انٹرنیٹ پر اشتہارات کیلئے اپنی خدمات پیش کرنے کے بارے میں ہے، مثلاً گوگل آپکی سائٹ پر اشتہارات لگاتا ہے، اور آپ اپنی سائٹ کے مالک ہونے کی وجہ سے گوگل کی طرف سے آپکی ویب سائٹ پر لگائے گئے اشتہار پر ہر کلک کے بدلے میں پیسے وصول کرتے ہیں، اس اشتہار پر کلک کرنے کی وجہ سے صارف متعلقہ کمپنی کی ویب سائٹ پر منتقل ہو جاتا ہے، مثلاً: اگر دس صارفین نے اشتہار پر کلک کیا تو گوگل کمپنی سے آپ دس ڈالر وصول کریں گے، تو کیا یہ جائز ہے؟
ویب سائٹس پر اشتہارات کا معاوضہ کلک کی تعداد کے تناسب سے مقرر کرنا۔
سوال: 98817
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سوال میں ذکر شدہ عقد کو "جُعالہ" [ایسا مالی معاوضہ جو کسی مبہم چیز پر ملے۔ آئندہ تفصیل سے مزید واضح ہو جائے گا۔ مترجم]کہا جاتا ہے، جو کہ شرعی طور پر درست ہے، بشرطیکہ یہ اشتہارات حرام امور پر مشتمل نہ ہوں، یا اس میں کسی قسم کی حرام کاموں کیلئے معاونت نہ ہو۔
جائز "جُعالہ" کیلئے فقہائے کرام نے جو صورتیں ذکر کیں ہیں ان میں سے یہ ہے کہ: کوئی شخص کہے کہ: "جو میرا اونٹ تلاش کر کے لائے گا، اسے میں اتنا مال دونگا" اور "جُعالہ" کے جائز ہونے کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے :
( وَلِمَن جَاء بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَاْ بِهِ زَعِيمٌ )
ترجمہ: اور جو کوئی بھی گم شدہ [پیالہ] لائے گا، اسے ایک اونٹ پر لدا ہوا مال ملے گا، اور میں اسکا ضامن بھی ہوں۔[ يوسف:72]
مسلمانوں کا اس کے جائز ہونے پر اجماع بھی ہے، متعدد اہل علم نے اس پر اجماع نقل کیا ہے، جن میں ابن قدامہ رحمہ اللہ بھی ہیں وہ "المغنی": (6/20) میں رقمطراز ہیں کہ:
"ہمیں اس بارے میں کسی کی مخالفت کا علم نہیں ہے"
حقیقت میں "جُعالہ " بھی اجارہ ہی کی ایک قسم ہے، لیکن "جُعالہ " کیلئے اتنی گنجائش دی جاتی ہے جو عام اجارہ میں نہیں دی جاسکتی، چنانچہ "جُعالہ " میں عقد شدہ کام کے بارے میں ابہام قابل قبول ہوتا ہے، جیسے کہ گم شدہ اونٹ کی مثال میں ہے، کیونکہ اونٹ کم یا زیادہ جد و جہد ہر دو صورت میں مل بھی سکتا ہے، اور نہیں بھی۔
بالکل اسی طرح صورت مسؤلہ میں ہے، کیونکہ آپکو نہیں معلوم کہ کتنے لوگ اس اشتہار کو دیکھ کر کلک کریں گے، چنانچہ اگر آپکو ہر کلک کے بدلے میں مالی معاوضہ معین کر کے بتلا دیا گیا ہے تو اس میں شرعی طور پر کوئی ممانعت نہیں ہے۔
لیکن ساتھ میں ان اشتہارات کے بارے میں جانچ پڑتا ل ضروری ہے، تا کہ حرام چیزوں کے اشتہارات کو ترویج نہ دی جائے، اور حرام چیزوں کے اشتہارات ہونے کی وجہ سے یہ حرام کاموں میں داخل ہو جائے گا، لہذا اس پر معاوضہ لینا بھی حرام ہوگا، کیونکہ فرمان باری تعالی ہے کہ :
( وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإثم وَالْعُدْوَانِ)
ترجمہ: گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد مت کرو۔[المائدة:2]
مزید تفصیل جاننے کیلئے آپ سوال نمبر: (101806) کا مطالعہ بھی کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات