كہتے ہيں كہ اذان سننى واجب ہے، ليكن مغرب كى اذان كے وقت افطارى كرنے والے شخص كے متعلق كيا حكم ہے، آيا كھانے ميں مشغول ہونے كى بنا پر اسے اذان كا جواب دينا معاف ہے ؟
اور فجر كى اذان كے وقت سحرى كرنے كا حكم كيا ہے ؟
پہلے افطارى كرنا افضل ہے يا اذان كا جواب دينا ؟
سوال: 101582
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اذان كے كلمات دھرانے اور مؤذن كى متابعت ميں علماء كرام كا اختلاف ہے، اور جمہور علماء كا قول ہى صحيح ہے، كہ اس كى متابعت واجب نہيں، بلكہ مستحب ہے، مالكيہ، شافعيہ، اور حنابلہ كا يہى قول ہے.
امام نووى رحمہ اللہ كتے ہيں:
” ہمارا مسلك يہى ہے كہ اذان كى متابعت سنت ہے واجب نہيں، اور جمہور علماء كا بھى يہى قول ہے، ليكن امام طحاوى رحمہ اللہ نے بعض سلف سے اس كے خلاف ذكر كيا ہے كہ يہ واجب ہے ” انتہى.
ديكھيں: المجموع ( 3 / 127 ).
اور ” المغنى ” ميں امام احمد رحمہ اللہ سے منقول ہے:
” اور اگر وہ يہ قول نہ بھى كہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں ” انتہى بتصرف.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 256 ).
اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا مالك بن حويرث اور ان كے ساتھيوں كو يہ فرمان ہے:
جب نماز كا وقت ہو تو تم ميں سے كوئى ايك شخص تمہارے ليے اذان كہے اور تم ميں سے سب سے بڑا تمہارى امامت كرائے ”
تو يہ اس پر دلالت كرتى ہے كہ متابعت واجب نہيں، اس كى وجہ دلالت يہ ہے كہ: يہ تعليم كا مقام تھا اور اس ميں ضرورت ہوتى ہے كہ ضرورت كى ہر چيز بيان كى جائے، ہو سكتا ہے اس وفد كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان كا علم نہ ہو جس ميں اذان كى متابعت كا ذكر ہے، تو جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى ضرورت ہونے كے باوجود اس پر متنبہ نہيں كيا، اور پھر يہ وفد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس بيس يوم ٹھرا اور پھر وہاں سے اپنے علاقے واپس چلا گيا تو يہ اس كى دليل ہے كہ اذان كا جواب دينا واجب نہيں، زيادہ قريب اور راجح يہى ہے ” انتہى.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 75 ).
اور امام مالك رحمہ اللہ نے موطا ميں ابن شہاب عن ثعلبہ بن ابى مالك القرظى سے روايت كيا ہے كہ انہوں نے بتايا:
” وہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كے دور ميں جمعہ كے روز نماز پڑھا كرتے حتى كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ مسجد ميں آتے، جب وہ مسجد ميں آتے اور منبر پر بيٹھ جاتے اور مؤذن اذان دينے لگتے.
ثعلبہ كہتے ہيں: ہم بيٹھ كر باتيں كرتے، اورجب مؤذن اذان دے كر خاموش ہوتے اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ كھڑے ہو كر خطبہ دينے لگتے تو ہم خاموش ہو جاتے، اور ہم ميں سے كوئى بھى شخص بات چيت نہ كرتا “
مؤطا امام مالك ( 1 / 103 ).
ابن شہاب كہتے ہيں:
” چنانچہ امام كا آنا نماز كو كاٹ ديتا ہے، اور اس كى كلام ( يعنى خطبہ ) بات چي تكو ختم كر ديتا ہے ”
اور ” تمام المنۃ ” ميں علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” اس اثر ميں يہ دليل ہے كہ مؤذن كا جواب دينا واجب نہيں، كيونكہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے دور ميں دوران اذان بات چيت كرنے پر عمل رہا ہے، اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اس عمل پر خاموشى اختيار كى ہے، مجھ سے اذان كا جواب دينے كے وجوب كے متعلق بہت زيادہ سوال كيا گيا ہے تو ميں نے يہى جواب ديا ہے ” انتہى.
ديكھيں: تمام المنۃ ( 340 ).
مندرجہ بالا سطور كى بنا پر اگر كوئى شخص اذان كا جواب نہيں ديتا اور اس كى متابعت نہيں كرتا تو اس پر كوئى گناہ نہيں، چاہے اس نے كھانے پينے ميں مشغول ہونے كى بنا پر جواب نہ دے سكے، يا پھر كسى اور كام كى وجہ سے، ليكن اس طرح وہ اجر عظيم سے محروم ہو جاتا ہے.
صحيح مسلم ميں عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جب مؤذن اللہ اكبر اللہ اكبر كہے اور تم ميں سے بھى كوئى اللہ اكبر اللہ اكبر كہتا ہے، اور پھر وہ اشہد ان لا الہ الا اللہ كہے ہے تو وہ بھى اشہد ان لا الہ الا اللہ كہتا ہے ، مؤذن اشہد ان محمدا رسول اللہ كہے تو وہ بھى اشہد ان محمدا رسول اللہ كہتا ہے، ، جب مؤذن حي على الصلاۃ كہے تو وہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ كہتا ہے، جب مؤذن حى على الفلاح كہے تو وہ لاحول و لا قوۃ الا باللہ كہتا ہے، پھر وہ اللہ اكبر اللہ اكبر كہے تو وہ بھى اللہ اكبر اللہ اكبر كہتا ہے، پھر مؤذن لا الہ الا اللہ كہے تو وہ بھى لا الہ الا اللہ اپنے دل سے كہے تو جنت ميں داخل ہو گا ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 385 ).
جلد افطارى كرنے اور اذان كا جواب دينے ميں كوئى تعارض نہيں ہے، روزہ دار كے ليے غروب شمس كے فورا بعد جلد افطارى كرنا اور اذان كا جواب ايك ہى وقت ميں دينا ممكن ہے، تو اس طرح وہ دونوں فضيلت والے كام كو جمع كر سكتا ہے، ايك تو افطارى جلد كرنے كى فضيلت، اور دوسرى مؤذن كى اذان كا جواب دينے كى فضيلت.
پہلے لوگ بھى كھانے كے دوران بات چيت كرتے تھے اور آج بھى كھانے دوران لوگ بات چيت كرتے ہيں، اور انہيں كھانا كھانا كلام اور بات چيت سے منع نہيں كرتا، يہاں اس پر متنبہ رہنا چاہيے كہ افطارى كسى بھى چيز كے ساتھ ہو سكتى ہے، چاہے تھوڑى سى ہى ہو، مثلا كھجور، يا پانى كا گھونٹ، افطارى كا معنى يہ نہيں كہ پيٹ بھر كر كھايا جائے.
ليكن جب مؤذن فجر كى اذان طلوع فجر ہونے كے بعد كہے تو اذان سنتے ہى كھانے پينے سے ركنا واجب ہے.
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 66202 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات