ميں نے اپنے گھر والوں كے ساتھ دو بار عمرہ كيا پہلا عمرہ تقريبا سات برس قبل اور دوسرا پچھلے برس، اور بال منڈانے اور كٹوانے كے بارہ ميں مجھے لگتا ہے كہ والد صاحب اس فتوى كو ليتے تھے جو تھوڑے بال كٹوانے كو جائز قرار ديتا ہے، اور ہم نے دونوں بار ايسا ہى كيا، تھوڑے سے بال دائيں اور تھوڑے سے بائيں جانب اور كچھ پچھلى جانب سے لے كر كاٹ ديے، ہم نے پورے سر كے بال نہيں كٹوائے تھے.
ميں نے سوال نمبر ( 10713 ) كا مطالعہ كيا كہ جس نے جہالت كى بنا پر ايسا كيا وہ احرام باندھ كر فورا بال كٹوائے، ليكن ميں نے دو بار اسى طرح بال كٹوائے ہيں، اب اگر ميں معاملہ كو صحيح كرنا چاہوں تو اس حالت ميں مجھے كيا كرنا چاہيے، يہ علم ميں رہے كہ مجھے ياد ہے كہ ميں نے بھى حج اور عمرہ كے فتاوى ميں سنا تھا كہ كچھ بال كٹوانے جائز ہيں ؟
دو بار عمرہ كيا اور بالوں كا كچھ حصہ ہى كٹوانے پري اكتفا كيا
سوال: 96466
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
عمرہ كرنے والے كے ليے اپنے سر كے كو منڈانا يا بال چھوٹے كروانا واجب ہيں، اور منڈانا افضل ہے، اور اس كے ليے سارے سر كے عمومى بال كٹوانے يا منڈانے لازم ہيں، راجح قول كے مطابق سر كے بعض حصوں سے بالوں پر اقتصار كرنا كافى نہيں، امام مالك اور احمد كا يہى مسلك ہے.
اور امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا مسلك ہے كہ سر كے چوتھائى حصہ پراقتصار كرنا كفائت كر جائيگا.
اور امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ: كم از كم تين بال كٹوانے يا منڈانے كفائت كر جائينگے.
اور ان سب كے ہاں افضليت ميں كوئى اختلاف نہيں كہ سر كے سب بال منڈانے بال چھوٹے كروانے سے افضل ہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اپنے سروں كو منڈاتے ہوئے اور سر كے بال كترواتے ہوئے .
اور راس سارے سارے كا نام ہے، اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے سارے سر كو منڈايا تھا.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 18 / 98 ).
مالكى اور حنبلى حضرات كى دليل يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا سارا سر منڈايا تھا، جو كہ مطلقا سر منڈانے كے امر كى تفسير ہے، اس ليے اس كى طرف رجوع كرنا واجب ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" سر كے بال كٹانے يا منڈانا سب بالوں كو لازم ہيں، اور اسى طرح عورت بھى، امام احمد نے يہى بيان كيا ہے، اور امام مالك كا بھى يہى قول ہے، اور امام احمد سے مروى ہے كہ بعض حصہ بھى كفائت كر جائيگا…
اور امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں: تين بال كٹوانے كفائت كر جائيگا، اور ابن منذر نے يہ اختيار كيا ہے كہ جس پر تقصير يعنى بال چھوٹے كروانا صادق آئے وہ كفائت كريگا؛ كيونكہ الفاظ اسے شامل ہونگے، اور سارے سر كے بال كو شامل ہونے كے وجوب كى دليل اللہ تعالى كا يہ فرمان ہے:
سروں كو منڈاتے ہوئے .
اور يہ سارے سر كو عام ہے، اور اس ليے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا سارا سر منڈايا تھا، جو كہ مطلق امر كى تفسير ہے اس ليے اس كى طرف رجوع كرنا واجب ہے " انتہى بتصرف.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 3 / 196 ).
اور فقہ مالكى كى كتاب " تاج الاكليل " ميں درج ہے:
" اور جس نے اپنا سر منڈايا يا بال چھوٹے كروائے تو وہ سارے سر كے عمومى بالوں كو كرائے، اور كچھ بالوں پراقتصار كرنا كفائت نہيں كريگا " انتہى.
ديكھيں: تاج الاكليل ( 4 / 181 ).
ليكن جس نے كسى دوسرے كے قول پر اعتماد كرتے ہوئے كچھ بالوں پر اقتصار كرتے ہوئے انہيں كٹوايا تو اس پر كوئى حرج نہيں، اور اب اس پر كچھ لازم نہيں آتا، كيونكہ يہ اجتھادى مسائل ميں شامل ہوتا ہے جس ميں علماء كا اختلاف ہے، اس بنا پر آپ پر سلے ہوئےكپڑے اتارنا اور سر كے بال منڈانے يا كتروانے كا اعادہ كرنا لازم نہيں.
اور آپ پر لازم آتا ہے كہ آئندہ عمرہ يا حج ميں اپنے پورے سر كو منڈائيں يا سارے سر كے بال كٹوائيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب