قرعہ اندازی والی کمیٹی میں شمولیت اختیار کرنے کا کیا حکم ہے، اس میں ہوتا یوں ہے کہ چند افراد مل کر ماہانہ معین کردہ رقم جمع کرتے ہیں اور پھر ہر ماہ کے آخر میں کمیٹی میں شامل افراد کے ناموں کی قرعہ اندازی کی جاتی ہے، تو جس کا قرعہ نکل آئے وہ سب کی طرف سے جمع کی ہوئی رقم لے لیتا ہے اور اس طرح ہر ماہ ایک شخص کو جمع شدہ رقم دے دی جاتی ہے اور سب کے سب باری باری اپنی رقم لے لیتے ہیں، تو کمیٹی کے ذریعے ملی ہوئی رقم پر زکاۃ ہے؟
ملازمین کی آپس میں ڈالی ہوئی کمیٹی پر زکاۃ کیسے ادا ہو گی؟
سوال: 95880
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اس طریقہ کار کو عرف میں کمیٹی کہتے ہیں اس کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے، تاہم اکثر اہل علم اس کے جواز کے قائل ہیں۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے ایسے اساتذہ کے بارے میں پوچھا گیا جو ہر ماہ کے آخر میں اپنی تنخواہ سے معین رقم جمع کرتے ہیں اور آپس میں کسی ایک استاد کو تھما دیتے ہیں، آئندہ مہینے دوسرے ساتھی کو رقم دی جاتی ہے، اس طرح سب افراد اپنا اپنا حصہ لے لیتے ہیں [اسے کچھ لوگ بیسی بھی کہتے ہیں ]تو شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ قرض تو ہے لیکن اس میں کسی زائد نفع کی کسی پر کوئی شرط نہیں ہے، اس بارے میں سپریم علما کونسل نے بحث و تمحیص بھی کی ہے اور اکثریت نے اس کے جائز ہونے کا فیصلہ دیا؛ کیونکہ اس میں سب کا فائدہ ہو جاتا ہے اور کسی کو اس میں نقصان نہیں ہوتا۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق دینے والا ہے" ختم شد
"فتاوى إسلامية" (2/413)
دوم:
اس کمیٹی کی زکاۃ کا معاملہ درج ذیل امور کی معرفت سے منسلک ہے:
- جس کے پاس اتنی رقم ہو جو زکاۃ کے نصاب تک پہنچ جائے اور اس پر ایک سال بھی گزر چکا ہو تو اس پر اس کی زکاۃ ادا کرنا واجب ہے، زکاۃ کا نصاب یہ ہے کہ 85 گرام سونا یا 595 گرام چاندی یا اس کے مساوی رقم اکٹھی ہو جائے، نیز زکاۃ کا سال اس وقت شمار ہونا شروع ہو گا جب رقم نصاب کو پہنچے گی۔
- زکاۃ کے مالی سال کے دوران اگر کسی کو مزید مال مل جائے جو پہلے سے موجود مال کا نفع یا نتیجہ نہ ہو ، مثلاً: وراثت ، یا تحفہ یا قرض کی صورت میں مال ملے تو اس کی زکاۃ کا مالی سال الگ سے شروع ہو گا، چنانچہ جب اس کا سال پورا ہو گا تو اس کی زکاۃ دے گا، تاہم اس کے لئے یہ جائز ہے کہ اس مال کو پہلے سے موجود مال کی زکاۃ کے ساتھ ملا کر اکٹھی زکاۃ ادا کر دے، تو اس طرح اس مال کی زکاۃ وقت سے پہلے ادا ہو جائے گی یعنی سال پورا ہونے سے پہلے ادا ہو گی، یہ جائز ہے۔
- کسی نے قرض واپس لینا ہو اور مقروض شخص مقررہ وقت پر قرض واپس دینے کا خواہاں بھی ہو تو قرض خواہ کو چاہیے کہ سال پورا ہونے پر اس کی زکاۃ ادا کرے، چاہے یہ قرض کئی سالوں تک چلتا رہے۔
- مقروض شخص کے پاس اگر مال ہو تو سال گزرنے پر اس کی زکاۃ ادا کرے گا اور زکاۃ ادا کرنے کے لئے اپنے مال میں سے قرض کی رقم منہا نہیں کرے گا، علمائے کرام کے دو اقوال میں سے راجح یہی موقف ہے۔
اس بنا پر : کمیٹی سے حاصل ہونے والی رقم پر زکاۃ کے متعلق درج ذیل امور ہیں:
- کمیٹی نکلنے پر جو رقم ملے وہ نصاب تک پہنچتی ہو تو وہ اس رقم کو پہلے سے موجود رقم کے زکاۃ کے مالی سال میں شامل کر لے یا پھر کمیٹی ملنے کے دن سے اس رقم کا نیا مالی سال شمار کرنا شروع کرے پھر جیسے ہی ایک ہجری سال مکمل ہو تو اس کی زکاۃ ادا کرے۔ یہ اس وقت ہے جب ایک ہجری سال کی مدت تک رقم نصاب کے برابر بچی رہے، لیکن اگر کمیٹی سے نکلی ہوئی رقم خرچ ہو جاتی ہے یا نصاب کی مقدار سے کم ہو جاتی ہے تو اس پر کوئی زکاۃ نہیں ہے۔
مثال کے طور پر: ایک آدمی کے پاس رمضان میں اتنا مال جمع ہو گیا کہ نصاب تک پہنچ گیا اور پھر اگلے ماہ شوال میں کمیٹی نکل آئی تو آئندہ سال ماہ رمضان میں یا تو مکمل رقم کی زکاۃ دے یا پھر رمضان میں نصاب کے برابر جو رقم جمع ہوئی اس کی زکاۃ رمضان میں دے اور کمیٹی کی مد میں ملنی والی رقم کی زکاۃ شوال میں دے۔
- اگر کمیٹی کی ماہانہ قسطیں نصاب کے برابر ہوں، یا پھر آدمی نے کمیٹی میں جو رقم جمع کی ہوئی ہے اس کے علاوہ اور رقم بھی ہو جس سے نصاب پورا ہو جاتا ہو تو پھر جب کمیٹی کا ہجری سال پورا ہو گیا [تو اس کی زکاۃ ادا کرے گا۔] مثال کے طور پر: زید نامی شخص نے کمیٹی میں جو رقم جمع کروائی ہوئی ہے وہ 20 ہزار ریال ہے، اس کی کمیٹی ابھی تک نہیں نکلی تو وہ ان بیس ہزار ریال کی زکاۃ ادا کرے گا؛ کیونکہ ان بیس ہزار ریال کا حکم وہی ہے جو قرض کا ہوتا ہے؛ کیونکہ یہ 20000 اس کی طرف سے اپنے بھائیوں کو قرض دیا گیا ہے۔
اور اگر کمیٹی کی ماہانہ قسط نصاب تک نہیں پہنچتی، نہ ہی اس کے پاس کوئی اور رقم ہے جس سے نصاب پورا ہوتا ہو تو اس کی زکاۃ کا سال اس وقت شروع ہو گا جب کمیٹی کے لئے ادا کردہ رقم نصاب کے برابر ہو جائے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب