ميرے والد مسلمان ہيں ليكن ان كے اسلام كے بارہ ميں كچھ غلط افكار ہيں مثلا پردے اور اختلاط كے بارہ ميں ان كا موقف كچھ اور ہے، اور وہ كہتے ہيں كہ كيا رشتہ ميں دين ہى اساسى حكم ہے، اور وہ يہ بھى كہتے ہيں كہ: كوئى بھى اللہ كے سب احكام پر عمل نہيں كر سكتا، حتى كہ ايك سے زائد بيويوں كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سب احكام پر عمل نہيں كر سكے.
اور پھر ميرى ايك بہن مرتد ہو كر عيسائيت اختيار كر چكى ہے اور والد نے اس كو ناپسند نہيں كيا، بلكہ اسے مجھ سے بہتر شمار كرتے ہيں، اور ميرى والدہ بھى نصرانيہ ہے، ميرے ليے ايك دين اور اخلاق والے شخص كا رشتہ آيا ليكن وہ اپاہچ تھا ميں اس رشتہ پر راضى تھى ليكن ميرے والد صاحب نے اس كى معذورى كى بنا پر اور خاندان ميں فرق ہونے كى وجہ سے كہ ہم مالدار ہيں اور وہ مالدار نہيں اس رشتہ سے انكار كر ديا.
اور يونيورسٹى كى تعليم مكمل كرنے كے بعد انہوں نے پلاننگ كر كے ميرے سارى اچھى اور نيك سوسائٹى اور صحبت سے تعلقات منقطع كر ديے، اور بتدريج ميرى زندگى بدلنا شروع كر دى، لہذا ميں گھر چھوڑ كر چلى گئى اور دو ماہ بعد ميں نے شرعى عدالت ميں جا كر مسلمان شخص سے شادى كر لى، ميرا سوال يہ ہے كہ:
آيا ميرى يہ شادى صحيح ہے يا نہيں، اور اپنے گھر والوں كے بارہ ميں ميرا موقف كيا ہونا چاہيے، كيا ميں ان سے بائيكاٹ جائى ركھوں يا نہيں ؟
والد نے لڑكى كى شادى كرنے سے انكار كر ديا تو قاضى نے شادى كر دى
سوال: 98244
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ہم اللہ كا شكر ادا كرتے ہيں جس نے آپ كو استقامت اور ہدايت كى راہ پر چلنے كى توفيق بخشى، اللہ سبحانہ و تعالى سے ہم مزيد فضل كى دعا كرتے ہيں.
دوم:
عورت كو نيك و صالح اور اخلاق و دين والے شخص سے شادى كرنے كى حرص ركھنى چاہيے جو اس كى حفاظت كرے اور ديكھ بھال كرتے ہوئے اس كا خيال ركھے، اور وہ اس كے ليں دين پر عمل كرنے ميں اس كا معاون ثابت ہو اور عمل كرنے دے اور اسى طرح دين اسلام كے اصول و ضوابط كے مطابق اولاد كى اچھى تربيت كرنے ميں معاونت كرے تا كہ وہ نيك و صالح بن سكيں.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جب تمہارے پاس كسى ايسے شخص كا رشتہ آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں اچھا لگے اور پسند ہو تو اس كى شادى كر دو، اگر ايسا نہيں كروگے تو زمين ميں بہت وسيع و عريض فساد بپا ہو جائيگا ”
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1084 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
سوم:
ولى كے بغير نكاح صحيح نہيں ہے، اور عورت كو ولى كے بغير اپنا نكاح كرنے كا كوئى حق حاصل نہيں؛ كيونكہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كى ممانعت ملتى ہے:
ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” ولى كے بغير نكاح نہيں ہے ”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1881 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جس عورت نے بھى ولى كى اجازت كے بغير اپنا نكاح خود كيا تو اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے… اگر جھگڑا كريں تو جس كا ولى نہيں حكمران اس كا ولى ہے ”
مسند احمد حديث نمبر ( 14417 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2709 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ليكن اگر لڑكى كا ولى كسى برابرى كے رشتہ جس پر لڑكى راضى ہو شادى كرنے سے انكار كر دے تو وہ عاضل يعنى لڑكى كو نكاح سے روكنے والا شمار ہوگا، اور اس طرح يہ ولايت منتقل ہو كر اس كے بعد والے عصبہ مرد ميں سے ولى كو مل جائيگى.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اور عضل كا معنى يہ ہے كہ: عورت اگر برابرى كے رشتہ سے شادى كا مطالبہ كرے اور دونوں ايك دوسرے ميں رغبت ركھيں… اور ولى اسے شادى نہ كرنے دے تو يہ عضل كہلاتا ہے.
چاہے وہ عورت مہر مثل يا اس سے كم ميں شادى كرنے كا مطالبہ كرے، امام شافعى ابو يوسف اور محمد كا قول يہى ہے ….
اور اگر عورت كسى بعينہ برابر كے رشتہ ميں رغبت ركھتى ہو، اور ولى اس كے علاوہ كسى دوسرے برابر كے رشتہ كے ساتھ شادى كرنا چاہتا ہو، اور جس سے لڑكى شادى كرنا چاہتى ہے اس سے شادى نہ كرے تو وہ عاضل يعنى شادى سے روكنے والا شمار ہوگا.
ليكن اگر وہ عورت برابرى كے رشتہ كے علاوہ كسى اور سے شادى كا مطالبہ كرے تو پھر ولى كو روكنے كا حق حاصل ہے، اس صورت ميں وہ عاضل شمار نہيں ہوگا ” انتہى
ديكھيں: المغنى ( 9 / 383 ).
غالب طور پر اس طرح كى حالت ميں ولى شادى نہيں كرتے تو عورت كے ليے اپنا مسئلہ شرعى قاضى كے پاس لے جانے ميں كوئى حرج نہيں، چنانچہ قاضى اس كے ولى كو طلب كريگا اگر وہ اس كى شادى كرنے سےانكار كرتے ہيں تو وہ خود اس عورت كى شادى كر ديگا.
اور پھر اوپر بيان كردہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” اگر جھگڑا كريں تو جس كا ولى نہيں اس كا حاكم ولى ہے ”
اس بنا پر آپ كا يہ نكاح صحيح ہے، اسے توڑنا جائز نہيں؛ كيونكہ والد كے شادى سے منع كر دينے كے بعد شرعى قاضى نے ولى بن كر نكاح كيا ہے.
چہارم:
آپ كے ليے والدين كے ساتھ حسن سلوك كرنا اور صلہ رحمى كرنا واجب ہے، چاہے آپ ٹيلى فون كے ذريعہ اچھى كلام كر كے ہى حسن سلوك كرتى رہيں، حتى كہ ان كے دلوں ميں نرمى پيدا ہو جائے اور وہ ٹھنڈے ہو جائيں، اور آپ والدين كو ملتى بھى رہيں، كيونكہ والدين كا حق بہت عظيم ہے، اسى ليے قرآن مجيد ميں اس كى وصيت بار بار كى گئى ہے:
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
ہم نے ہر انسان كو اپنے ماں باپ كے ساتھ اچھا سلوك كرنے كى نصيحت كى ہے، ہاں اگر وہ يہ كوشش كريں كہ آپ ميرے ساتھ شريك كر ليں جس كا آپ كو علم نہيں تو ان كا كہنا نہ مانيئے، تم سب كا ميرى ہى طرف لوٹنا ہے، پھر ميں ہر اس چيز كى جو تم كرتے ہو خبر دونگا العنكبوت ( 7 ).
اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ہم نے انسان كو اس كے ماں باپ كے متعلق نصيحت كى ہے، اس كى ماں نے دكھ پر دكھ اٹھا كر اسے حمل ميں ركھا، اور اس كى دودھ چھڑائى دو برس ميں ہے، كہ تو ميرى اور اپنے ماں باپ كى شكر گزارى كر، ( تم سب كو ) ميرى ہى طرف لوٹ كر آنا ہے، اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات كا دباؤ ڈاليں كہ تو ميرے ساتھ شرك كرے جس كا تجھ كو علم نہيں تو تو ان كا كہنا نہ ماننا، ہاں دنيا ميں ان كے ساتھ اچھى طرح بسر كرنا، اور اس كى راہ چلنا جو ميرى طرف جھكا ہوا ہو، تمہارا سب كا لوٹنا ميرى ہى طرف ہے، تم جو كچھ كرتے ہو اس سے پھر ميں تمہيں خبردار كرونگا لقمان ( 14 – 15 ).
آپ كے ليے ان سے قطع تعلقى كرنا جائز نہيں، بلكہ آپ ا نكو ٹھنڈا كرنے كى كوشش كريں، اور انہيں مطئمن كريں، اور انہيں تحفہ جات اور مال ديں تا كہ ان كے دل كو جيت سكيں، اور ان كے ليے اللہ تعالى سے ہدايت كى دعا كريں.
اللہ تعالى ہميں اور آپ كو ايسے كام كرنے كى توفيق دے جنہيں وہ پسند كرتا اور جن پر راضى ہوتا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب