0 / 0

جو شخص کسی حرام طریقے سے قرضہ لے تو زکاۃ کی مد سے اس کی مدد نہ کی جائےیہاں تک کہ وہ حرام سے توبہ کر لے۔

سوال: 99829

سوال: ایک شخص نے مکان کی خریداری کیلئے بینک سے قرضہ لیا، تو کیا اسے قرضہ کی ادائیگی کیلئے زکاۃ دی جا سکتی ہے؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

انسان کیلئے ہر طرح سے سودی لین دین حرام ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
(اَلَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبا لا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ)
ترجمہ: جو لوگ سود کھاتے ہیں  وہ یوں کھڑے ہوں گے  جیسے شیطان نے چھو کر اسے مخبوط الحواس بنا دیا ہو ،  اس کی وجہ ان کا یہ نظریہ  ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام، اب جس شخص کو اس کے پروردگار سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک گیا تو پہلے جو سود وہ کھا چکا سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے سپرد، مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ اہل دوزخ ہیں  وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ [البقرة :275]

اور صحیح مسلم (1598)میں ہے جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے، کھلانے، لکھنے والے سمیت دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی، اور فرمایا یہ سب اس میں برابر کے شریک ہیں)

مزید کیلئے سوال نمبر: (39829) کے جواب کا مطالعہ کریں۔

دوم:

اگر کوئی شخص کسی حرام کام  کیلئے قرضہ لے ، تو اسے اس قرضہ کی ادائیگی کیلئے صرف اسی صورت میں زکاۃ دی جا سکتی ہے جب وہ توبہ تائب ہو جائے۔

چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ “المغنی” (6/333) میں کہتے ہیں:
“اگر قرضہ کسی گناہ کی وجہ سے چڑھا مثلاً: شراب خریدی، یا زنا کاری  اور جوا، گانے بجانے وغیرہ میں  پیسہ اڑایا، تو ان گناہوں سے توبہ کرنے سے قبل کچھ نہیں دیا جائے گا؛ کیونکہ اس طرح گناہ پر معاونت ہوگی” انتہی

اور ابن مفلح رحمہ اللہ  “الفروع” (2/618) میں کہتے ہیں کہ:
“جو شخص کسی گناہ کی وجہ سے مقروض ہو تو اسے توبہ کرنے سے قبل کچھ بھی نہیں دیا جائے گا” انتہی

اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ  ” الشرح  الممتع” (6/235) میں لکھتے ہیں کہ:
“جو شخص کسی گناہ کی وجہ سے مقروض ہو جائے تو کیا ہم اسے اپنا قرضہ چکانے کیلئے زکاۃ میں سے دیں؟
جواب: یہ ہے کہ جب تک وہ توبہ نہیں کرتا اس وقت نہیں دینگے؛ کیونکہ یہ حرام کام پر اعانت ہے، اور وہ اس طرح کہ اگر ہم نے اسے اب بغیر توبہ کےمال زکاۃ میں سےدیا  تو وہ دوبارہ پھر سے سودی قرضہ لے لے گا” انتہی

اس لیے اگر یہ شخص سودی لین دین سے توبہ کر چکا ہے ، اور اپنے ماضی کے سودی لین دین کے بارے میں نادم و پشیمان بھی ہے، مستقبل میں  ایسا کوئی لین دین نہ کرنے کا عزم مصمم بھی ہے تو اس کا قرضہ زکاۃ کی مد سے چکایا جا سکتا ہے۔

لیکن اگر اس نے اپنے اس گناہ سے توبہ نہ کی، اور اسے توبہ کے بغیر ہی زکاۃ قرضہ اتارنے کیلئے دی گئی  تو کل دوبارہ سودی قرضہ لے لے گا، لہذا  ایسے شخص کو قرضہ چکانے کیلئے زکاۃ دینا درست نہیں ہوگا؛ کیونکہ ایسا کرنے پر ہم اس کی گناہ کیلئے معاونت کرینگے۔

واللہ اعلم.

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android