0 / 0

یمین غموس [جھوٹی قسم] کا کفارہ صرف سچی توبہ ہے۔

سوال: 100449

میں نے سنا ہے کہ یمین غموس اٹھانے والے شخص کو یہ قسم جہنم میں جھونک دیتی ہے، اور اس کا کوئی کفارہ بھی نہیں ہوتا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس گناہ سے بندہ توبہ بھی نہیں کر سکتا؟ اور کیا اگر توبہ سچی اور صحیح ہو تو اللہ تعالی تمام گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:
یمین غموس جھوٹی قسم کو کہتے ہیں، مثال کے طور پر کسی کا مال ہڑپ کرنے کے لیے اٹھائی جانے والی قسم، اسے غموس یعنی ڈبونے والی قسم اس لیے کہتے ہیں کہ یہ انسان کو جہنم میں ڈبو دیتی ہے۔ ابن اثیر رحمہ اللہ نے "النهاية" (3/724) میں ایسا ہی ذکر کیا ہے۔

دوم:
جیسے کہ "الموسوعة الفقهية" (35/41) میں ہے کہ:
"فقہائے کرام کی یمین غموس کے کفارے کے بارے میں دو آرا ہیں:
پہلا موقف: یمین غموس میں کفارہ واجب نہیں ہوتا، یہ حنفی، مالکی، اور حنبلی جمہور فقہائے کرام کا موقف ہے۔

دوسرا موقف: یمین غموس میں بھی کفارہ واجب ہوتا ہے، یہ شافعی فقہائے کرام کا موقف ہے۔
دونوں موقف رکھنے والے اہل علم نے اپنے اپنے دلائل کی روشنی میں یہ موقف اپنایا ہے۔" ختم شد
مزید کے لیے دیکھیں: "بدائع الصنائع" (3/3) ، "التاج والإكليل" (3/266) ، "كشاف القناع" (6/235)

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (23/133)میں ہے:
"یمین غموس کبیرہ گناہ ہے، چونکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے اسے مٹانے کے لیے کفارہ ناکافی ہے، چنانچہ اہل علم کے دو موقفوں میں سے صحیح ترین موقف کے مطابق اس میں کفارہ واجب ہی نہیں ہوتا، یمین غموس کے لیے توبہ اور استغفار ہے۔" ختم شد

یمین غموس میں کفارہ واجب ہو یا نہ ہو کوئی بھی موقف اپنایا جائے اس کا گناہ کفارے سے نہیں دھلے گا بلکہ اس کے لیے توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے۔

اسی لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" (34/139) میں یمین غموس کے حوالے سے اختلافی گفتگو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:
"تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ یمین غموس کا گناہ محض کفارہ دینے سے نہیں دھلے گا۔" ختم شد

سوم:
یمین غموس یعنی جھوٹی قسم بھی دیگر گناہوں کی طرح سچی توبہ سے معاف ہو سکتی ہے، اور ایسا کوئی گناہ نہیں ہے جو توبہ کرنے سے معاف نہ ہو؛ اس لیے کہ اللہ تعالی نے کسی بھی قسم کا گناہ گار ہو اس کے سامنے توبہ کا دروازہ کھولا ہوا ہے، اور اللہ تعالی ہر توبہ کرنے والے کی توبہ قبول فرماتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعاً إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
 ترجمہ: کہہ دو: اپنی جانوں پر حد سے تجاوز کرنے والے میرے بندو! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو نا؛ یقیناً اللہ تعالی تمام گناہ معاف کرنے والا ہے، یقیناً وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔[الزمر: 53]

امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ آیت کریمہ مسلم اور کافر تمام گناہ گاروں کے لیے کھلی دعوتِ توبہ اور انابت ہے، آیت یہ بھی بتلاتی ہے کہ توبہ کرنے والے اور گناہوں سے باز رہنے والے کے اللہ تعالی سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے چاہے کسی بھی قسم کے گناہ ہوں اور چاہے سمندر کی جھاگ سے بھی زیادہ ہوں ۔۔۔ اس حوالے سے آیات بہت زیادہ ہیں۔" ختم شد

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (46683 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android