ميں نے قرآن ميں پڑھا كہ انسان پر تين مرتبہ نماز پڑھنى واجب ہے، سورج نكلنے سے قبل، اور سورج غروب ہونے كے بعد، اور دن كے وسط ميں، تو پھر ہم پانچ مرتبہ نماز كيوں ادا كرتے ہيں؟
گزارش ہے كہ آپ مجھے وہ قصہ نہ بيان كريں جس ميں ہے كہ پچاس ہزار نماز فرض تھيں اور پھر اس ميں كمى كر كے پانچ رہنے دى گئيں، ميں چاہتا ہوں كہ جواب اطمنان بخش ہو ؟
ہم نماز پنجگانہ كيوں ادا كرتے ہيں
سوال: 9603
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
1 – سوال ميں جو نمازوں كى تعداد ذكر كى گئى ہے وہ غلط ہے، نمازيں پچاس تھيں ( 50 ) پھر ان ميں تخفيف كر كے پانچ رہنے ديا گيا جو كہ رب العالمين كا مسلمانوں پر احسان و انعام ہے.
2 – احكام شرعيۃ كى دو اقسام ہيں:
ان ميں سے كچھ احكام تو ايسے ہيں جو معقول المعنى ہيں، اور كچھ ايسے ہيں جو صرف تعبدى ہيں، اور اس كى حكمت ہم پر مخفى ہے، نہ تو يہ حكمت كتاب اللہ ميں اور نہ ہى سنت رسول اللہ ميں ذكر كى گئى ہے.
پہلى قسم كى مثال شراب اور جوا قمار بازى كى حرمت ہے، اللہ سبحانہ وتعالى نے ہمارے ليے اس كى حرمت كى حكمت بيان كى ہے جو كہ مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى ميں ہے:
شيطان تو يہى چاہتا ہے كہ وہ شراب اور جوے كے ذريعہ تمہارے مابين دشمنى و عداوت اور بغض پيدا كردے، اور تمہيں اللہ تعالى كے ذكر اور نماز سے روك دے، تو كيا تم باز آنے والے ہو المآئدۃ ( 91 ).
اور اس طرح كے احكام بہت زيادہ ہيں.
اور دوسرے كى مثال يہ ہے:
نماز ظہر كا زوال كے وقت، اور مسلمان كا كعبہ كے گرد اس طرح طواف كرنا كہ كعبہ اس كى بائيں جانب ہو، اور سونے كا نصاب دس كا چوتھائى حصہ اور نماز مغرب تين ركعات، اس طرح كے احكام بہت زيادہ ہيں.
اور جو چيز سوال ميں دريافت كى گئى ہے وہ دوسرى قسم ميں سے ہے جو كہ وہ ہے جس كى حكمت كا ہميں نہ تو كتاب اللہ سے علم ہوتا ہے، اور نہ ہى سنت نبويہ سے، لہذا اللہ تعالى كے حكم كو تسليم كرنا واجب ہے، اور پھر اس طرح تو سب احكام ميں سوالات تكرار سے پيدا ہونگے.
مسلمان شخص پر واجب ہے كہ جس كى حكمت اللہ تعالى نے مبہم ركھى ہے وہ اس پر توقف كرے، اور وہ بھى اسى طرح كہے جس طرح كہ مومن لوگ كہتے ہيں: سمعنا واطعنا ہم نے سن ليا اور اطاعت كر لى، اور وہ بنى اسرائيل كى طرح نہ بنے جنہوں نے يہ كہا:
سمعنا و عصينا ہم نے سن ليا اور نافرمانى كى، اور انہيں اللہ تعالى كے اس فرمان پر عمل كرنا چاہيے:
وہ اپنے كاموں كے ليے ( كسى كے آگے ) جواب دہ نہيں، اور سب ( اس كے آگے ) جواب دہ ہيں الانبياء ( 23 ).
3 – الموسوعۃ الفقھيۃ الكويتيۃ ( 1 / 49 – 51 )ميں بہت ہى نفيس كلام كى گئى ہے جسے ہم فائدہ كے ليے نقل كرتے ہيں:
فقھى مسائل ميں تشريعى حكمت كے ادراك اور عدم ادراك كے اعتبار سے دو قسموں ميں منقسم ہوتے ہيں:
پہلى قسم:
وہ احكام جن كا معنى عقل ميں آتا ہے، اور اسے احكام معللہ كا نام بھى ديا جا سكتا ہے، يہ وہ احكام ہيں جس كى تشريع كى حكمت كا ادراك كيا جا سكتا ہے، يا تو اس حكمت پر نص ہونے كى بنا پر يا پھر اس كا استنباط آسان ہے.
اور يہ مسائل بہت زيادہ ہيں جو كہ اللہ تعالى نے مشروع كيے ہيں مثلا نماز، زكاۃ، روزے، اور حج كى مشروعيت، اور اسى طرح نكاح ميں مہر كى مشروعيت كا وجوب، اور طلاق اور خاوند كى فوتگى كى حالت ميں عدت، اور بيوى اور اولاد اور رشتہ داروں كے نفقہ كا وجوب، اور اسى طرح ازدواجى زندگى ميں مشكلات كى صورت ميں طلاق كى مشروعيت… ہزاروں فقھى مسائل ہيں.
دوسرى قسم:
احكام تعبديہ:
يہ وہ احكام ہيں جس كے فعل اور اس پر مرتب ہونے والے حكم كے مابين مناسبت كا ادراك نہيں ہو سكتا، اس كى مثال نمازوں كى تعداد، اور ركعات كى تعداد، اور حج كے اكثر اعمال ہيں.
اور اللہ تعالى كى رحمت ہے كہ ان احكام كى تعداد پہلى قسم معقول المعنى كے مقابلہ ميں بہت كم ہے، اور ان تعبدى احكام كى تشريع ميں بندے كا امتحان ہے كہ آيا وہ حقيقى اور سچا مومن ہے يا نہيں ؟
اور يہاں يہ جاننا ضرورى ہے كہ شريعت اپنے اصول اور فروعات ميں ايسى اشياء نہيں لائى جن كا عقل انكار كر دے، بلكہ بعض اوقات ايسے اشياء ہو سكتى ہيں جن كا عقل ادراك نہيں كر سكتى، اور ان دونوں معاملوں ميں بہت فرق ہے.
انسان جب ـ عقلى طور پر ـ مطمئن ہو جائے كہ اللہ تعالى موجود ہے اور وہ حكمت والا ہے، اور وہ اكيلا ہى ربوبيت كا مستحق ہے كوئى اور نہيں، اور وہ ـ عقلى طور پر ـ اس نے جو رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى سچائى كے معجزات اور دلائل ديكھے ہيں انہيں تسليم كر لے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے اس تك پہنچے ہيں، تو اس طرح اس نے اللہ تعالى كى حاكميت اور ربوبيت كا اقرار كر ليا، اور يہ اقرار كر ليا كہ وہ بندہ ہے اور اللہ كى بندگى كرنے والا ہے، لہذا جب اسے كوئى حكم ديا جائے يا كسى كام سے روكا جائے تو وہ كہے:
ميں اس حكم پر اس وقت تك عمل نہيں كرونگا جب تك اس حكم كى حكمت كا مجھے علم نہ ہو جائے يا جس كام سے منع كيا گيا ہے اسے منع كرنے كى حكمت معلوم نہ ہو جائے، تو اس طرح اس نے اپنے اس دعوى كو جھٹلا ديا كہ وہ اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر ايمان ركھتا ہے، كيونكہ عقلوں كى حد ہے جو اس كا ادراك نہيں كر سكتى جيسا كہ حواس كى بھى حد ہے جہاں سے حواس تجاوز نہيں كرتے.
اور اللہ تعالى كے تعبدى احكام سے سركشى كرنے والے كى مثال بالكل اس مريض جيسى ہے جو كسى تجربہ كار اور بااعتماد ڈاكٹر كے پاس گيا اور ڈاكٹر نے اسے كچھ دوائيں تجويز كر ديں، بعض كھانے سے قبل اور بعض كھانے كے دوران اور بعض دوائيں كھانے كے بعد اور ان سب كى مقدار بھى مختلف تجويز كى، تو وہ مريض ڈاكٹر سے كہنے لگا:
ميں آپ كى دوائى اس وقت تك استعمال نہيں كرونگا جب تك آپ كھانے سے قبل، اور كھانے كے دوران اور كھانے كے بعد استعمال كرنے كى حكمت بيان نہ كريں، اور اس ميں كيا حكمت ہے كہ آپ نے اس كى خوراك كى مقدار ميں بھى فرق ركھا ہے؟
تو كيا يہ مريض واقعتا اور حقيقتا اس ڈاكٹر پر اعتماد كرتا ہے ؟
تو اسى طرح جو اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم پرايمان كا دعوى كرے اور پھر ان احكام ميں سركشى كرے جن كى حكمت كا وہ ادراك نہيں كر سكتا، جبكہ حقيقى اور سچا مومن تو وہ شخص ہے جسے جب كوئى حكم ديا جائے يا كسى كام سے منع كيا جائے تو وہ كہتا ہے، ميں نے سن ليا اور اطاعت كى، اور خاص كر جب ہم يہ بيان كر چكے ہيں كہ ايسے كوئى احكام نہيں جنہيں عقل سليم تسليم نہ كرتى ہو اور اس كا انكار كرے، لہذا كسى چيز كا علم نہ ہونا اس كى نفى كى دليل نہيں ہوتى.
كتنے ہى احكام ايسے ہيں جن كى حكمت ہم سے مخفى ہے، اور وہ گزر جانے كے بعد ہمارے ليے حكمت ظاہر ہوتى ہے، بہت سے لوگوں پر خنزير كے گوشت كى حرمت كى حكمت مخفى تھى، پھر ہميں يہ پتہ چلا كہ يہ خبيث جانور كتنى قسم كى بيمارياں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، اور اس كى خبيث اور گندى صفات بھى ظاہر ہوئيں، اللہ تعالى نے چاہا كہ اسلامى معاشرے كو ان بيماريوں اور گندى صفات سے محفوظ ركھے.
اور اسى طرح اس برتن كا معاملہ جس ميں كتا منہہ ڈال دے تو اسے سات بار دھونا اور جس ميں ايك بار مٹى كے ساتھ دھويا جائے….
اس كے علاوہ كئى احكام ہيں جن كى مشروعيت كے راز اب كھل رہے ہيں، اگرچہ پہلے يہ ہم پر مخفى تھے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب