ميں اپنى ايك رشتہ دار لڑكى كو پسند كرتا ہوں ليكن لڑكى كى ماں مجھے اس كا رشتہ دينے سے انكار كرتى ہے، اور لڑكى كا باپ ہر طرح سے راضى ہے، اس سلسلہ ميں آپ كيا كہتے ہيں، ميں نے اب تك لڑكى كى تصوير سنبھال كر ركھى ہے ؟
لڑكى پسند ہے اور لڑكى كا باپ راضى ہے ليكن ماں انكار كرتى ہے
سوال: 99745
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
نكاح اور شادى ميں معتبر عورت كے ولى كى موافقت ہے اور عورت كا ولى يہاں عورت كا باپ ہے، رہى ماں تو اس كى رضامندى اور اجازت نكاح ميں شرط نہيں، ليكن باپ كے ليے اسے راضى كرنے كے ليے اس سے مشورہ كرنا مستحب ہے.
اس بنا پر اگر لڑكى كا والد راضى ہے تو آپ كے ليے اس لڑكى سے نكاح كرنا ممكن ہے، ليكن كيا يہ شادى كرنا صحيح ہے؟
اسے ديكھنا ہوگا كہ اگر تو لڑكى كا دين بھى پسند ہے اور وہ اخلاقى طور پر صحيح ہے، اور ماں كے انكار كا سبب قليل سا ہے، يا پھر كسى ايسے معاملہ كى بنا پر جو آئندہ مستقبل ميں ختم ہو جائيگا، تو پھر يہ شادى كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن اگر ماں كا انكار ايسے سبب كى بنا پر جس كا عنقريب ختم ہونا ممكن نہيں، تو پھر بہتر يہى ہے كہ اس شادى كو چھوڑ ديا جائے، كيونكہ اس شادى كے نتيجہ ميں ماں كے موقف ميں اور زيادہ شدت پيدا ہوگى اور وہ آپ كى ازدواجى زندگى كو تباہ كركے ركھ دےگى.
اس مسئلہ ميں يقين اور جزم وہى جو افضل اور زيادہ بہتر ہو، اور اس كے ليے معاملے كى تفصيلات كو جاننا ضرورى ہے، ليكن اجمالى طور پر ہم يہ كہيں گے كہ: يہ معاملہ مفاسد اور مصلحت ميں موازنہ كا متحاج ہے، اور ضرورت اس بات كى ہے كہ يہ معلوم كيا جائے كہ لڑكى اپنى والدہ كے موقف پر كس قدر اثرانداز ہو سكتى ہے، اور اس كى طبيعت كيسى ہے، كہ اگر ماں اس پر دباؤ ڈالتى ہے يا پھر ماں اسے آپ كى مخالفت كرنے كى ترغيب ديتى ہے تو وہ كيا موقف اختيار كريگى.
رہا آپ كا يہ كہنا كہ: آپ نے اب تك اس كى تصوير ركھى ہوئى ہے، اگر تو اس سے مراد يہ ہے كہ آپ نے اب تك اس كى فوٹو سنبھال كر ركھى ہوئى ہے، تو يہ دو وجوہات كى بنا پر جائز نہيں ہے:
اول:
وہ لڑكى آپ كے ليے اجنبى ہے، اس ليے اسے ديكھنا جائز نہيں، اور يہ ديكھنا فتنہ و فساد كے اسباب ميں شامل ہوتا ہے، اس ليے شريعت اسلاميہ نے نظريں نيچى ركھنے كا حكم ديا ہے جيسا كہ فرمان بارى تعالى ہے:
آپ مومن مردوں كو كہہ ديجئے كہ وہ اپنى نظريں نيچى ركھا كريں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، يہ ان كے ليے زيادہ پاكيزگى كا باعث ہے، يقينا اللہ تعالى جانتا ہے جو وہ كر رہے ہيں النور ( 30 ).
دوم:
يادگيرى كے ليے تصاوير اور فوٹو ركھنا جائز نہيں، چاہے يہ تصاوير بيٹے اور بيٹيوں كى ہى ہوں، يا پھر عزيز و اقارب اور رشتہ داروں كى، كيونكہ عمومى دلائل تصاوير كى حرمت اور اس ميں شدت پر دلالت كرتے ہيں، اس ليے ذى روح اشياء كى تصاوير جائز نہيں، صرف شديد ضرورت و حاجت كى بنا پر ہى بنائى جا سكتى ہيں، مثلا شناختى كارڈ اور پاسپورٹ وغيرہ كے ليے، اور اسى طرح مجرم قسم كے افراد كى تصاوير.
اس بنا پر آپ كے ليے ضرورى اور واجب ہے كہ آپ اس تصوير اور فوٹو كو ضائع كر ديں، اور اس سے چھٹكارا حاصل كريں، اور يہ جان ليں كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ كى ہر حركت كو جانتا ہے، اور آپ كو ديكھ رہا ہے، اس ليے آپ اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اس كے عذاب اور سزا سے ڈر جائيں، اور مومن عورتوں كى ستر پوشى كريں، اور آپ ان كے ليے بھى وہى كچھ چاہيں اور اميد ركھيں جو آپ كا خاندان ستر پوشى اور عافيت چاہتا ہے.
اور شادى جيسا قدم اٹھانے سے قبل استخارہ ضرور كريں نماز استخارہ كى تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 11981 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو سيدھى راہ كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات