0 / 0
5,30421/04/2018

رمضان المبارک میں قیام اللیل کی فضیلت

رمضان المبارک میں قیام اللیل کی فضیلت

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

1 – ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں قیام کرنے کی رغبت دلایا کرتے اورانہيں پختہ عزم کے ساتھ قیام کا حکم دیا کرتے اورفرمایا کرتے تھے :

جس نے ایمان اوراجروثواب کی نیت سے رمضان المبارک میں قیام کیا اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں ۔

جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئي تو معاملہ اسی طرح چل رہا تھا ( یعنی بغیر جماعت تروایح ادا کی جاتی تھیں ) اورپھرابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کی خلافت اورعمرفاروق رضي اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے ابتدائي ایام میں بھی اسی طرح معاملہ چلتا رہا ۔

اورعمرو بن مرۃ جھنی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ قضاعہ قبیلہ کا ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگا : اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ! مجھے یہ بتائيں کہ :

اگر میں لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ لوں اوریہ گواہی دوں کہ اللہ تعالی کےعلاوہ کوئي معبود برحق نہيں اورآپ اللہ تعالی کے رسول ہیں ، اورپانج نمازوں کی ادائیگي کروں ، اوررمضان المبارک کے روزے رکھوں ، اور رمضان المبارک میں قیام اللیل کروں اورزکوۃ بھی ادا کروں تومجھے کیا ملے گا ؟

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جسے اس حالت میں موت آئے وہ صدیقوں اورشھداء میں سے ہے ۔

لیلۃ القدر اوراس کی تحدید :

2 –  رمضان المبارک کی راتوں میں سب سے بہتر اور افضل رات لیلۃ القدر ہے جس کےبارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( جس نے بھی ایمان اوراجروثواب کی نیت سے لیلۃ القدر کا قیام کیا ( پھواسے لیلۃ القدر مل گئي ) تو اس پچھلے سارے گناہ معاف کردیے جاتے ہيں ) ۔

3 –  لیلۃ القدر کے بارہ میں ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ ستائسویں رات ہے بعض احادیث میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے جس میں مندرجہ ذیل حدیث شامل ہے  :

زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب رضي اللہ تعالی عنہ سے سنا کہ یہ کہ رہے تھے –  انہيں یہ کہا گيا کہ : عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی یہ کہتےہيں کہ : جس نے سال بھر قیام اللیل کیا اسے لیلۃ القدر مل جاتی ہے ! توابی رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے : اللہ تعالی ان پر رحم فرمائے ، انہوں نے چاہا کہ لوگ اسی پربھروسہ نہ کرلیں ۔

اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئي معبود نہيں وہ رات رمضان میں ہے ، انہوں بغیر ان شاء اللہ کہے قسم کھائي اللہ کی قسم مجھے علم ہے کہ وہ کونسی رات ہے ؟ یہ وہی رات ہے جس میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قیام کرنے کا حکم دیا ، وہ ستائيسویں رات ہے ، اس کی نشانی یہ ہے کہ صبح سورج کے طوع ہونے میں تمازت نہيں ہوتی ۔

اسے مرفوع بھی بیان کیا گيا ہے ، مسلم وغیرہ نے بھی بیان کیا ہے ۔

قیام اللیل میں جماعت کی مشروعیت :

4 –  رمضال المبارک میں قیام اللیل میں جماعت مشروع ہے ،بلکہ اکیلے پڑھنے سے جماعت میں پڑھنا افضل ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کی جماعت کروائي ہے ، اوراس کے فضائل بھی بیان فرمائے ہيں ۔

ابوذر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ :

ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے تومہینہ کے تئيس دن تک ہمیں قیام نہ کروایا اس کے بعد چھبیسویں رات تک رات کے تیسرے پہر تک قیام کرواتے رہے اورچھبیسویں رات کوقیام نہيں کروایا ، اورپچیسویں رات کو تو نصف رات تک قیام کروایا تومیں کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم :

اگرآپ ہمیں اس رات اورزیادہ قیام کروائيں تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

جب کوئي شخص امام کے ساتھ اس کے جانے تک قیام کرتا رہے تواسے پوری رات کا ثواب ملتا ہے ۔

اورچوبیسویں رات قیام نہیں کروایا ، اورتیئسویں رات کواپنے سب گھروالے اوربیویوں اورلوگوں کو بھی جمع کیا اورہمیں اتنا قیام کروایا کہ ہمیں فلاح کے ختم ہونے کا خدشہ ہونے لگا راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ فلاح کیا ہے ؟ انہوں نے کہا سحری کوفلاح کہتے ہيں ۔

پھر اس کے بعد باقی مہینے میں قیام نہیں کروایا ۔

یہ حدیث صحیح ہے اوراصحاب سنن نے بھی روایت کیا ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل طور پر تراویح اورقیام اللیل میں جماعت نہ کروانے کا سبب :

5 –  تین راتوں کے علاوہ باقی پورا مہینہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تراویح کی جماعت اس لیے نہيں کروائي کہ کہیں رمضان میں قیام اللیل فرض ہی نہ ہوجائے اورلوگ اسے ادا کرنے سے عاجز آجائيں جیسا کہ صحیحین میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کی حدیث میں بیان ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے یہ خوف زائل ہوچکا ہے اور اللہ تعالی نے اپنی شریعت بھی مکمل کردی ہے لھذا وہ علت ختم ہوچکی ہے جس کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کی جماعت ترک کی تھی ۔

اس لیے مشروعیت جماعت کا حکم باقی ہے ، جیسا کہ بخاری میں ہے کہ عمررضي اللہ تعالی نے اس کا احیاء کیا تھا ۔

عورتوں کے لیے جماعت کی مشروعیت :

6 –  عورتوں کے لیے بھی نماز تراویح کی جماعت میں شامل ہونا مشروع ہے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ میں بیان کیا گیا ہے ۔

اورعورتوں کے لیے مردوں کے علاوہ خاص امام بنانا جائز ہے جیسا کہ عمررضی اللہ تعالی عنہ نے مردوں کےلیے ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ اور عورتوں کےلیے سلیمان بن ابی حثمہ رضي اللہ تعالی عنہ کو مقرر کیا تھا :

عرفجہ ثقفی بیان کرتے ہيں کہ :

علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ لوگوں کورمضان المبارک میں قیام اللیل کا حکم دیتے اورمردوں اورعورتوں کے لیے علیحدہ علیحدہ امام مقرر کرتے تھے ، راوی کہتے ہيں کہ میں عورتوں کی امامت کیا کرتا تھا ۔

ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ اس وقت ہوگا جب مسجد وسیع ہو تا کہ لوگوں کو اس میں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔

قیام اللیل یعنی تراویح کی رکعات کی تعداد :

7 –  تراویح گیارہ رکعات ہیں ، ہم بھی یہی اختیارکرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و پیروی میں گیارہ رکعات سے زيادہ ادا نہیں کرنی چاہیيں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے رخصت ہونے تک ان گيارہ رکعات سے زيادہ قیام اللیل نہیں فرمایا ۔

 

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے بارہ میں سوال کیا گيا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں کتنا قیام کیا کرتے تھے ؟ توعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کہنے لگيں :

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اوررمضان کے علاوہ گيارہ رکعات سے زیادہ ادا نہيں کیا کرتے تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسی چاررکعات پڑھتے تھے آپ ان کے حسن اورطول کےبارہ میں نہ پوچھیں اس کے بعد وہ پھر چار رکعات ادا کرتے تھے آپ ان کے طول اورحسن کے بارہ میں نہ پوچھیں ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات ادا کیا کرتے تھے ۔

امام بخاری اورمسلم وغیرہ نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔

8 –  اس سے کم رکعات بھی پڑھنا جائز ہیں چاہے وہ صرف ایک رکعات وتر پر ہی اکتفا کرے توایسا کرنا بھی جائز ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا فعلا اورقولا دونوں ہی ثابت ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کی دلیل یہ ہے کہ :

عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے پوچھا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کتنی رکعات وترپڑھا کرتے تھے ؟ توعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کہنے لگيں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات کے ساتھ تین رکعتیں پڑھ کر وتر ادا کیا کرتے تھے ، اورکبھی چھ اورتین ، اورکبھی دس اورتین کے ساتھ وتر ادا کرتے تھے ، لیکن سات رکعات سے کم اورتیرہ رکعات سے زیادہ رکعات کبھی بھی ادا نہیں کیں ۔

اسےسنن ابوداود ، اورمسند احمد وغیرہ نے راویت کیا ہے ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ : وتر حق ہے لھذا جوچاہے وہ پانچ وترادا کرے ، اور جوچاہے وہ تین وتر ادا کرے ، اورجوچاہے وہ ایک وتر ادا کرے ۔

قیام اللیل میں قرآت کرنا :

9 –  رمضان المبارک وغیرہ میں قیام اللیل میں قرآت کرنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئي تحدید ثابت نہيں کہ اس حد سے کم یا زيادہ پڑھا جائے ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآت توطوالت اورکم ہونے کے اعتبارسے مختلف ہوتی کبھی آپ ہررکعت میں سورۃ المزمل جتنا پڑھا کرتے جوتقریبا بیس آيات بنتیں ہیں ۔

اورکبھی پچاس آيات جتنا پڑھا کرتے تھے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے : جوبھی رات کی نماز میں سوآیات پڑھے وہ غافلوں میں شامل نہيں ہوگا  ۔

اورایک دوسری حدیث میں ہے کہ : دوسوآیات پڑھنا والا مخلص اورقانتین لوگوں میں شمار ہوگا ۔

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی رات میں سبع الطوال یعنی سات لمبی سورتیں پڑھیں حالانکہ آپ مريض بھی تھے وہ سورتیں مندرجہ ذيل ہيں  :

سورۃ البقرۃ ، آل عمران ، النساء ، المائدۃ ، الانعام ، الاعراف ، التوبۃ ، انہيں سبع الطوال کہا جاتا ہے ۔

اورحذیفہ بن یمان رضي اللہ تعالی عنہ کے قصہ میں ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پيچھے نماز ادا کی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی رکعت میں سورۃ البقرۃ پھر النساء ، اورپھر آل عمران پڑھی ، اورپھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم آرام اورسکون اورٹھر ٹھر کرپڑھا کرتے تھے ۔

صحیح بلکہ اصح اسناد کے ساتھ ثابت ہے کہ جب عمررضي اللہ تعالی عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کو رمضان المبارک میں لوگوں کوقیام اللیل میں گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سوسو آیا پڑھا کرتے تھے حتی کہ مقتدی حضرات قیام لمبا ہونے کی وجہ سے لاٹھیوں پر سہارا لیتے ، اورفجر کے قریب ہی  وہاں سے جاتے تھے ۔

اورعمررضي اللہ تعالی عنہ سے یہ بھی صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے رمضان المبارک میں قراء کرام کو بلایا اوران میں سب سے تیز قرآت کرنے والے کو تیس آيات اوردرمیانے کو پچیس ، اور سست کو بیس آیات پڑھنے کا حکم دیا ۔

لھذا اس بنا پر ہم یہ کہيں گے کہ جب کوئي شخص اکیلا قیام اللیل کرنا چاہے تو اسے اجازت ہے جتنا مرضی رکعت لمبی کرلے ، اور اگر اس کے ساتھ لمبا قیام کرنے والے ہوں تو پھر بھی لمبا قیام کرسکتا ہے ، قیام اللیل جتنا بھی لمبا کیا جائے اتنا ہی افضل ہے ، لیکن اسے اس میں مبالغہ نہيں کرنا چاہیے کہ وہ ساری رات ہی قیام کرتا ہے ، لیکن بعض اوقات اورنادر طور پر کرسکتا ہے ۔

تا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اورپیروی ہوسکے جنہوں نے یہ فرمایا کہ :

( اورسب سے بہتر اوراچھا راہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے  )

لیکن اگر قیام اللیل کی جماعت کروائي جائے تو پھر اسے اتنا لمبا قیام نہیں کرنا چاہیے کہ مقتدیوں کومشقت ہونے لگے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( جب تم میں سے کوئی ایک لوگوں کو قیام کروائے اسے قیام میں تخفیف کرنی چاہیے کیونکہ مقدیوں میں چھوٹےبچے ، اور بوڑھے ، مریض ، اورصرورت مند بھی ہوتے ہیں اورجب وہ اکیلا قیام کررہا توجتنا مرضي لمبی کرلے  ) ۔

قیام کا وقت :

 

( بلاشبہ اللہ تعالی نے تمہارے لیے نمازوتر کا اضافہ کیا ہے لھذا وتر نماز عشاء نماز فجر کے مابین پڑھا کرو ) ۔

11 –  قیام اللیل اگررات کے آخری حصہ میں ادا کرنا آسان ہوتو یہ زيادہ افضل اوربہترہے  ، کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

( جسے خدشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں بیدار نہيں ہوسکےگا اسے رات کے پہلے حصہ میں ہی وتر ادا کرلینے چاہیيں ، اورجسے یہ طمع ہوکہ وہ رات کےآخری حصہ میں بیدار ہوسکے گا تواسے رات کے آخری حصہ میں ہی وتر پڑھنے چاہیيں ، کیونکہ رات کے آخری حصہ میں ادا کی گئي نماز میں حاضری ہوتی ہے اوریہ افضل بھی ہے  ) یعنی فرشتے حاضر ہوتے ہیں  ۔

12 –  جب رات کے پہلے حصہ میں نماز‍ باجماعت ادا کرنا اوررات کے آخری حصہ میں اکیلے نماز ادا کرنے جیسا معاملہ ہو توباجماعت نماز کی ادائيگی اکیلے پڑھنے سے افضل اور بہتر ہے ، کیونکہ اس کی وجہ سے اس کےلیے مکمل رات کے قیام کا اجروثواب لکھا جائے گا۔

عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں بھی صحابہ کرام اسی پر عمل کرتے رہے ، اسی سلسلے میں عبدالرحمن بن عبیدالقاری کہتےہیں :

ماہ رمضان کی ایک رات عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کے ساتھ میں مسجد کی طرف گیا تولوگ مختلف جگہوں پر جدا جدا نماز پڑھ رہے کہیں کوئي اکیلا شخص ہی اورکہيں کچھ لوگوں کا مجموعہ نماز پڑھ رہا تھا ، توعمر رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے :

اللہ کی قسم میرے خیال میں اگرانہيں ایک ہی قاری اورامام پر جمع کردیا جائے تو یہ زیادہ بہتر اوراچھا ہوگا ، پھر عمررضي اللہ تعالی عنہ نے پرعزم ہوکر انہیں ابی بن کعب رضي اللہ تعالی عنہ پر جمع کردیا ۔

راوی کہتے ہیں کہ میں ایک رات پھر عمررضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مسجد کی طرف نکلا تو لوگ اپنے امام و قاری کے پیچھے نماز ادا کررہے تھے ، توانہيں دیکھ کر عمررضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے :

یہ نیا کام اچھا ہے ، اوروہ لوگ جو اس سے سوئے ہوئے ہيں وہ قیام کرنے والوں سے افضل ہیں ( رات کے آخر میں قیام کرنے والےافضل ہيں ) لوگ امام کے ساتھ رات کے شروع میں قیام کرتے تھے ۔

زيدبن وھب رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

عبداللہ ہمیں ماہ رمضان میں نماز پڑھا کررات کو واپس چلے جاتے تھے ۔

 

پہلی : دو رکعات میں سلام پھیرنے کے بعد ایک وتر پڑھا جائے ، یہ زيادہ قوی اورافضل ہے ۔

دوسری : دوسری رکعت میں تشھد نہ بیٹھے یعنی تین رکعات میں آخری رکعت میں ہی تشھد بیٹھے ۔ واللہ تعالی اعلم ۔

تین وتروں میں قرآت کرنا :

14 –  تین وتر پڑھنے میں سنت میں یہ ہے کہ اس کی پہلی رکعت میں ( سبح اسم ربك الأعلى  ) اوردوسری رکعت میں ( قل يا أيها الكافرون ) اورتیسری رکعت میں ( قل هو الله أحد ) اوربعض اوقات اس میں سورۃ الفلق اور الناس کا بھی اضافہ کیا جائے ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ صحیح طورپر ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ وتر کی ایک رکعت میں سورۃ النساء کی سو آیت پڑھیں تھیں ۔

دعاء القنوت :

15 –  وتروں میں اسے دعائے قنوت پڑھنی چاہیے ، یہ دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسے حسن بن علی رضي اللہ تعالی عنہ کو سکھائي تھی جسے ہم ذيل میں نقل کرتے ہيں :

(اللهم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت ، وبارك لي فيما أعطيت ، وقني شر ما قضيت ، فإنك تقضي ولا يقضى عليك ، وإنه لا يذل من واليت ، ولا يعز من عاديت ، تباركت ربنا وتعاليت ، لا منجا منك إلا إليك )

اے اللہ جن لوگوں کو تو نے ھدایت دی ہے ان میں مجھے بھی ھدایت نصیب فرما ، اورجن لوگوں کو تو نے عافیت دی ہے ان میں مجھے بھی عافیت سے نواز ، اورجن کا تو خود والی بنا ہے میں میرا بھی والی بن ، اورتونے جوکچھ عطا فرمایا ہے اس میں میرے لیے برکت فرما ، اورجوفیصلے تو نے کیۓ ہیں ان کے شر سے مجھے محفوظ رکھ کیونکہ توہی فیصلے کرتا ہے ، اورتیرے خلاف کوئي فیصلے نہیں ہوسکتے ، جس کا تو دوست بن جائے وہ کبھی ذلیل نہیں ہوتا ، اورجسے تو دشمنی کرے وہ کبھی بھی عزت نہیں پاسکتا ، اے ہمارے پروردگار تو عزت والا اوربابرکت اوربلند ہے ، صرف تیری ہی پناہ ہے ۔

اس کے بعد بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم وسلم پردرود پڑھے اورکوئي صحیح مشروع دعا بھی اس کے ساتھ بڑھانے میں کوئي حرج نہيں ۔

16 –  دعائے قنوت رکوع سے قبل یا پہلے دونوں حالتوں میں ہی صحیح ہے ، اوراس میں کافروں اوردین کے دشمنوں کےخلاف بددعا اوران پر لعنت کرنے میں بھی کوئي حرج نہیں ، اور آخرميں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اورمسلمانوں کے حق میں دعا بھی کرنا صحیح ہے ، اورخاص کرنصف رمضان کے بعد ایسا کرنا چاہیے کیونکہ اس کا ثبوت عمررضي اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں آئمہ کرام کی دعا سے ملتا ہے ۔

عبدالرحمن بن عبیدالقاری جن کا ذکر اوپر بھی کیا جا چکا ہے بیان کرتے ہيں کہ :

اوروہ نصف میں پہنچ کر کفار پر لعنت اوربددعا کیا کرتے اورکہتے تھے :

( اللهم قاتل الكفرة الذين يصدون عن سبيلك ، ويكذبون رسلك ، ولا يؤمنون بوعدك ، وخالف بين كلمتهم ، وألق في قلوبهم الرعب ، وألق عليهم رجزك وعذابك ، إله الحق )

اے اللہ کفارکو تباہ برباد کرکے جولوگوں کو تیرے راستے سے روکتے اورتیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں ، اورتیرے وعدے پر انہيں یقین نہیں ، اے اللہ ان کے مابین اختلاف پیدا کردے ، اوران کے دلوں میں رعب ڈال دے ، اوراے الہ الحق ان پر اپنا عذاب اورقہر نازل فرما ۔

پھرآخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پردرود پڑھے اورمسلمانوں کے حق میں حسب استطاعت خیروبھلائی کی دعا کرے اورمومنوں کے لیے دعائے استغفار کرے ۔

راوی کہتے ہيں کہ :

امام جب کفار پرلعنت وان کے لیے بددعا کرنے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اورمسلمانوں و مومن مردوعورت کے لیے دعائے استغفار اورسوال کرچکتے تو یہ کہتے تھے :

(( اللهم إياك نعبد ، ولك نصلي ونسجد ، وإليك نسعى ونحفد ، ونرجو رحمتك ربنا ، ونخاف عذابك الجد ، إن عذابك لمن عاديت ملحق )

 

پھرامام تکبیر کہہ کر سجدہ میں چلا جاتا ۔

وتر کے آخر میں کیا کہنا چاہیے :

–                                    وترکے آخرمیں سلام سے قبل یا بعد میں مندرجہ ذيل کلمات کہنے سنت ہيں :

( اللهم إني أعوذ برضاك من سخطك ، وبمعافاتك من عقوبتك ، وأعوذ بك منك ، لا أحصي ثناء عليك ، أنت كما اثنيت على نفسك ) ۔;

 

18 –  جب وتروں سے سلام پیھر چکے تولمبے لمبے تین بار مندرجہ ذيل کلمات کہے اورتیسری بار اونچی آواز میں کہنا چاہیے :

(: سبحان الملك القدوس ، سبحان الملك القدوس ، سبحان الملك القدوس )

پاک ہے بادشاہ بہت پاکیزگي والا ، پاک ہے بادشاہ بہت پاکیزگي والا ، پاک ہے بادشاہ بہت پاکیزگی والا ۔

وتروں کے بعد دو رکعات :

19 –  وتروں کے بعددورکعات پڑھنا جائز ہيں اگرچاہے تو پڑھ سکتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فعلا ثابت ہے ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا کہ :

یقینا یہ سفر میں جھد ومشقت ہوتا ہے لھذا جوکوئي بھی وترادا کرے اور اگر وہ بیدارہوجائے تو دورکعتیں ادا کرے لیکن اگر وہ بیدار نہيں ہوتا تواس کی ہوجائیں گی ۔

20 –  ان دونوں رکعتوں میں سورۃ الزلزال ، اورکافروں پڑھنا سنت ہے ۔

مندرجہ بالااقتباس علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتاب : قیام رمضان سے لیا گيا

امام کے منصرف ہونے تک قیام کرنے میں پیروی کرنا

جب راجح اورسنت یہ ہے کہ تروایح کی گیارہ رکعات ہیں ، لیکن اگر میں کسی ایسی مسجد میں تروایح ادا کروں  جہاں پر اکیس رکعات تراویح ادا کی جاتی ہوں ، توکیا میں دس رکعت کے بعد وہاں سے جاسکتا ہوں ،یا یہ بہتر ہے کہ ان کے ساتھ اکیس رکعات ادا کروں ؟

افضل تویہ ہے کہ آپ امام کے ساتھ ہی تراویح مکمل کریں اگرچہ وہ اکیس رکعت سے بھی زيادہ ادا کرتا ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی قول کے مطابق یہ جائزہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( جس نے بھی امام کے ساتھ اس کے جانے تک قیام کیا تواللہ تعالی اسے پوری رات کےقیام کا اجروثواب عطا فرماتا ہے  )  اسے نسائي نے باب قیام شھررمضان وغیرہ نے روایت کیا ہے ۔

اور ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے :

( رات کی نماز دو دو رکعت ہے ، جب آپ کو طلوع فجر کا خدشہ ہو تو ایک رکعت کےساتھ وتر پڑھیں ) اسے ساتوں نے روایت کیا ہے لیکن مندرجہ بالا الفاظ نسائي کے ہيں ۔;

اس میں تو کوئي شک وشبہ نہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا اوراتنی رکعات ہی ادا کرنے میں مقید رہنا اولی اور افضل ہے کیونکہ اس میں نمازکی طوالت اورحسن ہوتا ہے ۔

 

رات کے آخر میں وترمکمل کرنے کے لیے اگر امام کے ساتھ وتر پڑھتےہوئے ایک رکعت زيادہ پڑھی جائے ؟

جواب :

الحمد للہ :

ہمیں تو اس میں کوئي حرج معلوم نہیں ہوتا ، علماء کرام نے بھی اس کی صراحت کی ہے تا کہ رات کے آخر میں وتر پڑھے جاسکيں ، اوراس لیے بھی کہ اس پر یہ صادق ہوسکے کہ اس نے امام کی اتباع کی ہے اوراس کے ساتھ ہی گیا ہے تا کہ پوری رات کے قیام کا اجرو ثواب حاصل ہو ۔

اوراس لیے کہ اس نے ایک رکعت شرعی مصلحت کےلیے زيادہ کی ہے تا کہ رات کے آخر میں وتر ادا کرسکے ، لھذا اس میں کوئي حرج نہيں ، اوراس سے وہ امام کی اتباع سےخارج نہيں ہوجاتا بلکہ اس نے امام کے جانے تک ہی قیام کیا ہے بلکہ اس سے بھی کچھ دیر زیادہ ہی ۔

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android