جب كوئى شخص كسى كام كے پورا كرنے كى قسم اٹھائے اور ايسى حالت ميں ہو كہ اپنے آپ پر كنٹرول نہ ركھتا ہو تو كيا اس پر كفارہ لازم ہے يا نہيں ؟
آدمى كا بے شعورى كى حالت ميں قسم اٹھانا
سوال: 10027
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جب كوئى انسان كسى چيز كے كرنے كى قسم اٹھائے اور اسے نہ كرے تو اس پر قسم كا كفارہ لازم آتا ہے، مثلا اس نے كہا كہ: ( اللہ كى قسم ميں فلان شخص سے كلام نہيں كرونگا ) يا ( اللہ كى قسم ميں اسے ضرور ملوں گا ) يا ( اللہ كى قسم ميں اتنى ركعات ادا كرونگا ) اور اس طرح كى دوسرى قسم، تو جس كى اس نے قسم اٹھائى اس پر عمل نہ كيا اگر وہ عقل و شعور كا مالك تھا اور جو كچھ اس نے كہا اس كا علم ركھتا تھا تو اس كے ذمہ قسم كا كفارہ ہے ليكن اگر وہ اتنے غصہ اور غضب ميں ہو كہ اسے كچھ علم نہ رہے وہ كہہ كيا رہا ہے اور كچھ شعور نہ ہو تو اس حالت ميں قسم واقع نہيں ہو گى.
كيونكہ جو كچھ وہ كہہ رہا ہے اسے سمجھنا اور علم ميں ركھنا ضرورى ہے لہذا اگر اسے اتنا غصہ آگيا ہو كہ وہ بے عقل ہو جائے اور اسے سمجھ ہى نہ رہے كہ وہ كيا كہہ رہا ہے اور ياد نہ ركھ سكے تو اس جيسى حالت ميں اس پر كوئى كفارہ نہيں، يہ مجنون اور بے عقل اور سوئے ہوئے شخص كى طرح ہے.
اور اسے يہ بھى حق حاصل ہے كہ اگر وہ اس ميں مصلحت ديكھے تو جس چيز پر اس نے قسم اٹھائى وہ چھوڑ سكتا ہے، اور اپنى قسم كا كفارہ ادا كردے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جب آپ كوئى قسم اٹھائيں اور اس كے بعد اس كے علاوہ كوئى اور كام بہتر محسوس كريں تو اپنى قسم كا كفارہ ادا كر كے بہتر كام كر ليں ”
متفق عليہ.
لہذا اگر آپ نے قسم اٹھائى كہ فلاں شخص كو نہيں ملو گے اور پھر اسے ملنے ميں زيادہ مصلحت اور بہترى ديكھو تو اسے ملو، اور اپنى قسم كا كفارہ ادا كردو، اور اسى طرح كے دوسرے معاملوں ميں.
اور كفارہ كى تقديم اور تاخير ميں كوئى حرج نہيں ہے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
ماخذ:
مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ فضيلۃ الشيخ علامہ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ ( 8 / 392 )