ان آخرى ايام ميں ايك دھوكہ يا جسے اليكٹرانك دل لگى كا نام ديا گيا ظاہر ہوا ہے، اس ميں نيٹ پر كسى اجنبى ويب سائٹ كا لنك ديا گيا ہوتا ہے، جو كسى شخص كو اس كے دوست و احباب كى طرف سے ارسال كيا جاتا ہے، ـ عام طور پر ـ اس شخص سے اس ميں مطالبہ يہ ہوتا ہے كہ وہ اپنا اور اپنے تين محبوب ترين نام لكھے، تا كہ وہ آپ ا سكا نتيجہ بتائيں كہ وہ تين اشخاص آپ سے كتنى محبت كرتے ہيں، يا اس كے برعكس آپ ان سے كتنى محبت كرتے ہيں، يہ بطور تفريح كے نہ كہ كسى اور وجہ سے.
ليكن مشكل يہ درپيش ہے كہ جب آپ اپنا اور اس كے علاوہ كوئى اور تين نام لكھ ديں، تو آپ كے سامنے ايك اور پيج كھل جائيگا جس ميں آپ كو بتايا جائيگا كہ آپ سے دھوكہ ہوا ہے، اور جس شخص نے آپ كو اى ميل بھيجى تھى ( ا سكا اى ميل ايڈريس بھى ظاہر ہو گا ) اس كو وہ نام ارسال كر ديے گئے ہيں!! تو كيا يہ دھوكہ اور مذاق جائز ہے ؟
اور اگر آپ انہيں كہيں كہ يہ جائز نہيں، اور اس ميں مسلمانوں كو دھوكہ ہے، اور ہو سكتا ہے اس ميں خصوصيات ہوں مثلا: آپ اپنى بيوى، يا جس شخص كو پسند كرتے ہيں ا سكا نام لكھيں تو آپ كو كہا جائيگا: ميں نے اسے اس ميں شريك ہونے پر مجبور تو نہيں كيا! جو مجھے ابليس كا يہ قول ياد دلا رہا ہے ـ اس سے اللہ كى پناہ ـ
اور مجھے تو ان پر كوئى زور اور طاقت نہ تھى، صرف يہ تھا كہ ميں نے تمہيں دعوت دى تو تم نے ميرى بات مان لى، تم مجھے ملامت مت كرو، بلكہ اپنے آپ كو ہى ملامت كرو . ؟
علم غيب كے دعوى اور جھوٹ و دھوكہ پر مبنى اليكٹرانك دل كا حكم
سوال: 100900
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
يہ دل لگى بہت گرى ہوئى ہے، اور اس ميں جھوٹ سے بھى بڑى شريعت كى مخالفت پائى جاتى ہے، وہ كہانت ہے، يعنى نجومى پن اور علم غيب كا دعوى، جس كا سائل نے سوال ميں نوٹس نہيں ليا، اور اسى ليے اس نے سوال ميں اس چيز كو ذكر بھى نہيں كيا.
اور يہ گرى ہوئى دل لگى كرنے والا شخص اس مخالفت ميں پڑ چكا ہے، اور اسى طرح اس ميں اپنا اور اپنے دوست و احباب ميں سے تين نام لكھنے والا بھى اس ميں شريك ہوا ہے، جو يہ معلوم كرنا چاہتا ہے كہ وہ اس سے كتنى محبت كرتے ہيں، يا پھر اسے ان سے كتنى محبت ہے، اور يہ غيبى امور ميں شامل ہوتا ہے، جسے اللہ كےعلاوہ كوئى اور نہيں جانتا.
اس ليے اس ويب سائٹ والوں كا يہ دعوى كرنا كہ وہ اس كو جانتے ہيں: فى نفسہ جھوٹ ہے، اور اس ميں شريك ہونے والے مرد يا عورت كى جانب سے اس كى تصديق كرنا يہ بھى اس گناہ اور جرم ميں شامل ہوتى جو نجومى اور كاہن كے پاس جا كر اس سے كچھ دريافت كرنا اوراس كى تصديق كا گناہ ہے، جو كہ كفر كے درجہ تك پہنچ جاتا ہے.
اس ليے نجومى اور كاہن كذاب اور فاجر ہيں، اس كے باوجود مسلمانوں كو ان كے پاس جانے اور چاہے صرف سوال ہى كيا جائے اس سے منع كيا گيا ہے، اور اس كے نتيجہ ميں بہت سخت وعيد سنائى گئى ہے، اور جب وہ ان كے پاس جائے اور ا نكى تصديق بھى كرے تو پھر وعيد اور بھى شديد ہے.
پہلى وعيد تو يہ ہے كہ:
اس كى چاليس روز تك نماز ہى قبول نہيں ہوتى.
صفيہ بنت ابو عبيد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ايك زوجہ محترمہ سے بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جو شخص كاہن كے پاس گيا اور اس سے كچھ دريافت كيا تو اس كى چاليس راتوں كى نماز قبول نہيں ہوتى ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2230 ).
اور دوسرى وعيد كفر كى ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جو شخص نجومى يا كاہن كے پاس گيا، اور اس كے قول كى تصديق كى تو اس نے محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر نازل كردہ كے ساتھ كفر كيا ”
سنن ترمذى حديث نمبر ( 135 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3904 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 639 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
شيخ محمد بن صالح عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اور جو كوئى بھى علم غيب كا دعوى كرے تو وہ كافر ہے، اور جس نے بھى علم غيب كا دعوى كرنے والے كى تصديق كى تو وہ بھى كافر ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
كہہ ديجئے كہ آسمانوں والوں ميں سے، اور زمين والوں ميں سے سوائے اللہ تعالى كے كوئى بھى غيب كا علم نہيں ركھتا، انہيں تو يہ بھى معلوم نہيں كہ كب اٹھا كر كھڑے كيے جائينگے النمل ( 65 ).
اس ليے آسمان و زمين كے غيب كو اللہ تعالى كے علاوہ كوئى اور نہيں جانتا، اور وہ لوگ جو علم غيب اور مستقبل كے علم كا دعوى كرتے ہيں يہ سب كہانت ميں شامل ہوتا ہے، اور اس كےمتعلق حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جو شخص بھى كسى كاہن كے پاس گيا اور اس سے كچھ دريافت كيا تواس كى چاليس يوم كى نمازيں قبول نہيں ہونگى ”
اور اگر وہ اس كى تصديق بھى كرے تو وہ كافر ہو جاتا ہے؛ كيونكہ جب وہ علم غيب كى تصديق كرتا ہے تو اس نے درج ذيل فرمان بارى تعالى كى تكذيب كى:
كہہ ديجئے كہ آسمانوں والوں ميں سے اورزمين والوں ميں سے سوائے اللہ تعالى كے كوئى اور غيب نہيں جانتا النمل ( 65 ).
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 1 / 292 ).
دوم:
اور اگر اس غلط قسم كى دل لگى اور مذاق كا تعلق علم غيب كے دعوى سے نہ بھى ہو تو پھر بھى يہ حرام ہے، كيونكہ اس ميں جھوٹ و كذب بيانى پائى جاتى ہے، اور ہمارى شريعتا سلاميہ ہميں ہر معاملہ ميں صدق و سچائى اختياركرنے پر ابھارتى ہے:
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو اللہ كا تقوى اختيار كرو، اور سچے لوگوں كے ساتھ رہو التوبہ ( 119 ).
اور حديث ميں ہے عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” يقينا صدق و سچائى نيكى كى طرف راہنمائى كرتى ہے، اور نيكى جنت كى طرف لے جاتى ہے، اور بلا شبہ جب انسان سچ بولتا رہتا ہے حتى كہ وہ صديق بن جاتا ہے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5743 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2607 ).
دين اسلام ميں ہنسى مزاح مباح ہے، ليكن اس ميں جھوٹ اور كذب بيانى سے كام لينا حرام ہے، اور پھر ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم بھى ہنسى و مزاح كيا كرتے تھے، ليكن وہ اس ميں بھى سوائے حق بات كے كچھ نہ فرماتے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ صحابہ كرام نے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ ہمارے ساتھ خوش طبعى كرتے ہيں:
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” ميں سوائے حق كے كچھ نہيں كہتا “
جامع ترمذى حديث نمبر ( 990 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور اسى ليے ہنسى و مزاح ميں كذب بيانى حرام ہے، حديث ميں ہے:
ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” ميں اس شخص كے ليے جنت كے كنارے ميں گھر كا ضامن ہوں جو جھگڑا چھوڑ دے، چاہے وہ حق پر ہى كيوں نہ ہو، اور جنت كے وسط ميں اس شخص كے ليے گھر كا ضامن ہوں جو كذب بيانى چھوڑ دے، چاہے بطور مزاح ہى كيوں نہ ہو، اور جنت كے اعلى مقام پر اس شخص كے ليےگھر كا ضامن ہوں اس شخص كے ليے جو حسن اخلاق اختيار كرے ”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4800 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور پھر لوگوں كو ہنسانے اور خوش كرنے كے ليے بھى جھوٹ بولنا اور كذب بيانى كرنا حرام ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” اس شخص كے ليے ہلاكت ہے جو لوگوں كو ہنسانے كے ليے بات كرتا ہوا جھوٹ بولے، اور اس شخص كے ليے ہلاكت ہے، اس شخص كے ليے ہلاكت ہے ”
جامع ترمذى حديث نمبر ( 2315 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4990 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ اس حديث كو بيان كرنے كے بعد كہتے ہيں:
اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے كہا:
” نہ تو حقيقى بات ميں جھوٹ و كذب بيانى صحيح ہے، اور نہ ہى ہنسى و مذاق ميں ..
اور اگر اس چيز ميں مسلمانوں سے دشمنى، اور دين كو نقصان و ضرر ہو تو پھر اس كى حرمت تو اور بھى شديد ہو جائيگى، بہر حال ايسا كرنے والا ـ يعنى جھوٹ اور كذب بيانى كے ساتھ لوگوں كو ہنسانے والا ـ شرعى سزا كا مستحق ہے جو اسے ايسا كرنے سے روك دے ”
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن تيميہ ( 32 / 256 ).
اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ہمارے دين اسلام ميں چٹكلے اور لطيفے بيان كرنے كا حكم كيا ہے، اور آيا يہ لہو الحديث ميں شامل ہوتا ہے، يہ علم ميں رہے كہ اس ميں دين كو استہزا اور مذاق نہيں، ہميں اس كے متعلق فتوى ديں، اللہ تعالى آپ كو اجر و ثواب سے نوازے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
ہنسى مذاق اور كلام ميں خوش طبعى كرنا اگر تو حق اور سچ كے ساتھ ہو تو اسميں كوئى حرج نہيں، اور خاص كر ايسا كثرت سے نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہنسى و مزاح كرتے وقت بھى حق و سچ كے علاوہ كچھ نہيں كہتے تھے.
ليكن اگر جھوٹ پر مشتمل ہو تو يہ جائز نہيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” اس شخص كے ليے ہلاكت ہے جو جھوٹ بول كر لوگوں كو ہنساتا ہے، اس كے ليے ہلاكت ہے، اس كے ليے ہلاكت ہے ”
اسے ابو داود، ترمذى اور نسائى نے جيد سند كے ساتھ روايت كيا ہے. انتہى.
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 6 / 391 ).
اور اگر وہ ہنسى و مزاح مسلمان شخص كے ليے خوف و گھبراہٹ كا باعث بنے تو يہ حرام ہے.
سائب يزيد بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تم ميں سے كوئى بھى بطور مزاح يا حقيقتا اپنے بھائى كى لاٹھى نہ لے، اور جس نے بھى اپنے بھائى كى لاٹھى لى تو اسے واپس كر دے ”
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2086 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 5003 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ترمذى ميں حسن قرار ديا ہے.
اور عبد الرحمن بن ابى ليلى بيان كرتے ہيں كہ ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ نے حديث بيان كي كہ:
” وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ كسى سفر ميں تھے تو ان ميں سے ايك شخص سو گيا، اور كوئى ايك شخص ا سكا نيزہ اٹھا كر لےگيا، اور جب وہ صحابى بيدار ہوا تو ڈر گيا، تو لوگ ہنسنے لگے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دريافت كيا:
تمہيں كيا چيز ہنسا رہى ہے ؟
توانہوں نے جواب ديا: كچھ بھى نہيں، صرف يہ ہے كہ ہم نے اس شخص كا نيزہ اٹھا ليا تو يہ ڈر گيا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
” كسى بھى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ كسى مسلمان شخص كو ڈرائے اور گھبراہٹ ميں ڈالے ”
مسند احمد حديث نمبر ( 23064 ) يہ الفاظ مسند احمد كے ہيں، سنن ابو داود حديث نمبر ( 4351 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
آپ سوال نمبر (22170 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں، اس ميں شرعى مزاح كى شروط تفصيل كے ساتھ بيان كى گئى ہيں.
ميرے بھائى اس سے آپ كو يہ معلوم ہوا كہ ان لوگوں نے درج ذيل ممنوع كام كيا ہے:
1 – اى ميل بھيجنے والے كى جانب سے علم غيب كا دعوى كرنا.
2 – جھوٹ و كذب بيانى.
3 – جسے اى ميل كى گئى ہے اسے ڈرايا گيا ہے.
4 – اى ميل وصول كرنے والے كا علم غيب كا دعوى كرنے والے كى تصديق كرنا.
5 – اپنا اور دوست و احباب وغيرہ كے نام بھيج كر اس ميں شريك ہونا.
چنانچہ ان سب افراد پر واجب اور ضرورى ہے كہ وہ سچى اور پكى توبہ كريں، اور اس طرح كے گرے ہوئے افعال سے رك جائيں، اور انہيں اپنے آپ پر غور و فكر كرنا چاہيے كہ ان ميں كيا كمى و كوتاہى ہے تا كہ اسے دور كر سكيں، اور اطاعت و فرمانبردارى ميں مشغول ہوں، جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے كہ اگر شرعى اصول و ضوابط كے موافق ہنسى مزاح كيا جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، نہ كہ اپنى خواہشات كے طابع ہو.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب