میں نے صرف مردوں کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے پر کشش تنخواہ اور سماج میں اچھے مقام کے با وجود فارمیسی پر کام کرنا چھوڑ دیا، ، اور میں اب علم شرعی اور علمِ قرآءت حاصل کرنے کیلئے یکسو ہوگئی ہوں۔۔۔ اور ساتھ میں ایک حفظ کے مدرسہ میں معمولی تنخواہ پر بطورِ معلمہ بھی کام کر رہی ہوں، اور میں اسوقت خوش ہو، لیکن میرے آس پاس کے لوگ مجھے ملامت کرتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ میں نے بے عقلی ! والا فیصلہ کیا ہے، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
میں نے دواخانے پر کام چھوڑ دیا اور قرآن کریم پڑھانے لگی
سوال: 97231
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مرد وخواتین میں کام کے دوران اختلاط کے دونوں صنفوں پر واضح بُرے نتائج ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
1- نگاہوں کا حرام استعمال، حالانکہ اللہ تعالی نے مؤمنین اور مؤمنا ت سب کو نظریں جھکا کر رکھنے کا حکم دیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا مَا ظَهَرَ مِنْهَا )
ترجمہ: (اے نبی)! مومن مردوں سے کہئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر ہے[30] اور مومن عورتوں سے بھی کہئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو از خود ظاہر ہو جائے۔ النور/30-31
اور صحیح مسلم میں ہے کہ جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےاچانک نظر پڑ جانے کے بارے میں پوچھا ، تو آپ نے مجھے نگاہیں پھیر لینے کا حکم دیا۔
2- بسا اوقات ایسے حالات میں جسم بھی آپس میں چھوتا جاتا ہے، جو کہ حرام ہے، اور ہاتھ سے مصافحہ کرنا اسی میں شامل ہے، اسکی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی کیل ٹھوک دی جائے یہ اس کیلئے بہتر ہے ، اس بات سے کہ کسی غیر محرم خاتون کو چھوئے) اسے طبرانی نے معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور البانی نے اسے صحیح الجامع میں (5045)درست قرار دیا ہے۔
3- اختلاط کی وجہ سے بسا اوقات اجنبی خواتین کے ساتھ خلوت بھی ہوسکتی ہے؛ اور یہ حرام ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (کوئی بھی مرد کسی خاتون کے ساتھ خلوت میں نہیں جاتا لیکن تیسرا اُنکے ساتھ شیطان ہوتا ہے) ترمذی: (2165) البانی نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح کہا ہے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ : (جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ کسی بھی خاتون کے ساتھ اسکے محرم کے بغیر خلوت اختیار نہ کرے ، وگرنہ تیسرا اُن میں شیطان ہوگا ہے) احمد نے اسے روایت کیا، اور حاکم نے اسے صحیح کہا، اور ذہبی نے اُنکی موافقت کی ہے، اور البانی نے غایۃ المرام میں (180)اسے صحیح کہا ہے۔
4- اسکا یہ بھی نقصان ہے کہ: مرد کا دل عورت کے ساتھ جُڑ سکتا ہے جو مرد و خاتون دونوں کیلئے فتنے کا باعث ہے، اصل میں یہ اختلاط اور لمبے لمبے اوقات تک ساتھ رہنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔
5- اسی بنا پر پورے کے پورے گھرانے اُجڑ جاتے ہیں، چنانچہ کتنے ہی مرد حضرات نے ڈھیل سے کام لیا اور اپنا گھرانہ ہی اُجاڑ دیا، وجہ یہی ہے کہ اسکا دل تعلیم یا ملازمت کی ساتھی پر آگیا، اسی طرح کتنی ہی خواتین نے اِسی سبب کی وجہ سے خاوندوں کو چھوڑ کر اپنا گھر برباد کر لیا، بلکہ کتنے ہی ایسے حالات ہیں جن میں طلاق ہوگئی جسکی وجہ خاوند یا بیوی کے ناجائز تعلقات تھے، اِن سب حالتوں میں بنیادی کرداراختلاط ہی کا تھا!
مذکورہ بالا اور دیگر نقصانات کی وجہ سے شریعت نے اختلاط کو حرام قرار دیا ہے، اور پہلے بھی تفصیلی طور پر اس کے دلائل بیان کئے جاچکے ہیں اس کیلئے سوال نمبر (1200) کا جواب ملاحظہ کریں۔
چنانچہ اگر آپ نے اختلاط ہی کہ وجہ سے ملازمت چھوڑی ہے تو آپ نے یہ اچھا کیا، آپ نے وہی کیا ہے جو آپ پر واجب تھا، اس کے بدلے میں دنیا و آخرت میں آپکے لئے کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے، کیونکہ جو شخص بھی اللہ کیلئے کسی چیز کو چھوڑے اللہ تعالی اُسے اِس سے بہتر عطا فرماتا ہے۔
اور اللہ کی طرف سے ملنے والا بدلہ ضروری نہیں کہ صرف مادی ہی ہو، بلکہ راحت، اطمینان، سعادت،اور نیک اعمال کی توفیق یہ سب اللہ کی طرف سے بدلہ ہی ہوتے ہیں۔
جبکہ قرآن مجید کو پڑھنا اور پڑھانا سب سے بہترین عمل ہے، اور عظیم عبادت بھی، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو قرآن کے سیکھے اور سیکھائے) بخاری (5027) بخاری ہی کی ایک روایت میں ہے: (تم میں سے افضل وہی ہے جو قرآن کو سیکھے اور سیکھائے)
مسلم خواتین اور لڑکیوں کو ایسی معلمات کی ضرورت ہے جو انہیں قرآنِ مجید کی صحیح تلاوت سیکھائے، اور قرآنِ مجید کو یاد کرنے میں اُنکی مدد کرے۔
لیکن اگر آپکو ملازمت کرنے کی ضرورت پڑے، اور آپکی فیلڈ (فارمیسی) میں اختلاط سے پاک موقع میسر ہو تو یہ ملازمت کرنے میں کوئی حرج والی بات نہیں، اور اسکے ساتھ ساتھ آپ قرآن مجید کی تعلیم بھی دی سکتی ہو۔
حقیقت یہی ہے کہ کہ سعادت مندی منصب، جاہ وجلال یا ظاہری صورتِ حال میں نہیں ہے، بلکہ ایمان اور تقوی ہی میں سعادت پنہاں ہے، کیونکہ اِنہی کی وجہ سے آپ اللہ کے زیادہ قریب ہونگی، اور اللہ کی عنایات پر راضی بھی، لہذا دوسرے لوگوں کی باتوں پر آپ توجہ ہی نہ دیں۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپ کو مزید ہدایت اور تقوی نصیب فرمائے۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات