنى اور بے پرواہ كر دے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب