بغداد ميں ميرے والد صاحب كو قتل كر ديا گيا اور ہميں وہاں سے نكال ديا گيا تو ہم تركى چلےگئے، ميرى والدہ ڈيڑھ ماہ تك تو گھر ميں ہى رہيں ليكن پھر رہائشى پرمٹ كے ليے سركارى اداروں ميں جانا شروع كر ديا، اور اب پھر دوبارہ گھر بيٹھ گئى ہيں، كيا پہلا ڈيڑھ ماہ كا عرصہ عدت ميں شمار كيا جائيگا يا نہيں؟ يہ علم ميں رہے كہ ميرے والد صاحب كو فوت ہوئے چار ماہ ہوئے ہيں ؟
عدت والى عورت كا ضروريات پورى كرنے كے ليے باہر نكلنا
سوال: 101546
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ہمارى دعا ہے اللہ تعالى آپ كو اس مصيبت و پريشانى ميں اجروثواب عطا فرمائے، اور صبر و تحمل سے نوازے، اور آپ كو اس كا نعم البدل عطا فرمائے، اور مومنوں كو ظالموں اور منافقوں كے شر سے محفوظ ركھے، اور ان كے ليے شر و برائى سے كافى ہو جائے.
دوم:
بيوہ كى عدت چار ماہ دس دن اور راتيں ہيں؛ كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور جو لوگ تم ميں سے فوت ہو جائيں اور بيوياں چھوڑ جائيں تو وہ بيوياں چار ماہ دس دن اپنے آپ كو انتظار ميں ركھيں البقرۃ ( 234 ).
يہ عدت خاوند كى وفات كے وقت سے شروع ہو كر عدت كے ايام پورے ہونے پر ختم ہو جائيگى، چاہے عورت نے عدت اور سوگ كے احكام كا التزام كيا ہو يا نہ كيا ہو تب بھى عدت ختم ہو جائيگى، اور چاہے بيوى كو اپنے خاوند كى وفات كا علم ہوا و يا نہ ہوا ہو؛ جب خاوند كى وفات كے وقت سے چار ماہ دس دن پورے ہو جائيں تو عورت كى عدت ختم ہو جائيگى.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اہل علم كا اتفاق ہے كہ آزاد مسلمان غير حاملہ عورت بيوہ ہو جائے تو اس كى عدت چارد ماہ دس دن ہے؛ چاہے اس سے دخول ہوا ہو يا نہ ہوا ہو، اور چاہے بڑى عمر كى بالغ عورت ہو يا چھوٹى عمر كى نابالغہ لڑكى.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور وہ لوگ جو تم ميں سے فوت ہو جائيں اور اپنے پيچھے بيوياں چھوڑ جائيں تو وہ بيوياں چار ماہ دس دن اپنے آپ كو انتظار ميں ركھيں .
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو عورت بھى اللہ تعالى اور يوم آخرت پر ايمان ركھتى ہے اس كے ليے كسى بھى ميت پر تين روز سے زيادہ سوگ منانا حلال نہيں؛ مگر خاوند پر كہ وہ چار ماہ دس دن ہيں " متفق عليہ " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 8 / 93 ).
مستقل فتوى كميٹى سعودى عرب كے فتاوى جات ميں درج ہے:
بيوہ عورت اگر حاملہ نہيں تو اس كے ليے چار ماہ دس دن عدت گزارنا واجب ہے.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور تم ميں سے جو لوگ فوت ہو جائيں اور اپنى بيوياں چھوڑ جائيں تو وہ بيوياں چار ماہ دس يوم تك اپنے آپ كو انتظار ميں ركھيں .
اور يہ عدت خاوند كے فوت ہونے كى تاريخ سے شروع ہو گى؛ اگر عورت عمدا اور جان بوجھ كر عدت ترك كرتى ہے تو وہ گنہگار ہوگى اسے اس سے توبہ و استغفار كرنا چاہيے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 421 ).
اور يہ بھى درج ہے:
" بيوہ كى عدت خاوند كى وفات كے فورا بعد سے چار ماہ دس دن ہے، اور اگر حاملہ ہو تو وضع حمل ہوگى، جب آپ كى والدہ نے جہالت يا كسى اور بنا پر وقت محددہ ميں عدت نہيں گزارى تو اس پر كوئى كفارہ نہيں؛ بلكہ اسے كثرت سے توبہ و استغفار اور اللہ كا ذكر كرنا چاہيے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 481 ).
سوم:
بيوہ كے ليے دوران عدت دن كے وقت ضرورت كى خاطر گھر سے نكلنا جائز ہے؛ مثلا اگر سركارى دفاتر وغيرہ ميں جا كر اہم معاملات نپٹانے كے ليے كوئى نہ ہو تو وہ خود جا سكتى ہے، ليكن رات كے وقت اسے بغير كسى حاجت كے باہر نہيں نكلنا چاہيے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عدت والى عورت كے ليے دن كے وقت اپنى ضروريات كى خاطر گھر سے باہر جانا جائز ہے، چاہے وہ عدت طلاق كى ہو يا خاوند فوت ہو جانے كى؛ كيونكہ جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ميرى خالہ كو تين طلاق ہو گئيں تو وہ اپنى كھجور كا پھل توڑنے باغ ميں گئيں تو ايك شخص نے انہيں روكا، چنانچہ انہوں نے اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ذكر كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم جاؤ اور اپنى كھجور توڑو، اميد ہے تم اس سے صدقہ كرو يا كوئى خير كا كام كرو "
اسے نسائى اور ابو داود نے روايت كيا ہے.
اور امام مجاہد رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے:
" جنگ احد ميں كچھ اشخاص شہيد ہوگئے تو ان كى بيوياں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئيں اور عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: رات كے وقت ہميں وحشت ہوتى ہے اور ہم وحشت كا شكار ہو جاتى ہيں، كيا ہم سب اكٹھى ہو كر كسى ايك كے گھر رات بسر كر ليا كريں؟ اور صبح ہوتے ہى ہم جلدى سے اپنے گھر چلى جايا كريں ؟
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تم سب اكٹھى ہو كر ايك كے پاس جا كر باتيں كيا كرو اور جب تم سونا چاہو تو ہر ايك اپنے گھر چلى جائے "
اس ليے بغير كسى ضرورت كے عدت والى عورت كسى دوسرے كے ہاں رات بسر نہيں كر سكتى، اور نہ ہى وہ رات كو گھر سے باہر نكل سكتى ہے، كيونكہ دن كے مقابلہ ميں رات فتنہ و خرابى كا زيادہ محل ہے، كيونكہ دن ميں تو لوگ معاش اور ضروريات پورى كرتے ہيں، اور حاجت كى اشياء كى خريدارى كرتے ہيں " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 8 / 130 ).
مستقل فتوى كميٹى سعودى عرب كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" اصل يہى ہے كہ عورت اپنے خاوند كے اسى گھر ميں عدت بسر كرے جہاں خاوند كى فوتگى كى اطلاع ملى تھى، اس گھر سے وہ بغير كسى حاجت و ضرورت كے نہيں نكل سكتى؛ مثلا بيمارى كى حالت ميں ڈاكٹر كے پاس ہاسپٹل وغيرہ جانا، اور اگر كوئى دوسرا خريدارى كرنے كے ليے نہ ہو تو خود روٹى وغيرہ بازار سے خريدنے جانا " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 440 ).
حاصل يہ ہوا كہ آپ كى والدہ كا سركارى اداروں ميں جا كر رہائشى پرمٹ بنوانے ميں ان شاء اللہ كوئى حرج نہيں، اور يہ چيز عدت ميں انقطاع كا باعث شمار نہيں ہوگى؛ كيونكہ ضرورت و حاجت كى خاطر گھر سے نكلنا انقطاع شمار نہيں ہوتا، اور اگر آپ كے والد كو فوت ہوئے چار ماہ ہو چكے ہيں تو اب آپ كى والدہ كى عدت كے دس يوم باقى ہيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب