حيوانى گليسرين پر مشتمل اشياء مثلا ٹوتھ پيسٹ اور شيمپو اور جسم پر استعمال كى جانے والى كريم وغيرہ استعمال كرنے كا حكم كيا ہے ؟
اور اسى طرح روٹى اور بن وغيرہ ميں استعمال كى جانے والا " مونو گليسريڈ " اور ڈائى گليسريڈ " مادہ استعمال كرنے كا حكم كيا ہے ؟
اور كيا اصل ميں انسان كو اس طرح كے مواد كے مصدر كو تلاش كرنا چاہيے كہ يہ مادہ كس چيز سے بنايا گيا ہے، آيا يہ حيوانى ہے يا كہ نباتات اور جڑى بوٹيوں سے بنايا گيا ہے، يا كہ يہ مشقت اور تكليف ميں شمار ہو گا ؟
اور اگر كوئى شخص يہ كہتا ہے كہ اشياء ميں اصل اباحت ہى ہے جب تك اس ميں كوئى حرام چيز نہ ملى ہو يا اگر كوئى يہ كہے كہ دين آسان اور ميسر ہے تكلف اور سوال نہيں كرنا چاہيے اس شخص كو كيا جواب ديا جائيگا ؟
حيوانى گليسرين پر مشتمل مواد استعمال كرنا
سوال: 97541
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
كريموں، شيپو، اور ٹوتھ پيسٹ، اور صابن وغيرہ ميں جو مواد استعمال ہوتا ہے وہ درج ذيل اشياء سے بنتا ہے:
يا تو حيوانات كى چربى اور تيل سے.
يا پھر دوسرا مواد جو نباتات يا مصنوعى مواد پر مشتمل ہوتا ہے.
ا ـ حيوانات كى چربى اور تيل وغيرہ ہونے كى شكل ميں يا تو وہ ان حيوانات كا ہو گا جن كا كھانا مباح ہے اور اسے شرعى طريقہ كے مطابق ذبح كيا گيا ہو گا، يا پھر وہ سمندرى حيوانات سے جنہيں ذبح كرنے كى ضرورت نہيں تو يہاں بلاشك و شبہ مباح كا حكم لاگو ہو گا.
ب ـ يا پھر وہ چربى اور تيل ان جانوروں سے ماخوذ ہو گا جن كا گوشت اور چربى كھانا حرام ہے مثلا خنزير يا پھر وہ مباح جانور كا تو ہو گا ليكن وہ شرعى طريقہ سے ذبح نہيں ہوا تو اس صورت ميں وہ مردار شمار ہو گا اس صورت ميں بلاشك و شبہ حكم حرام ہوگا.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:
جب مسلمان كو يقين ہو جائے يا پھر اس كے ظن غالب ميں ہو كہ كھانے يا كسى دوائى يا ٹوتھ پيسٹ وغيرہ ميں خنزير كا گوشت كا اس كى چربى يا اس كى ہڈى كا پاؤڈر ملايا گيا ہے نہ تو اس كا كھانا جائز ہے اور نہ ہى اسے پينا اور نہ ہى اس كو اپنے جسم پر ملنا اور كريم لگانا.
ليكن جس ميں شك ہو تو وہ اسے بھى چھوڑ دے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم اسے چھوڑ دو جس ميں شك ہو اور جس ميں شك نہ ہو اسے لے لو "
الشيخ عبد العزيز بن باز
الشيخ عبد الرزاق العفيفى
الشيخ عبد اللہ بن غديان
الشيخ عبد اللہ بن قعود
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 281 ).
ميڈيكل علوم كے اسلامى بورڈ كى قرارات ميں درج ذيل قرار بھى شامل ہے:
يہ قرار كويت ميں 22 سے 24 ذوالحجہ 1415هـ الموافق 24 مئى 1995ميلادى ميں " غذاء اور ادويات ميں حرام اور نجس مواد " كے موضوع پرمنعقدہ اجلاس ميں پاس ہوئى:
6 ـ وہ مواد غذائيہ جسے بنانے ميں خنزير كى چربى استعمال ہوتى ہے مثلا كچھ پنير اور بعض تيل كى اقسام اور گھى مكھن اور كچھ بسكٹ، اور چاكليٹ اور آئس كريم وغيرہ يہ حرام ہيں، ان كا كھانا مطلقا حرام ہے؛ كيونكہ اہل علم كے ہاں خنزير كى چربى نجس ہے، اور اسے كھانا حلال نہيں؛ اور اس ليے بھى كہ اس مواد كو كھانے كو كوئى مجبورى بھى نہيں پائى جاتى. انتہى.
دوم:
بعض اوقات يہ حلال ہو جاتا ہے، يہ اس حالت ميں كہ جب يہ چربى اور تيل كسى اور چيز ميں تبديل ہو جائے تو يہ مادہ چربى اور تيل كے نام سے موسوم نہ ہو اور نہ ہى وہ يہ نام ركھے اور نہ ہى اس ميں ان دونوں كى صفات پائى جائيں اگر تو معاملہ ايسا ہى تو پھر يہ اس كا حكم نہيں ركھےگا، يہ وہ ہے جسے علماء كرام استحالہ كا نام ديتے ہيں اور يہ دونوں جہتوں سے معتبر ہے، چنانچہ جو حلال اور پاكيزہ ہو اور وہ نجس اور خبيث ہو جائے تو يہ حرام ہو گا، اور جو نجس اور خبيث تھا اور وہ حلال اور پاكيزہ بن گيا تو وہ حلال اور مباح ہو جائيگا.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس اصل كى بنا پر قياس كے موافق استحالہ ( يعنى حالت تبديل ہونا ) كے ساتھ شراب كا پاك ہونا كيونكہ اصل ميں وہ خبيث كے وصف كى بنا پر نجس تھى تو جب يہ وصف زائل ہو جائے تو اس كے خبيث ہونےكا موجب تھا تو اس كى نجاست بھى ختم ہو جائيگى، اور شريعت كے مصادر ميں اصل يہى ہے، بلكہ ثواب اور گناہ كى اصل بھى يہى ہے.
اس بنا پر سب نجاسات جب ان كى حالت تبديل ہو جائے تو قياس صحيح اس ميں ہوگا، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى مسجد والى جگہ ميں موجود مشركوں كى قبر كو اكھيڑ ديا تھا ليكن وہاں سے اس مٹى كو منتقل نہيں كيا، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے دودھ كے متعلق يہ فرمايا ہے:
يہ ليد اور خون كے درميان سے نكلتا ہے .
اور مسلمانوں كا اس پر اجماع ہے كہ جب چوپايہ نجاست والا چارہ كھائے اور پھر اسے روك اور باندھ ليا جائے اور اسے پاكيزہ اشياء كھلائى جائيں تو اس كا دودھ اور گوشت حلال ہوتا ہے.
اور اسى طرح جب كھيت اور باغ وغيرہ كو نجس پانى سے سيراب كيا جائے اور پھر اسے طاہر پانى سے سيراب كيا جائے تو وصف خبث كے تبديل ہو جانے اور پاكيزہ سے بدل جانے كى بنا پر وہ حلال ہو گى.
اور اس كے برعكس جب پاكيزہ اور طاہر چيز خبيث اور گندى ميں بدل جائے تو وہ نجس ہو جاتى ہے مثلا پانى اور كھانا جب پيشاب اور گندگى و پاخانہ ميں بدل جائے، تو پاكيزہ چيز كو نجس اور خبيث ميں تبديل كرنے ميں استحالہ يعنى حالت بدل جانا اثرانداز ہوتا ہے تو پھر خبيث اور گندى چيز كو پاكيزہ حالت ميں بدلنے كا اثر كيوں نہ ہو سكتا، حالانكہ اللہ سبحانہ و تعالى طيب اور پاكيزہ كو خبيث سے اور خبيث كو طاہر اور طيب سے نكالتا ہے ؟!
اصل كا اعتبار نہيں ہوگا، بلكہ اس چيز كے وصف كا اعتبار كيا جائيگا، اور جب اس كا وصف اور نام زائل اور ختم ہو چكا ہو اس كے خبيث اور گندا ہونےكا حكم باقى رہنا ممنوع ہے، اور حكم نام اور وصف كے تابع ہوتا ہے، اور اس كى موجودگى اور عدم موجودگى كے ساتھ گھومتا ہے چنانچہ جو نصوص مردار اور خنزير كے گوشت اور شراب كى حرمت والى ہيں وہ كھيت اور پھل اور ريت اور نمك اور مٹى اور سركہ كو شامل نہيں، نہ تو يہ لفظى طور پر اور نہ ہىمعنوى طور پر اور نہ ہى نص كے اعتبار سے، اور نہ ہى قياس كے لحاظ سے.
اور جو شراب وغيرہ كى حالت بدلنے يعنى استحالہ ميں فرق كرتے ہيں ان كا كہنا ہے:
جب شراب استحالہ سے ہى نجس ہوئى ہے تو وہ استحالہ سے ہى پاكيزہ ہو جائيگى.
انہيں يہ جواب ديا جائيگا كہ:
اور خون اور پيشاب اور پاخانہ بھى اسى طرح ہے يہ استحالہ كے ساتھ ہى نجس ہوئى ہيں تو استحالہ سے ہى پاكيزہ بھى ہو سكتى ہيں، تو ظاہر يہ ہوا كہ قياس نصوص كے ساتھ ہے، اور جو اقوال نصوص كى مخالفت كرتے ہيں ان كےقياس ميں مخالف ہے "
ديكھيں: اعلام الموقعين ( 14 – 15 ).
ميڈيكل علوم كے اسلامى بورڈ كى قرارات ميں درج ذيل قرار بھى شامل ہے:
يہ قرار كويت ميں 22 سے 24 ذوالحجہ 1415هـ الموافق 24 مئى 1995ميلادى ميں " غذاء اور ادويات ميں حرام اور نجس مواد " كے موضوع پرمنعقدہ اجلاس ميں پاس ہوئى:
8 – استحالہ كا معنى يہ ہے كہ كسى چيز كا ايك حالت سے دوسرى حالت ميں تبديل ہونا جس كى صفات بھى متغير ہو جائيں، نجس يا نجس شدہ مواد پاكيزہ مواد ميں تبديل ہونا، اور حرام مواد كا شرعى طور پر مباح مواد ميں بدل جانا.
اس بنا پر:
ـ جو صابن خنزير يا مردار كى چربى سے استحالہ كى صورت ميں حاصل كردہ مواد جسے وہ پاك كر ديتا ہے سے بنايا جائے تو اس كا استعمال جائز ہے.
ـ كھائے جانے والے مرے ہوئے جانور كے اجزاء سے بنايا گيا پنير پاك ہے اور اس كا كھانا جائز ہے.
ـ خنزير كى چربى پر مشتمل كريم اور مرہم اور ميك اپ كى اشياء كا استعمال جائز نہيں، ليكن جب اس كا يقين ہو جائے كہ يہ چربى كى حالت بدل كر پاك نہ ہو جائے، ليكن جب اس كى تحقيق نہ ہو جائے تو يہ ناپاك ہى ہے. انتہى.
سوم:
اگر كھائے والے جانور كے متعلق يہ معلوم نہ ہو كہ آيا اسے شرعى طريقہ كے مطابق ذبح كيا گيا ہے يا نہيں ؟
اصل تو يہى ہے كہ اسے استعمال نہ كيا جائے؛ كيونكہ ذبائح ميں اصل حرمت ہے جب تك اس كى حلت واضح نہ ہو جائے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پانى ميں ڈوب جانے والے شكار كو كھانے سے منع كيا ہے؛ كيونكہ اس كے متعلق معلوم نہيں آيا وہ شكار كرنے سے مرا يا كہ پانى ميں غرق ہونے سے.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس شكار كتے كے شكار كو بھى كھانے سے منع كيا ہے جسے شكار كے ليے بھيجتے وقت بسم اللہ تو پڑھى گئى ليكن اس كے ساتھ دوسرے كتے بھى پائے گئے ہوں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى علت يہ بيان كى كہ معلوم نہيں اس كے كتے نےشكار كيا ہے يا كہ كسى دوسرے كتے نے.
عدى بن حاتم رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم اپنا كتا بھيجو اور بسم اللہ پڑھو؛ تو اس كتے نے شكار كر ليا تو تم اسے كھا لو، اور اگر اس كتے نے اس ميں سے كھايا تو تم اس شكار كو مت كھاؤ، كيونكہ اس نے اسے اپنے ليے شكار كيا ہے، اور جب كتے خلط مل ہوں جن پر بسم اللہ نہ پڑھى گئى ہو اور انہوں نے شكار كر ليا تو اسے مت كھاؤ؛ كيونكہ تمہيں علم نہيں كہ ان ميں سے كس كتے نے اسے شكار كيا ہے.
اور اگر تم كسى شكار پر تير پھينكو اور اسے ايك يا دو روز كے بعد پاؤ اور اس ميں صرف آپ كے تير كا ہى اثر ہو تو اسے كھا لو، اور اگر وہ پانى ميں گر جائے تو اسے نہ كھاؤ "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5167 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1929 ).
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" پھر دوسرى قسم: حكم كو ثابت كرنے والا وصف پايا جانا، حتى كہ اس كے خلاف ثابت ہو جائے، اور يہ حجت ہے، جس طرح كہ طہارت كا حكم پايا جانا، اور حدث كا حكم، اور نكاح باقى رہنے كا حكم پايا جانا، اور ملكيت كى بقا، اور ذمہ كا مشغول ہونا جس سے مشغول ہو، حتى كہ اس كے خلاف ثابت ہو جائے.
شارع نے اس پر حكم لگانے كو اس پرمعلق كرتے ہوئے شكار كے متعلق كہا ہے:
" اگر تم اسے پانى ميں غرق پاؤ تو اسے مت كھاؤ؛ كيونكہ تمہيں علم نہيں كہ آيا اسے پانى نے قتل كيا ہے يا كہ تمہارے تير نے "
اور يہ فرمان:
" اور اگر اس كے ساتھ دوسرے كتے بھى مل جائيں تو تم اسے مت كھاؤ كيونكہ آپ نے تو صرف اپنے شكارى كتے كو بسم اللہ پڑھ كر چھوڑا تھا اور دوسرے كتوں پر تو بسم اللہ نہيں پڑھى "
جب ذبيحہ ميں اصل التحريم ہے، اور يہ شك ہو جائے كہ آيا مباح كرنے والى شرط پائى گئى ہے يا نہيں ؟
تو شكار اپنى اصل پر باقى رہےگا اور وہ حرمت ہے.
ديكھيں: اعلام الموقعين ( 1 / 339 – 340 ).
چہارم:
يہ كہ مواد مصنوعى ہو يا نباتاتى:
ان مصنوعات كا كھانا جائز ہے ليكن اس حالت ميں كہ اگر يہ مصنوعات نقصان اور ضرر دينے والى ہوں، يا زہريلى ہوں تو پھر جائز نہيں، يا تو وہ بذاتہ مضر ہوں، يا پھر دوسروں كے ساتھ مل كر مضر بن جائيں تو بھى جائز نہيں ہو نگى.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" لپ اسٹك استعمال كرنے ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ اصل حلت ہے، حتى كہ اس كى حرمت واضح ہو جائے…. ليكن اگر يہ واضح ہو جائے كہ لپ اسٹك ہونٹ كے ليے مضر ہے اور اسے خشك كر ديتى اور اس كى ترى اور رطوبت و چكناہٹ كو ختم كر ديتى ہے تو اس طرح كى حالت ميں اس سے روكا جائيگا.
مجھے يہ بتايا گيا ہے كہ ہو سكتا ہے يہ ہونٹوں كو خشك كر دے، جب يہ ثابت ہو جائے تو انسان كو مضر اشياء كے استعمال سے منع كيا گيا ہے "
ديكھيں: فتاوى منار الاسلام ( 3 / 831 ).
پنجم:
مسلمان پر واجب ہے كہ وہ اپنے كھانے اور پينے اور لباس اور اپنى زندگى سب معاملات ميں حلال تلاش كرنے كى كوشش كرے، چنانچہ اس كا مال حلال اور پاكيزہ ہو، اور كوشش كرے كہ اس كا كھانا اور پينا اللہ تعالى كى مباح اشياء ميں سے ہو، اور كوشش كرے كہ وہ اپنى زندگى كے سارے معاملات ميں كتاب و سنت كى مخالفت نہ كرے.
زندہ اور ذبح كردہ كے مواد ميں فرق كرنا چاہيے، پہلا يعنى زندہ ميں اصل اباحت ہے، ليكن جب اس كے عكس ثابت ہوجائے تو پھر مباح نہيں، اور ذبائح ميں اصل حرمت ہے ـ جيسا كہ ابن قيم رحمہ اللہ كى كلام ميں بيان ہو چكا ہے ـ ليكن اگر اس كے عكس ثابت ہو جائے تو پھر نہيں.
مستقل فتوى كميٹى سے بعض صابن اور ٹوتھ پيسٹ جس ميں خنزير كى چربى استعمال كى جاتى ہے كے متعلق سوال كيا گيا تو كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" ہميں كسى موثوق طريقہ سے يہ علم نہيں ہوسكا كہ صفائى كے كچھ آلات اور اشياء ميں خنزير كى چربى استعمال كى جاتى ہے مثلا كامى اور موليف صابن، اور كالجيٹ ٹوتھ پيسٹ، اس كے متعلق تو ہمارے پاس صرف افواہ ہى پہنچى ہيں.
دوم:
اس طرح كى اشياء ميں اصل طہارت اور ان كے استعمال كى حلت ہے، حتى كہ كسى موثوق طريقہ سے يہ ثابت ہو جائے كہ اس ميں خنزير كى چربى يا كوئى اور نجاست وغيرہ استعمال كى گئى ہے، تو اس حالت ميں اسے استعمال كرنا حرام ہو گا، ليكن جب يہ خبر افواہ سے اوپر نہ جائے اور ثابت نہ ہو تو اس كو استعمال كرنے سے اجتناب كرنا ضرورى نہيں.
سوم:
جس كو يہ ثبوت مل جائے كہ صفائى اور غسل كرنے وغيرہ كرنے والى اشياء ميں خنزير كى چربى ملائى جاتى ہے تو اسے اس سے اجتناب كرنا چاہيے، اور جہاں وہ چيز لگى ہو اسے دھونا چاہيے.
ليكن اس نے ان اشياء كو استعمال كر كے ان ايام ميں جو نمازيں ادا كى ہيں انہيں لوٹايا نہيں جائيگا، علماء كرام كا صحيح قول يہى ہے.
الشيخ عبد العزيز بن باز
الشيخ عبد الرزاق عفيفى
الشيخ عبد اللہ بن غديان
الشيخ عبد اللہ بن قعود
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 385 – 386 ).
اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:
مصنوعى پنير جس كے متعلق كلام بہت زيادہ ہوتى ہے كہ اس ميں خنزير كى چربى استعمال كى گئى ہے، اس كے متعلق ہميں تو كوئى ثبوت نہيں ملا كہ اس ميں خنزير كى چربى ہے، ان اشياء ميں اصل حلت ہے، اور جسے يقين ہو جائے كہ اس ميں خنزير كى چربى استعمال ہوئى ہے، يا اس كا ظن غالب ہو كہ اسميں خنزير كى چربى ہے تو اس كے ليے اسے استعمال كرنا جائز نہيں.
الشيخ عبد العزيز بن باز
الشيخ عبد الرزاق العفيفى
الشيخ عبد اللہ بن غديان
الشيخ عبد اللہ بن قعود
فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 111 ).
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ہميں كچھ پمفلٹ ملے ہيں جن ميں لكھا ہے: كچھ صابن خنزير كى چربى ڈال كر بنائے جاتے ہيں، اس كے متعلق آپ كى كيا رائے ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" ميرى رائے يہ ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے زمين ميں جو كچھ بھى ہمارے ليے پيدا كيا ہے اس ميں اصل حلت ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالىكا فرمان ہے:
اللہ وہ ذات ہے جس نے زمين ميں جو كچھ ہے وہ تمہارے ليے پيدا كيا ہے البقرۃ ( 29 ).
لہذا اگر كوئى شخص يہ دعوى كرے كہ يہ چيز نجس ہونے كى بنا پر حرام ہے يا كسى اور سبب كى بنا پر حرام ہے تو اسے اس كى دليل دينا ہو گى، ليكن يہ كہ ہر وہم كى ہم تصديق كر ديں اور ہر قول كى مان ليں تو اس كى كوئى اصل نہيں.
اس ليے اگر كوئى كہے: يہ صابن خنزير كى چربى كا ہے تو ہم اسے كہينگے:
اس كا ثبوت پيش كرو، اور جب ثابت ہو جائے كہ اس كا اكثر خنزير كى چربى يا تيل سے ہے تو ہمارے ليے اس سے اجتناب كرنا ضرورى ہے.
ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 31 ) سوال نمبر ( 10 ).
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب