ميں انتيس برس كا جوان ہ اور تقريبا چار برس سے انكشاف ہوا ہے كہ مجھے وائرس ( c ) كا مرض ہے، ميں نے كئى ايك لڑكيوں كو شادى كا پيغام ديا ہے اور جب ميرى اور لڑكى كے گھر والوں كى پہلى ملاقات ہوتى ہے تو ميں انہيں اپنى اس بيمارى كا بتاتا ہوں تو وہ فورا اس رشتہ سے انكار كر ديتے ہيں، حالانكہ يہ بيمارى اس وقت تك منتقل نہيں ہوتى جب تك خون منتقل نہ ہو، اور نہ ہى يہ متعدى ہے، اور پھر ميرى حالت سے بھى بيمارى محسوس نہيں ہوتى اور كوئى علامت ظاہر نہيں اب مجھے كيا كرنا چاہيے آيا ميں اس بيمارى كے متعلق بتاؤں يا نہ ؟
وائرس ( c ) كا شكار شخص اپنى منگيتر كو بيمارى كے متعلق ضرور بتائے ؟
سوال: 96820
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو عافيت و شفايابى سے نوازے، اور آپ كو نيك و صالح بيوى اور اولاد عطا فرمائے.
دوم:
جب يہ بيمارى ايسى ہے كہ لوگ اس سے نفرت كرتے ہيں اور اس بيمارى كے شكار شخص سے شادى كرنے سے اجتناب كرتے اور بچتے ہيں، تو يہ عيب شمار ہوتا ہے، اس ليے اس بيمارى كا بيان اور وضاحت كرنا ضرورى ہے لڑكى والوں كو اس سے دھوكہ ميں ركھنا اور اسے چھپانا حرام اور دھوكہ شمار ہوگا.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” قياس يہ ہے كہ: ہر وہ عيب جو خاوند اور بيوى كو ايك دوسرے سے متنفر كرنے كا باعث ہو اور اس سے نكاح كا مقصد محبت و الفت اور مودت حاصل نہ ہوتى ہو تو يہ اختيار كو واجب كرتا ہے ”
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 166 ).
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
” اور جو شخص بھى صحابہ كرام اور سلف كے فتاوى جات پر غور و تامل كرےگا اسے يہ معلوم ہو گا كہ انہوں عيب كى وجہ سے رد كو ومخصوص نہيں كيا…
اور يہ بھى كہنا ہے: جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تاجر كے ليے سامان تجارت ميں عيب چھپانے كو حرام كيا، اور يہ بھى حرام كيا كہ جسے سامان ميں عيب كا علم ہو تو اس كى ليے خريدار سے وہ عيب چھپانا حرام ہے.
تو پھر نكاح ميں عيب كو كس طرح چھپايا جا سكتا ہے؛ اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو فاطمہ بنت قيس رضى اللہ تعالى كو فرمايا تھ جب وہ شادى كے بارہ ميں آپ صلى اللہ عليہ وسلم سے معاويہ يا ابو جھم كے بارہ ميں مشورہ لينے آئي تو آپ نے فرمايا:
” معاويہ تو تنگ دست ہے اس كے پاس مال نہيں، اور ابو جہم تو اپنى لاٹھى ہى كندھے سے اتارتا نہيں ”
اس سے يہ معلوم ہوا كہ نكاح ميں عيب كو بيان كرنا واجب اور ضرورى ہے، تو پھر اس عيب كو چھپانا اور اسے دھوكہ ميں ركھنا اور تدليس كرنا اس كے لزوم كا باعث كيسے ہو سكتا ہے، اور عيب والے كو دوسرے كى گردن ميں كيسے طوق بنايا جا سكتا ہے حالانكہ وہ اس سے شديد نفرت بھى ركھتا ہے ” انتہى.
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 168 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” صحيح يہى ہے كہ ہر وہ عيب جس سے نكاح كا مقصد فوت ہوتا ہو وہ عيب شمار ہوتا ہے، اور بلاشك و شبہ نكاح كے مقاصد ميں فائدہ و خدمت اور اولاد پيدا كرنا اہم چيز شمار ہوتى ہے، اور يہ اہم ترين مقاصد ہيں، اس ليے جب ان مقاصد كے ليے كوئى مانع ہو تو وہ عيب شمار ہو گا.
اس بنا پر اگر بيوى خاوند كو بانجھ پائے، يا پھر خاوند اپنى بيوى كو بانجھ پائے تو يہ عيب شمار ہو گا ” انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 274 ) طبع مركز فجر.
آپ يہ بھى جان ليں كہ آپ كے صدق و يقين اور اس عيب كى وضاحت و بيان كرنے سے اميد ركھى جا سكتى ہے كہ اللہ تعالى آپ كو توفيق سے نوازے گا اور آپ كو بہتر چيز عطا كريگا، آپ كو ايسى بيوى ملے گى جس سے آپ خوش ہو جائينگے، يا پھر آپ كو اسى بيمارى كى شكار بيوى حاصل ہو جائيگى، يہ سب كچھ اللہ سبحانہ و تعالى كى تقدير كے مطابق ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب