ماہ رجب كےمتعلق
اللہ وحدہ قہار كى تعريفات ہيں،اور نبى مختار محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى پاكباز آل و اصحاب پر درود و سلام كے بعد:
اس اللہ سبحانہ و تعالى كى تعريف ہےجس كا فرمان ہے:
{ اور تيرا پروردگار جو چاہتا ہے پيدا كرتا اور اختيار كرتا ہے }.
يہاں اختيار كا معنى چن لينا ہے، جو كہ اللہ سبحانہ و تعالى كى وحدانيت و ربوبيت اور اس كى كمال حكمت و علم اور قدرت پر دلالت كرتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كے چن لينے اور افضليت دينے ميں يہ شامل ہے كہ اللہ تعالى نے بعض ايام اورمہينوں كو بھى چن ليا اور انہيں فضيلت دى ہے، مہينوں ميں سے اللہ سبحانہ و تعالى نے چار مہينوں كو حرمت والا مہينہ بنايا اور اختيار كيا ہے.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{ اللہ سبحانہ و تعالى كے ہاں كتاب اللہ ميں مہينوں كى گنتى بارہ ہے، اسى دن سے جب سے آسمان و زمين كو اس نے پيدا كيا ہے، ان ميں سےچار حرمت و ادب والے مہينے ہيں، يہى درست دين ہے، تم ان مہينوں ميں اپنى جانوں پرظلم نہ كرو }.
اور يہ مہينے چاند كے طلوع ہونے كى اعتبار سے ہيں كہ سورج كے يعنى قمرى ہيں شمسى نہيں، جيسا كہ كفار نے كيا ہوا ہے.
اس آيت ميں حرمت والے مہينے مبہم بيان ہوئے ہيں اور ان كے نام كى تحديد نہيں كى گئى، ليكن ان مہينوں كے نام سنت نبويہ ميں محدد كيے گئے ہيں.
ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حجۃ الوداع كے موقع پر خطاب فرمايا اور اپنے خطبہ ميں ارشاد فرمايا:
" يقينا وقت اسى دار چل رہا ہے جس حالت ميں آسمان و زمين پيدا كرنے كے دن تھا، سال ميں بارہ ماہ ہيں، جن ميں سے چار ماہ حرمت و ادب والے ہيں، تين تو مسلسل ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ہيں، اور ايك جمادى اور شعبان كے مابين رجب مضر كا مہينہ ہے "
صحيح بخارى كتاب الحج باب الخطجبۃ ايام منى حديث نمبر ( 1741 ) صحيح مسلم كتاب القسامۃ باب تحريم الدماء حديث نمبر ( 1679 ).
اسے رجب مضر كا نام اس ليے ديا گيا ہے كہ مضر قبيلہ كے لوگ اس ماہ كو تبديل نہيں كيا كرتے تھے، بلكہ اسے اسى كے وقت ميں ہى رہنے ديتے، ليكن باقى عرب لوگ حرمت والے مہينوں كو اپنى مرضى اور جنگ كى حالت كى بنا پر تبديل كر ليا كرتے تھے، اور درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں اسے نسئي كے نام سے ذكر كيا گيا ہے:
فرمان بارى تعالى ہے:
{ نہيں سوائے اس بات كہ كہ مہينوں كو آگے پيچھے كرنا تو كفر كى زيادتى ہے، اس سے وہ لوگ گمراہى ميں ڈالے جاتے ہيں جو كافر ہيں، ايك سال تو اسے حلال كر ليتے ہيں، اور ايك اسى كو حرمت والا قرار دے دے ديتے ہيں، كہ اللہ تعالى نے جو حرمت كر ركھى ہے اس كى گنتى ميں موافقت كر ليں }.
اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ: اس ماہ كى مضر كى طرف نسبت اس ليے نسبت كى گئى كہ وہ اس ماہ كى حرمت و تعظيم زيادہ كرتے تھے، اس ليے يہ ماہ ان كى طرف منسوب كر ديا گيا.
اس ماہ كى وجہ تسميہ:
ابن فارس رحمہ اللہ نے " مقاييس اللغۃ ( 445 ) " ميں كہا ہے كہ:
رجب: راء اور جيم اور باء اس ميں كسى چيز كى مدد اور اس كى تقويت پر دلالت كرتے ہيں، اور يہ بھى اسى قبيل سے ہے رجبت الشئ يعنى اس كى تعظيم كى…. تو اسے رجب اس ليے كہا گيا كہ وہ اس كى تعظيم كرتے تھے، اور شريعت اسلاميہ نے بھى اس كى تعظيم كى " ا ھـ
اہل جاہليت اس ماہ كو منصل الاسنۃ كا نام ديتے يعنى اس ميں اسلحہ كو ركھ ديا جاتا اور لڑائى نہيں ہوتى تھى، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:
ابو رجاء العطاردى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
ہم پتھروں كى عبادت كيا كرتے تھے، اور جب ہميں كوئى اس سے بہتر اور اچھا پتھر مل جاتا تو پہلے كو پھينك كر دوسرا لے ليتے، اور جب ہميں كوئى پتھر نہ ملتا تو ہم مٹى كى ڈھيرى بناتے اور بكرى لا كر اس كا دودھ اس ڈھيرى پر دھوتے اور پھر اس ڈھيرى كا طواف شروع كر ديتے.
اور جب ماہ رجب شروع ہوتا تو ہم كہتے: اسلحہ سے لوہا كھينچ لو، اس ليے جو تير بھى ہوتا اس كا لوہا اتار ليا جاتا اور رجب كے مہينہ ميں نيزے سے بھى اتار كر ركھ ديا جاتا " اسے امام بخارى نے صحيح بخارى ميں روايت كيا ہے.
امام بيہقى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اہل جاہليت ان حرمت والے مہينوں كى تعظيم كيا كرتے تھے، اور خاص كر رجب كى تعيظيم زيادہ ہوتى، كيونكہ وہ اس ميں لڑى نہيں كرتے تھے " اھـ
ـ ماہ رجب حرمت و ادب والا مہينہ ہے:
جن مہينوں كو حرمت كا مقام حاصل ہے، ان ميں ماہ رجب بھى ہے، كيونكہ حرمت والے مہينوں ميں رجب كا مہينہ بھى شامل ہے ، اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اے ايمان والو تم اللہ تعالى شعائر كى بےحرمتى نہ كرو، اور ہى حرمت والے مہينوں كى }.
يعنى تم اللہ تعالى كى ان حرمتوں كو پامال مت كرو جس كى حرمت و تعظيم كرنے كا اللہ نے حكم ديا ہے، اور حرمت پامال كرنے سے منع كيا ہے، لہذا يہ ممانعت و نہى قبيح فعل سرانجام دينے، اور اس اعتقاد ركھنے كو بھى شامل ہوگى.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ چنانچہ تم ان ميں اپنے آپ پر ظلم مت كرو }.
يعنى ان حرمت والے مہينوں ميں، اس آيت ميں ضمير ان حرمت والے چار مہينوں كى طرف لوٹتى ہے، ابن جرير طبرى رحمہ اللہ كا يہى كہنا ہے.
اس ليے ان مہينوں ميں ان كے مقام و مرتبہ اور حرمت كى قدر كرتے ہوئے معاصى و گناہ سے اجتناب كرنا چاہيے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اس وقت كو حرمت عطا كى ہے، اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے سابقہ آيت ميں اپنے اوپر ظلم كرنے سے منع فرمايا ہے، حالانكہ ـ اپنے آپ پر ظلم كرنا اور گناہ و معاصى تو ـ سب مہينوں ميں حرام ہيں.
ـ حرمت والے مہينوں ميں لڑائى كرنا حرام ہے:
اللہ سبحانہ و تعالى كا ارشاد ہے:
{ آپ سے حرمت والے مہينوں ميں لڑائى كے متعلق پوچھتے ہيں، آپ فرما ديئجے كہ اس ميں لڑائى كرنا كبيرہ گناہ ہے }.
جمہور علماء كرام يہ كہتے ہيں كہ حرمت والے مہينوں ميں لڑائى كرنا درج ذيل فرمان بارى تعالى كے ساتھ منسوخ ہے:
{ اور جب حرمت والے مہينے گزر جائيں تو مشركوں كو جہاں بھى پاؤ انہيں قتل كرو }.
اس كے علاوہ دوسرے عمومى دلائل بھى جن ميں مشركوں كو عموما قتل كرنے كا حكم ديا گيا ہے.
اور انہوں نے اس سے بھى استدلال كيا ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اہل طائف كے ساتھ ذوالقعدہ ميں جنگ كى تھى اور ذوالقعدہ حرمت والے مہينوں ميں شامل ہے.
ليكن دوسرے علماء كہتے ہيں كہ: حرمت والے مہينوں ميں لڑائى كى خود ابتدا كرنى جائز نہيں، ليكن اگر وہ شروع كريں يا پھر پہلے سے ہو رہى ہو تو اس كى تكميل كرنى جائز ہے، اور انہوں نے اہل طائف سے لڑائى كو اسى پر محمول كيا ہے كہ حنين ميں لڑائى كى ابتدا تو شوال كے آخر ميں شروع ہوئى تھى.
يہ سب كچھ تو اس لڑائى كے متعلق ہے جو دفاعى نہيں يعنى جس ميں دفاع مقصود نہ ہو، اس ليے جب دشمن مسلمانوں كے ملك پر حملہ آور ہو تو اس علاقے كے لوگوں پر دفاع كرنا واجب ہے چاہے حرمت والے مہينہ ميں ہو يا كسى دوسرے مہينہ ميں.
العتيرۃ:
دور جاہليت ميں عرب اپنے بتوں كا قرب حاصل كرنے كے ليے ماہ رجب ميں جانور ذبح كيا كرتے تھے.
ليكن جب دين اسلام نے اللہ تعالى كے ليے ذبح كرنے كا حكم ديا تو اہل جاہليت كا يہ فعل باطل ہو گيا.
فقھاء كرام كا ماہ رجب ميں بطور العتيرہ ذبح كيے جانے والے جانور كے حكم ميں اختلاف ہے:
جمہور فقھاء يعنى احناف مالكى اور حنبلى فقھاء كے ہاں يہ منسوخ ہے، اور انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان سے استدلال كيا ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" نہ تو فرع ہے، اور نہ ہى عتيرۃ "
اسے امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے روايت كيا ہے.
اور شافعى حضرات كہتے ہيں كہ يہ منسوخ نہيں بلكہ انہوں نے عتيرہ كو مستحب قرار ديا ہے، اور ابن سيرين رحمہ اللہ كا قول يہى ہے.
ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كى تائيد ابو داود اور نسائى اور ابن ماجہ كى درج ذيل حديث سے ہوتى ہے جسے حاكم اور ابن منذر نے صحيح كہا ہے.
نبيشہ بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كہا:
" ہم دور جاہليت ميں عتيرۃ ذبيح كيا كرتے تھے، آپ اس كے بارہ ميں كيا حكم ديتے ہيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كسى بھى مہينہ ميں ذبح كر ليا كرو…. "
ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بالكل اصل ميں عتيرہ كو باطل نہيں كيا، بلكہ ماہ رجب ميں ذبح كرنا باطل كيا ہے.
ماہ رجب ميں روزے ركھنا:
خاص كر ماہ رجب ميں روزے ركھنے كے بارہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اور نہ ہى صحابہ كرام سے كى كوئى فضيلت وارد نہيں.
بلكہ اس ماہ ميں بھى وہى روزے مشروع ہيں جو دوسرے مہينوں ميں مشروع ہيں، مثلا سوموار اور جمعرات اور ايام بيض يعنى تيرہ چودہ اور پندرہ تاريخ كا روزہ، اور ايك دن چھوڑ كر دوسرے دن كا روزہ ركھنا، اور سرر شہر، اس كے بارہ ميں علماء كہتے ہيں كہ يہ ماہ كا ابتدا ہے، اور بعض درميان اور بعض آخر قرار ديتے ہيں.
عمر رضى اللہ تعالى عنہ ماہ رجب ميں روزہ ركھنے سے منع كيا كرتے تھے كيونكہ اس سے جاہليت سے مشابہت ہوتى ہے جيسا كہ خرشۃ بن حر بيان كرتے ہيں كہ:
" ميں نے عمر رضى اللہ تعالى عنہ كو ديكھا كہ وہ رجبيوں كے ہاتھوں كو مار رہے تھے حتى كہ انہوں نے اپنے ہاتھ كھانے ميں ڈا لديے اور عمر كہہ رہے تھے: اس ماہ كى ت وجاہليت والے تعظيم كيا كرتے تھے "
ديكھيں: الارواء الغليل ( 957 ) علامہ البانى نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
امام ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تين ماہ مسلسل ( يعنى رجب اور شعبان اور رمضان ) روزے نہيں ركھے جيسا كہ بعض لوگ كرتے ہيں، اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كبھى رجب كے روزے ركھے، اور نہ ہى اسے مستحب قرار ديا.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ " تبيين العجب بما ورد في فضل رجب " ميں كہتے ہيں:
" ماہ رجب كى فضيلت ميں كوئى بھى ايسى حديث وارد نہيں جو قابل حجب ہو، اور مجھ سے قبل يہى امام ابو اسماعيل الھروى رحمہ اللہ بھى كہہ چكے ہيں، اور اسى طرح ہم نے ان كے علاوہ دوسروں سے بھى روايت كيا ہے.
اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" ماہ رجب ميں كسى دن كو روزے كے ليے خاص كرنے كے متعلق ہمارے علم ميں تو كوئى شرعى دليل نہيں ہے "
ماہ رجب ميں عمرہ كرنا:
احاديث سے دليل ملتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ماہ رجب ميں عمرہ نہيں كيا، جيسا كہ مجاہد كہتے ہيں كہ:
" ميں اور عروہ بن زبير مسجد ميں گئے تو عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے حجرہ كے پاس بيٹھے ہوئے تھے ان سے دريافت كيا گيا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتنے عمرے كيے تھے ؟
انہوں نے فرمايا: چار عمرے كيے جن ميں ايك عمرہ رجب ميں تھا، چنانچہ ہم نے انہيں اس كا جواب دينا مناسب نہ سمجھا.
وہ كہتے ہيں: ہم نے ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے كمرہ سے مسواك كرنے كى آواز سنى ( يعنى عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا مسواك كر رہى تھيں تو اس كى آواز آئى ) عروہ كہنے لگے:
اماں جان اے ام المومنين كيا آپ نے سنا نہيں كہ ابو عبد الرحمن كيا كہہ رہے ہيں ؟
تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں: وہ كيا كہہ رہے ہيں ؟
انہوں نے جواب ديا: ابو عبد الرحمن كہہ رہے ہيں: كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے چار عمرے كيے اور ان ميں سے ايك عمرہ ماہ رجب ميں تھا "
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں: اللہ تعالى ابو عبد الرحمن پر رحم فرمائے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جتنے بھى عمرے كيے تو وہ ہر عمرہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ تھے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كبھى عمرہ رجب ميں نہيں كيا "
متفق عليہ.
اور مسلم كى روايت ميں ہے كہ:
" عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى يہ بات ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سن رہے ليكن انہوں نے نہ تو ہاں كہا اور نہ ہى نہ.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے انكار پر ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى خاموشى اس بات كى دليل ہے كہ يہ معاملہ ان پر مشتبہ ہوگيا يا پھر وہ بھول گئے تھے.
اس ليے ماہ رجب كو عمرہ كے ليے مخصوص كرنا نئى ايجاد كردہ بدعت ہے، اور يہ اعتقاد ركھنا كہ ماہ رجب ميں عمرہ كرنے كى كوئى فضيلت متعين ہے، اس سلسلہ ميں كوئى نص اور دليل وارد نہيں، اور اس كے ساتھ يہ بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ماہ رجب ميں عمرہ كرنا ثابت نہيں ہے.
شيخ على بن ابراہيم العطار رحمہ اللہ المتوفى ( 724 ھـ ) كا كہنا ہے:
مجھے يہ علم ہوا ہے كہ اہل مكہ مكرمہ كى عادت ہے كہ ماہ رجب ميں وہ كثرت سے عمرہ كرتے ہيں، مجھے تو اس كى كوئى دليل نہيں ملتى بلكہ حديث سے يہ ثابت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:
" رمضان المبارك ميں عمرہ كرنا حج كے برابر ہے "
اور شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ اپنے فتاوى جات ميں كہتے ہيں:
" ماہ رجب كے كسى بھى دن كو كسى عمل و زيارت كے ساتھ مخصوص كرنے كى كوئى اصل اور دليل نہيں ملتى، كيونكہ امام ابو شامہ نے كتاب البدع و الحودث ميں يہى فيصلہ كيا ہے كہ:
" جن عبادات كو شريعت نے اوقات كے ساتھ مخصوص نہيں كيا انہيں كسى وقت كے ساتھ متعين نہيں كرنا چاہيے كہ كسى عبادت كى شريعت اسلاميہ نے فضيلت بيان كى يا اس ميں سب نيكى كے كام كو افضل قرار ديا تو موقع غنيمت جانتے ہوئے كوئى اور وقت مقرر كر ليا جائے، اس ليے ماہ رجب ميں كثرت سے عمرہ كرنے كا انكار كيا ہے " اھـ
ليكن اگر كوئى شخص رجب ميں عمرہ كرنے كى فضيلت كا اعتقاد ركھے بغير ويسے ہى عمرہ كرنے جائے، يا پھر اس ليے كہ اس وقت اسے عمرہ كرنا آسان تھا تو ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
ماہ رجب ميں ايجاد كردہ بدعات:
دين ميں بدعات كى ايجاد بہت ہى خطرناك چيز ہے، اور يہ چيز كتاب و سنت كے مخالف و منافى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس دنيا سے گئے تو دين اسلام كى تكميل ہو چكى تھى.
ارشاد بارى تعالى ہے:
{ آج ميں نے تمہارے ليے تمہارا دين مكمل كر ديا ہے، اور اپنى نعمت تم پر پورى كر دى ہے، اور تمہارے ليے دين اسلام كو دين ہونے پر رضامند ہو گيا }.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسى چيز ايجاد كى جو اس دين ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "
متفق عليہ.
اور مسلم كى روايت ميں ہے:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ مردود ہے "
كچھ لوگوں نے ماہ رجب ميں كئى ايك بدعات ايجاد كر ركھى ہيں جن ميں سے چند ايك ذيل ميں دى جاتى ہيں:
ـ صلاۃ الرغائب: يہ نماز خير القرون كے بعد منظر عام پر آئى اور خاص كر چوتھى صدى ہجرى ميں اسے كچھ كذاب قسم كے افراد نے اسے گھڑا، اور يہ نماز ماہ رجب كى پہلى رات ادا كى جاتى ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" صلاۃ الرغائب ايك بدعت ہے اور اس كے بدعت ہونے پر آئمہ كرام كا اتفاق ہے مثلا امام شافعى امام مالك اور امام ابو حنيفہ ثورى، اوزاعى ليث وغيرہ كا اتفاق ہے، اس سلسلہ ميں مروى حديث محدثين كے ہاں بالاجماع من گھڑت اور جھوٹى ہے. اھـ
ـ يہ بھى مروى ہے كہ ماہ رجب ميں عظيم قسم كے حادثات ہوئے ہيں، اس سلسلہ ميں بھى كوئى صحيح روايت نہيں؛ يہ بيان كيا جاتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ماہ رجب كى پہلى رات پيدا ہوئے، اور ستاويسويں رجب آپ كو مبعوث كيا گيا.
اور يہ بھى كہا جاتا ہے كہ: پچيس رجب مبعوث ہوئے، ليكن اس ميں سے كچھ بھى صحيح نہيں ہے.
اور قاسم بن محمد سے مروى ہے كہ ستائيس رجب كو معراج ہوئى "
يہ روايت بھى صحيح نہيں، ابراہيم حربى وغيرہ نے ا سكا انكار كيا ہے، چنانچہ اس ماہ رجب ميں ستائيس رجب كو معراج كا قصہ پڑھنا اور معراج كا جشن بھى منايا جاتا ہے.
اور اس رات كو عبادت كے ليے مخصوص كرنا اور دن كو روزہ ركھنا، يا پھر اس دن اور رات ميں فرحت و سرور اور خوشى كا اظہار جائز نہيں، اور اسى طرح جشن معراج منانا بھى صحيح نہيں ہے، اور اس كے علاوہ دوسرے جشن منانا جس ميں حرام كام مثلا مرد و عورت كا اختلاط اور موسيقى اور گانا بجانا شامل ہوتا ہے يہ سب حرام ہے.
اس پر مستزاد يہ كہ اس تاريخ كو بالجزم نہ تو معراج ہوئى اور نہ ہى اسراء، اور اگر يہ ثابت بھى ہو جائے تو پھر يہ چيز اس جشن كو منانے كے ليے جواز فراہم نہيں كرتى، كيونكہ اس امت كے بہتر ترين لوگ صحابہ كرام سے يہ ثابت نہيں ہے، اور اگر يہ نيكى ہوتى تو صحابہ كرام ہم سے سبقت لے جاتے.
ـ پندرہ رجب كو نماز ام داود ادا كرنا.
ـ فوت شدگان كى روح كى جانب سے ماہ رجب ميں صدقہ وخيرات كرنا.
ـ ماہ رجب ميں كى جانے والى مخصوص دعائيں، يہ سب من گھڑت اور بدعت ہيں.
ـ خاص كر ماہ رجب ميں قبرستان جا كر قبروں كى زيارت كرنا بھى ايك بدعت ہے، كيونكہ سال كے كسى بھى دن قبرستان جايا جا سكتا ہے كوئى مخصوص نہيں كرنا چاہيے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اپنى حرمت كى تعظيم كرنے كى توفيق نصيب فرمائے، اور ظاہرى اور باطنى طور پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كى پيروى كرنے كى توفيق دے، يقينا اللہ سبحانہ و تعالى اس پر قادر ہے.
و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمين.