ايك شخص كي بيوى دائمى بيمار ہے اور اس سے اس كے تين بچے بھى ہيں، وہ اپنے گھر والوں سے دور ملازمت كرتا ہے بعض اوقات اس كى بيوى كئى كئى دن ہسپتال ميں رہتى ہے تو اسطرح وہ شخص اولاد اور كام ميں ضائع رہتا ہے، اس نے فيصلہ كيا كہ ايك امانتدار خادمہ لے آئے تو اس نے ايك شخص كے ہاں خادمہ ديكھى جسے وہ لوگ امين قرار دے رہے تھے، وہ خادمہ اس كے پاس كچھ مدت رہى تو اس نے بالكل انہى اوصاف كا مالك پايا جو انہوں نے بتائے تھے.
ليكن وہ كہتا ہے كہ وہ اس پر پردہ كرنا لازم نہيں كر سكتا اور ہو سكتا ہے اس پر اس كى نظر بھى پڑ سكتى ہے، اور اسى طرح اس كى بيوى جب ہاسپٹل ميں ہو تو اس سے خلوت كا بھى ڈر ہے، اس كا سوال ہے كہ كيا وہ اس سے شادى كر لے، اس كى نيت ميں طلاق نہيں جب تك وہ موجود ہے.
اس نے كسى عالم دين سے سنا ہے كہ كفيل خادمہ كا ولى ہوتا ہے، تو كيا وہ بيوى سے خفيہ طور پر خادمہ سے شادى كر لے اس ميں دو گواہ بھى ہوں تا كہ فتنہ سے بچ سكے، يا اسے كيا كرنا چاہيے ؟
خادمہ سے شادى اور اس كا كفيل ولى بنے
سوال: 98407
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
گھروں ميں كام كاج كرنے والےگھريلو ملازمين غلام اور لونڈيوں كے حكم ميں نہيں آتے، بلكہ ان كا حكم تو ان خاص ملازمين كا ہے جو مالك كے پاس كچھ مدت كے ليے ملازمت كرنے آتے ہيں.
خادمات كے بارہ ميں كلام بيان ہو چكى ہے كہ انہيں ان كے ملك سے لانے ميں كيا ممانعت اور خطرات پائے جاتے ہيں اور جن گھروں ميں وہ بطور خادمات كام كرتى ہيں ان ميں كيا خرابياں پيدا ہوتى ہيں، اس كى تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 26282 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.
دوم:
ہمارے علم كے مطابق تو كسى بھى اہل علم نے نہيں كہا كہ خادمہ كا كفيل اس كا ولى ہوتا ہے، كيونكہ خادمہ تو ايك آزاد عورت ہے، اور اس كا ولى اس كا والد يا اس كا بيٹا يا اس كا بھائى ہوگا، ليكن اس كا كفيل تو اس كے ليے ايك اجنبى مرد كى حيثيت ركھتا ہے، اسے اس پر كوئى ولايت حاصل نہيں.
سوم:
گھر ميں كام كاج كرنے كے ليے خادمہ سے معاہدہ كرنے والے كے ليے اسے ديكھنا يا اس سے خلوت كرنى جائز نہيں، كيونكہ وہ عورت اس كے ليے اجنبى ہے، اور وہ بھى اس خادمہ كے ليے ايك اجنبى مرد كى حثييت ركھتا ہے، اس پر بھى وہى كچھ لاگو ہوتا ہے جو دوسرى اجنبى عورتوں پر لاگو ہوتا ہے.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہيں:
” خادمات كا خطرہ بہت عظيم ہے، اور يہ بہت بڑى مصيبت ہيں، اس ليے كسى بھى مسلمان شخص كے ليے اجنبى عورت سے خلوت كرنى جائز نہيں چاہے وہ خادمہ ہو يا كوئى اور مثلا بھابھىن يا چچى، يا پھر سالى، يا مامى وغيرہ، اور نہ ہى وہ كسى پڑوسى كى عورت سے خلوت كرے، اور نہ ہى كسى دوسرى اجنبى عورت سے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” كوئى مرد بھى كسى عورت كے ساتھ خلوت مت كرے؛ كيونكہ ان كے ساتھ تيسرا شيطان ہوتا ہے ”
لہذا اس كے ليے كسى اجنبى عورت سے اور نہ ہى كسى خادمہ وغيرہ سے خلوت كرنى جائز نہيں، اور اس كے جائز نہيں كہ وہ گھر كے ليے كافر ملازم ملك ميں لائے، اور كام كاج كے ليے كافر ملازمين لانا بھى جائز نہيں، اور نہ ہى اس جزيرہ عرب ميں كافر خادمات لانا جائز ہيں ” انتہى
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 5 / 40 – 41 ).
چہارم:
سائل كا اپنے گھر ميں كام كاج كرنے والى خادمہ كے ساتھ شادى كرنے كى سوچ ايك اچھى سوچ ہے؛ تا كہ وہ حرام كام سے بچ سكے اس پر حرام نظر بھى پڑ سكتى ہے اور خلوت بھى ہوتى ہے يا اس سے بھى زيادہ سخت ( اللہ نہ كرے ) زنا وغيرہ، ليكن اس خادمہ سے شادى كرنے سے قبل اسے چند ايك امور پر متنبہ رہنا ہوگا:
1 ـ وہ اس خادمہ سے شادى كے بعد اسے بيوى كے پورے حقوق دے، يعنى اس كا نفقہ، اور مہر اور اس كے پاس رات بسر كرنا، اور پہلى بيوى اور اس كے درميان عدل كرنا، اس كے حق ميں كوئى كمى نہيں كہ وہ خادمہ ہے، كيونكہ وہ تو اس كى بيوى بن جائيگى، اور اسے وہى حقوق حاصل ہونگے جو پہلى بيوى كو حاصل ہيں.
2 ـ اس سے نكاح اس وقت تك كرنا حلال نہيں جب تك اس كا ولى راضى نہ ہى اور اس كا ولى اس كا والد ہے، يا تو اس كا ولى بنفسہ خود حاضر ہو، يا پھر وہ جسے چاہے اپنا نائب اور وكيل بنا دے.
3 ـ اس عقد نكاح پر دو عادل گواہ بھى گواہى ديں يا پھر لوگوں كى ايك جماعت كے سامنے يہ عقد نكاح كيا جائے، اور پہلى بيوى كو بتانا شرط نہيں، ليكن اس كے ليے اسے لوگوں سے خفيہ ركھنا حلال نہيں؛ كيونكہ ايسا كرنے سے خاوند اور بيوى دونوں كے ليے ضرر ہے، اور اس ليے بھى كہ اس ميں حقوق زوجيت سلب ہونے كا خطرہ ہے، مثلا مہر اور نسب كا ثبوت اور اولاد اور وراثت ميں ان كا حق.
4 ـ اس كے حقوق سے روكنا جائز نہيں مثلا استمتاع اور اولاد پيدا كرنا وغيرہ اس ليے اس كى اجازت كے بغير جماع ميں عزل كرنا جائز نہيں، اور اس كے ليے جائز نہيں كہ اسے اولاد پيدا كرنے سے روكا جائے، كيونكہ استمتاع اور اولاد حاصل كرنے كا حق خاوند اور بيوى دونوں كے مابين مشترك ہے، اس ليے اسے اس سے محروم كرنا جائز نہيں.
5 ـ پہلى بيوى اور اس كى اولاد كے ساتھ معاملات كرنے كے طريقہ ميں متنبہ رہنا واجب ہے، كيونكہ وہ اس كى بيوى ہے، اس ليے اس كا احترام اور قدر اور اس كےمناسب تكريم كرنا ضرورى ہے، اور اس كے ليے جائز نہيں كہ وہ اس كى دوسرى بيوى كے ساتھ برا سلوك كريں تو وہ اس پر راضى ہو كہ وہ ايك اجنبى خادمہ ہے، ليكن حقيقت ميں تو وہ اس كى بيوى بن چكى ہو.
اسے چاہيے كہ ہم نے جو كچھ بيان كيا ہے وہ اس كو سامنے ركھے تا كہ شرعى شادى ہو، اور اسے باطل يا ناقص كرنے والى اشياء سے خالى رہے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اس كى بيوى كو شفايابى نصيب كرے، اور اگر دوسرى شادى ميں اس كے ليے خير و بھلائى ہے تو اس ميں آسانى پيدا فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب