ميرى بيوى بہت سارے معاملات ميں ميرى نافرمانى كرتى ہے، اولاد كى تعليم و تربيت ميں، اور رشتہ داروں كے ساتھ تعلقات ميں، اور اسى طرح ازدواجى زندگى كے بہت سارے دوسرے امور ميں بھى مخالفت كرتى ہے، ميں اس كا كيا كروں، ميں نے اسے كہا كہ نماز ادا كيا كرو، اور قرآن مجيد كى تلاوت كرو ليكن وہ نہيں مانتى! آپ سے گزارش ہے كہ اس كى ہدايت كے ليے دعا فرمائيں.
بيوى نماز ادا نہيں كرتى اور اكثر امور ميں خاوند كى نافرمانى كرتى ہو تو اس كے ساتھ كيسے معاملہ كيا جائے
سوال: 98624
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
سعادتمند اور خوشبخت گھر وہى ہيں جن ميں افہات و تفہيم پائى جائے، اور محبت و الفت اور مودت پر قائم ہوں، اور اس گھر كى عمارت اسى وقت مكمل ہوتى ہے جب خاوند اور بيوى ميں مودت و محبت اور الفت پائى جائے، اور يہ چيز اسى صورت ميں مكمل ہو سكتى ہے جب خاوند اور بيوى دونوں ہى اپنے واجبات كى ادائيگى كريں، ان واجبات ميں درج ذيل امور شامل ہيں:
خاوند كا اپنى بيوى اور بچوں كے اخراجات اور نان و نفقہ برداشت كرنا.
بيوى پر شريعت كے دائرہ ميں رہتے ہوئے اپنے خاوند كى اطاعت و فرمانبردارى كرنا واجب ہے.
جب عورت اپنے خاوند كے حق نگرانى ميں سے كوئى حق سلب كرنے كى كوشش كرے، يا پھر خاوند كى اطاعت كرنے سے ہاتھ كھينچے اور بددماغى كرنا چاہے تو وہ اپنا گھر اپنے ہاتھ سے منہدم كرنے اور اپنى اولاد كو برے اعمال كے سبب تباہ كرنے كى كوشش كر رہى ہے.
بيويوں كو عموما معلوم ہونا چاہيے كہ ان پر شرعا خاوند كى اطاعت و فرمانبردارى كرنا واجب ہے، اور خاوند كو چاہيے كہ وہ اپنى بيوى بچوں پر اپنى حكمرانى كو بہتر طريقہ سے استعمال كرے، اور ان كى اصلاح اور سعادت ميں راہنمائى كرے.
فرمان بارى تعالى ہے:
مرد عورتوں پر حاكم ہيں، اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے بعض كو بعض پر فضيلت دى ہے، اور اس ليے كہ مردوں نے اپنے اموال خرچ كيے ہيں النساء ( 34 ).
اور پھر بيويوں كو درج ذيل احاديث پر غور كرنا چاہيے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” اگر ميں كسى كو حكم ديتا كہ وہ ( اللہ كے علاوہ ) كسى دوسرے كو سجدہ كرے تو عورت كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كرے ”
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1159 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تين قسم كے افراد كى نماز ان كے كانوں سے نيچے نہيں جاتى: بھاگا ہوا غلام جب تك واپس نہ آ جائے، اور ايك وہ عورت جس كا خاوند اس پر ناراض ہو كر رات بسر كرے، اور وہ امام و حكمران جسے قوم ناپسند كرتى ہو ”
سنن ترمذى حديث نمبر ( 360 ) امام ترمذى نے اسے حسن قرار ديا ہے.
معاذ بن جبل رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جو بيوى دنيا ميں اپنے خاوند كو تكليف ديتى ہے تو اس شخص كى حوروں ميں سے بننے والى بيوى اسے كہتى ہے اللہ تعالى تجھے تباہ كرے يہ تو تيرے پاس كچھ وقت كے ليے عنقريب اس نے تجھے چھوڑ كر ہمارے پاس آنا ہے ”
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1174 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” كسى بھى عورت كے حلال نہيں كہ خاوند موجود ہو تو وہ خاوند كى اجازت كے بغير روزہ ركھے، اور خاوند كے گھر ميں خاوند كى اجازت كے بغير كسى كو آنے دے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4699 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1026 ).
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى اس حديث پر تعليقا كہتے ہيں:
جب عورت پر خاوند كى شہوت پورى كرنے ميں اطاعت كرنى واجب ہے تو پھر اس سے اہم اشياء ميں تو خاوند كى اطاعت كرنا بالاولى واجب ہوگى، جس ميں اپنے بچوں كى تعليم و تربيت اور گھر كى اصلاح وغيرہ دوسرے حقوق و واجبات شامل ہيں.
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى فتح البارى ميں كہتے ہيں:
” اس حديث ميں ہے كہ: بيوى پر نفلى كام كرنے سے خاوند كا حق زيادہ تاكيدى ہے كيونكہ خاوند كا حق واجب ہے، اور خاوند كا حق ادا كرنا نفلى كام پر مقدم ہوگا ”
ديكھيں: آداب الزفاف ( 210 ).
دوم:
خاوند كو چاہيے كہ وہ بيوى كى نافرمانى كے اسباب تلاش كرنے كى كوشش كرے، اور ايسے اسباب كو پہچانے جن كے ذريعہ بيوى كے اس مرض كا علاج كر سكے اور اس سے امن و امان تك پہنچ سكے، تا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كى ناراضگى اور اس كے عذاب سے محفوظ رہے، ان اسباب ميں درج ذيل امور شامل ہيں:
خاوند:
جى ہاں ہو سكتا ہے بيوى كى نافرمانى كا سبب آپ ہوں، يا تو آپ ميں كچھ معصيت و نافرمانى پائى جاتى ہے، جيسا كہ سلف رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
” ميں اپنى معصيت و نافرمانى كے اثرات اپنى سوارى اور اپنى بيوى ميں ديكھتا ہوں ”
اور يہ اثرات بيوى كے سوء اخلاق يا پھر اطاعت نہ كرنے كى صورت ميں ہوتے ہيں.
يا پھر خاوند اپنى بيوى كے ساتھ برے اخلاق كا مظاہرہ كرتا ہے، تو اس طرح اس كے رد فعل ميں بيوى خاوند كے برے اخلاق كى بنا پر بيوى بھى خاوند كے ساتھ اچھے معاملات نہيں كرتى.
اور ان اسباب ميں بيوى كے گھر والے اور رشتہ دار يا پھر پڑوسى يا اس كى سہيلياں بھى ہو سكتى ہيں جو خاوند اور بيوى ميں عليحدگى كرانے ميں شيطان كى معاونت كرتے ہيں.
اور اگر سبب بيوى كى جانب سے ہے ـ يعنى بيوى كے كمزور ايمان يا پھر شرعى احكام سے جہالت كى وجہ سے ـ تو خاوند كو چاہيے كہ وہ اسے اللہ كى ياد دلائے، اور اس كے ايمان كى تقويت ميں معاونت كرے، اور خاوند كے جن حقوق سے بيوى جاہل ہے ان كى بيوى كو تعليم دے.
اگر ايسا كرنا فائدہ مند نہ ہو تو پھر وہ بيوى كو ہلكى پھلكى مار كى سزا دے، اور اگر يہ بھى فائدہ نہ دے تو پھر وہ اسے بستر ميں چھوڑ دے يعنى بستر سے عليحدہ كر دے.
اگر خاوند اپنى پورى جدوجھد صرف كرے اور بيوى نہ تو اس كى بات مانے اور نہ ہى كسى دوسرے شخص كى جانب سے خير كى بات مانے تو پھر يہى راہ ہے كہ آپ اسے ايك طلاق دے ديں؛ كيونكہ يہ ايك طلاق اسے متنبہ كر دے اور اس كے حقوق ياد دلا دے.
ليكن اگر پھر بھى وہ اپنى معصيت و نافرمانى پر قائم رہے تو پھر اس عورت ميں كوئى خير و بھلائى نہيں، اميد ہے اللہ سبحانہ و تعالى آپ كو اس كا نعم البدل عطا فرمائيگا.
درجہ بدرجہ اصلاح كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے: اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جن عورتوں كى نافرمانى اور بددماغى كا خوف ہو تو انہيں نصيحت كرو، اور انہيں الگ بستروں پر چھوڑ دو، اور انہيں مار كى سزا دو، پھر اگر وہ تابعدارى كريں تو ان پر كوئى راستہ تلاش نہ كرو، يقينا اللہ تعالى بڑى بلندى اور بڑائى والا ہے النساء ( 34 ).
شيخ عبد الرحمن السعدى رحمہ اللہ تعالى اس كى تفسير ميں رقمطراز ہيں:
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جن عورتوں كى نافرمانى اور بددماغى كا خوف ہو .
يعنى وہ اپنے خاوند كى اطاعت و فرمانبردارى نہ كريں اور كلام يا فعل ميں نافرمانى كريں، تو تم انہيں سہل سے سہل طريقہ سے ادب سكھاؤ.
” فعظوھن ” انہيں وعظ و نصيحت كرو .
يعنى خاوند كى اطاعت ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا حكم بيان كرے، اور خاوند كى نافرمانى كے متعلق شريعت كا حكم كيا ہے وہ بتايا جائے، اور اس كے ساتھ ساتھ خاوند كى اطاعت و فرمانبردارى كرنے كى ترغيب دلائى جائے، اور خاوند كى نافرمانى كرنے سے ڈرايا جائے، اگر وہ اس سے باز آ جائے تو مطلب پورا ہو جائيگا.
ليكن اگر پھر بھى وہ نافرمانى پر قائم رہتى ہے تو پھر بيوى كو بستر سے عليحدہ كر دے، يعنى وہ بيوى كے ساتھ مباشرت نہ كرے اور مجامعت كرنے سے رك جائے حتى كہ مقصد اور مطلب پورا ہو جائے اور بيوى اطاعت كرنے لگے.
اور اگر پھر بھى نافرمانى پر قائم رہتى ہے تو پھر اسے ہلكى پھلكى سے مار كى سزا دے، اگر تو ان تين امور ميں سے كسى ايك كى وجہ سے مقصد اور مطلب پورا ہو جائے اور اطاعت كرنے لگے نافرمانى سے باز آ جائے اور وہ تمہارى اطاعت كرنے لگيں تو پھر:
” ان پر كوئى راہ تلاش مت كرو “
يعنى جو تم چاہتے تھے وہ حاصل ہو چكا ہے اس ليے اب بيوى كو ماضى كے امور پر ڈانٹنا چھوڑ دو، اور جن عيوب كے ذكر كرنے سے سے شر پيدا ہو اسے چھوڑ ديں.
ديكھيں: تفسير السعدى ( 142 ).
بہر حال خاوند اپنى بيوى كے بارہ ميں زيادہ علم ركھتا اور اسے بہتر جانتا ہے، اگر اسے علم ہو كہ اس كى نافرمانى كے اسباب ايسے ہيں جن كا وہ علاج كر سكتا ہے تو وہ ان اسباب كا ضرور علاج كرے، اور اگر اس سے كوئى فائدہ نہ ہو تو پھر خاوند كو چاہيے كہ وہ اپنے خاندان ميں سے يا پھر بيوى كے خاندان ميں سے كسى ايك كى ذمہ دارى لگائے كہ وہ ان اسباب كا علاج كرے، كيونكہ ہو سكتا ہے اس كے علاوہ كسى دوسرے كا بيوى پر اثر زيادہ ہو.
سوم:
ہمارى سابقہ كلام ہر اس خاوند كے ليے ہے جو اپنى بيوى كى جانب سے نافرمانى كا شكار ہے، اور اس كلام ميں وہ بيوى شامل ہے جس كى حالت ميں بارہ ميں سوال كيا گيا ہے، ليكن يہ اس صورت ميں ہے جب وہ نماز كى پابندى كرتى ہو.
ليكن اگر وہ نماز ادا نہيں كرتى تو پھر اوپر بيان كردہ امور اس پر فٹ نہيں ہوتے؛ كيونكہ اس حالت ميں اس كے ساتھ كلام مختلف ہوگى؛ اس ليے كہ ترك نماز كى بنا پر وہ كافرہ عورتوں ميں شمار ہوتى ہے، اور اس كے خاوند كے ليے اس عورت كے قريب جانا حلال نہيں، اور نہ ہى وہ اس سے جماع كر سكتا ہے ليكن اگر وہ نماز ادا كرنے لگے تو پھر صحيح ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اگر وہ توبہ كر ليں اور نماز ادا كرنے لگيں اور زكاۃ كى ادائيگى كريں تو وہ تمہارے دينى بھائى ہيں التوبۃ ( 11 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:ط
” بلاشبہ مرد اور شرك و كفر كے مابين حد فاصل نماز ترك كرنا ہے ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 116 ).
اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” يقينا ہمارے اور ان ( كافروں ) كے مابين معاہدہ نماز ہے، چنانچہ جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كيا ”
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2621 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 463 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1079 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اس ليے ہمارے سائل بھائى آپ اس اہم معاملہ سے شروع كريں، اور كوشش كريں كہ سہل سے سہل طريقہ ميں بيوى كے ليے نماز كا حكم بيان كريں، كہ نماز كا ترك كرنا كفر اكبر ہے، اور اگر نماز ادا نہيں كرو گى اور اسى معصيت پر برقرار رہو گى تو نكاح فسخ ہو جائيگا.
اگر وہ قبول كرتے ہوئے نماز كى ادائيگى كرنے لگے تو الحمد للہ اور آپ اس كے ساتھ ان امور كے مطابق چليں جو ہم ابھى بيان كر چكے ہيں.
اور اگر وہ قبول نہ كرے اور نماز ترك كرنے پر مصر رہے تو پھر آپ اس كى نافرمانى كا علاج كرنے كى كوشش مت كريں، اور نہ ہى آپ بچوں كى تعليم و تربيت ميں بيوى كى كوتاہى كے بارہ دريافت كريں؛ كيونكہ آپ كا اس عورت كے ساتھ عقد زوجيت ميں رہنا ہى حلال نہيں.
اور اسے فسخ نكاح سے قبل آپ ڈرائيں ـ كيونكہ ہو سكتا ہے آپ كا نكاح ايك طلاق دينے سے فسخ ہو اس ليے كہ اكثر عدالتيں ترك نماز كو فسخ نكاح كا موجب نہيں سمجھتيں! ـ اور اسے آخرى فرصت اور موقع ديں؛ ہو سكتا ہے كہ اللہ تعالى اسے ہدايت دے اور اس كا سينہ حق كے ليے كھل جائے.
مزيد آپ سوال نمبر (47425 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں، اس ميں تارك نماز كو دعوت دينے كا مثالى طريقہ بيان كيا گيا ہے.
اس كے علاوہ آپ سوال نمبر (12828 ) اور (91963 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كى بيوى كو نماز كى پابندى كرنے كى توفيق نصيب فرمائے، اور اس كے دل ميں ہر قسم كى بھلائى اور خير كے كام ڈالے، اور اس كے كان اور دل اور آنكھوں اور جسم كے باقى سارے اعضاء كو بھى صحيح كرے، اور اسے اللہ تعالى كى نعمتوں پر اللہ كا شكر ادا كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات