مجھ سے ايك بھائى نے كسى بھى پراجيكٹ يا كام كے ليے استخارہ كے جواز كے متعلق دريافت كيا، ہميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ كى مندرجہ ذيل حديث كا علم تو ہے:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں سب امور ميں استخارہ كى تعليم ديتے تھے …. ” يہ حديث بخارى شريف ميں ہے.
ليكن اگر كوئى شخص الزامى كام كے ليے استخارہ كرے تو پھر ! كيونكہ ميں حديث ميں وارد لفظ كلہا يعنى سب امور كو نہيں سمجھ سكا، آيا سب امور كو شامل ہے يا كہ بطور اغلبيت ذكر ہوا ہے، كيونكہ ميرى سمجھ كے مطابق عربى لغت ميں كل سے مراد اغلبيت ہے.
تو كيا جناب فضيلۃ الشيخ آپ حديث ميں وارد كلمہ ” كلہا ” كى كچھ وضاحت فرمائيں گے؟
اور كيا اجبارى معاملات ميں بھى استخارہ كيا جا سكتا ہے ؟
كيا اجبارى معاملات ميں مسلمان استخارہ كرے ؟
سوال: 9588
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
واجبات سرانجام دينے ميں كوئى اختيار نہيں ہے، كيونكہ اللہ تعالى نے يہ ہم پر لازم كيے ہيں، اور اسى طرح حرام اشياء اور كاموں كو ترك كرنے ميں بھى كوئى اختيار نہيں، لھذا ايسا عمل جسے كيے بغير كوئى چارہ نہ ہو اس ميں استخارہ كا كوئى معنى نہيں، اور اس ميں استخارہ مشروع نہيں ہے.
بلكہ استخارہ تو مباح كاموں ميں سے ايك كى ترجيح كے ليے ہے، اور اسى طرح كئى ايك مستحبات ميں سے ايك مستحب كى تعيين كے ليے استخارہ كيا جاتا ہے، مثلا يہ كہ وہ كونسے ملك اور شہر ميں علم حاصل كرنے كے ليے جائے، يا پھر كس استاد اور شيخ سے علم حاصل كرے، يا كونسے درس ميں بيٹھے، تو اس ميں مشورہ كرے اور پھر جو اسے راجح لگے اس ميں استخارہ كر لے.
اور اسى طرح كسى خاص اور معين عورت سے شادى كرنے كے ليے استخارہ كر سكتا ہے، يا پھر اس برس يا اس كے بعد نفلى حج كرنے ميں استخارہ كر سكتا ہے، اور اسى طرح ہر اس چيز ميں جس ميں اسے تردد ہو، تو يہ اس قول ” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں سب امور ميں استخارہ كرنے كى تعليم ديتے تھے” ميں داخل ہو گا.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد