ايك عورت كا خاوند بغداد ميں صرف اس ليے قتل كر ديا گيا كہ اس كانام عمر تھا، قاتلوں نے اسے قتل كر كے اس كے گھر اور ہر چيز پر قبضہ كر ليا، اب خاوند كے خاندان كے سب افراد وہاں سے سوريا منتقل ہونا چاہتے ہيں، كيا اس عورت كے ليے بھى ان كے ساتھ جانا جائز ہے يا نہيں ؟
يا كہ اس كے ليے عدت كا عرصہ بغداد ميں ہى رہنا ضرورى ہے، يہ علم ميں رہے كہ عورت كو اپنى اور اولاد كى جان كا خطرہ ہے ؟
جان كے ڈر سے عورت كا كسى دوسرے علاقے اور ملك ميں جا كر عدت گزارنا
سوال: 98193
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
الحمدللہ:
اول:
اللہ سبحانہ وتعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اسلام اور مسلمانوں كو رفعت و بلندى اور عزت عطافرمائے، اور ہمارے عراق بھائيوں سے ظلم و ستم كو دور كرے، اور ان پر اپنى رحمتوشفقت كر كے ان كى كے نقصانات كى تلافى فرمائے؛ يقينا اللہ سبحانہ و تعالى اس پرقادر ہے.
ہمارى اللہسبحانہ و تعالى سے يہ بھى دعا ہے كہ وہ ہمارے ان مسلمان بھائيوں سے ان منافقوں كےشر كو دور و ختم كرے اور اس شر كا وبال بھى ان منافقين پر ہى ڈالے، اور ان پر اپناوہ عذاب نازل فرمائے جو مجرموں سے دور نہيں كيا جاتا.
دوم:
اصل تو يہى ہے كہيہ عورت اپنے اسى گھر ميں بيوگى كى عدت بسر كرے جہاں اسے خاوند كے فوت ہونے كىاطلاع اور خبر ملى تھى؛ كيونكہ كتب سنن ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے درجذيل حديث ثابت ہے:
نبى كريم صلىاللہ عليہ وسلم نے فريعہ بنت مالك رضى اللہ تعالى عنہا كو فرمايا:
” تم عدتختم ہونے تك اپنے اسى گھر ميں رہو جس گھر ميں تمہيں خاوند كے فوت ہونے كى اطلاعملى تھى “
سنن ابو داودحديث نمبر ( 2300 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1204 ) سنن ابن ماجہحديث نمبر ( 2031 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار دياہے.
ليكن اگر وہاںكسى دشمن وغيرہ كى موجودگى كى بنا پر آپ كو جان كا خطرہ ہو تو عدت گزارنے كے ليےوہاں سے كسى دوسرے علاقے يا گھر ميں منتقل ہونا جائز ہے.
ابن قدامہ رحمہاللہ كہتے ہيں:
” بيوہ كےليے اپنے گھر ميں ہى عدت گزارنے كو ضرورى قرار دينے والوں ميں عمر اور عثمان رضىاللہ تعالى عنہما شامل ہيں، اور ابن عمر اور ابن مسعود اور ام سلمہ رضى اللہ تعالىعنہم سے بھى مروى ہے، اور اما مالك امام ثورى اور امام اوزاعى اور امام ابو حنيفہاور امام شافعى اور اسحاق رحمہم اللہ كا بھى يہى قول ہے.
ابن عبد البررحمہ اللہ كہتے ہيں:
حجاز شام اورعراق كے فقھاء كرام كى جماعت كا بھى يہى قول ہے ”
اس كے بعد لكھتےہيں:
” چنانچہاگر بيوہ كو گھر منہدم ہونے يا غرق ہونے يا دشمن وغيرہ كا خطرہ ہو… تو اس كے ليےوہاں سے دوسرى جگہ منتقل ہونا جائز ہے؛ كيونكہ يہ عذر كى حالت ہے…
اور اسے وہاں سےمنتقل ہو كر كہيں بھى رہنے كا حق حاصل ہے ” انتہى مختصرا
ديكھيں: المغنى (8/ 127 ).
مستقل فتوى كميٹىكے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك عورت كاخاوند فوت ہو گيا ہے اور جس علاقے ميں اس كا خاوند فوت ہوا ہے وہاں اس عورت كىضرورت پورى كرنے والا كوئى نہيں، كيا وہ دوسرے شہر جا كر عدت گزار سكتى ہے ؟
كميٹى كے علماءكرام كا جواب تھا:
” اگرواقعتا ايسا ہے كہ جس شہر اور علاقے ميں خاوند فوت ہوا ہے وہاں اس بيوہ كى ضرورياتپورى كرنے والا كوئى نہيں، اور وہ خود بھى اپنى ضروريات پورى نہيں كر سكتى تو اسكے ليے وہاں سے كسى دوسرے علاقے ميں جہاں پر اسے اپنے آپ پر امن ہو اور اس كىضروريات پورى كرنے والا ہو وہاں منتقل ہونا شرعا جائز ہے ” انتہى
ديكھيں: فتاوىاللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتا ( 20 / 473 ).
اور فتاوى جاتميں يہ بھى درج ہے:
” اگر آپ كىبيوہ بہن كو دوران عدت اپنے خاوند كے گھر سے كسى دوسرے گھر ميں ضرورت كى بنا پرمنتقل ہونا پڑے مثلا وہاں اسے اكيلے رہنے ميں جان كا خطرہ ہو تو اس ميں كوئى حرجنہيں، وہ دوسرے گھر ميں منتقل ہو كر عدت پورى كريگى ” انتہى
ديكھيں: فتاوىاللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 473 ).
اس بنا پر اسعورت كے ليے سوريا منتقل ہو كر اپنى عدت سوريا ميں پورى كرنے ميں كوئى حرج نہيںہے.
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب