ميرا خاوند مجھے مجبور كرتا ہے كہ ميرى والدہ يا بہن يا كسى دوسرے شخص نے جو بات بھى مجھ سے كى ہے وہ بتاؤں، اور دليل يہ ديتا ہے كہ ہو سكتا ہے ميرى ماں نے كوئى ايسى بات كہى ہو جس سے گھر خراب ہو جائے، اور اگر ميں نہ بتاؤں تو مشكلات شروع ہو جاتى ہيں، كيا ميں خاوند كى بات مان لوں يا نہ ؟
خاوند مجبور كرتا ہے كہ گھر والوں اور لوگوں سے جو سنا ہے وہ سب كچھ بتايا جائے
سوال: 101776
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
1 ـ اس خاوند پر واجب ہے ـ اگر اس كى بيوى كى بات صحيح ہے تو ـ وہ اپنى بيوى سے اس مطالبہ ميں اللہ سے ڈرے، اور وہ يہ جان لے كہ وہ اس فعل كى بنا پر گنہگار ہوگا، اور اس كى بيوى كے ليے اس مطالبہ ميں اطاعت كرنا حلال نہيں.
2 ـ اور ہم اس خاوند كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ لوگوں كى بجائے اپنے نفس ميں مشغول رہے، اور اپنے عيوب كو ديكھ كر ان كى اصلاح كرے، اور اپنى كوتاہى كو دور كرنے كى كوشش كرے اور اپنے نفس امارہ كو كمال تك پہنچائے، اس كے ليے لوگوں كے بارہ ميں مشغول ہونے سے يہى بہتر اور اولى ہے كہ لوگ كيا كہتے ہيں، اور فلاں نے كيا كہا اور كيا كيا ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
لوگوں ميں سب سے زيادہ خسارہ پانے والا وہ شخص ہے جو اپنے نفس ميں مشغول ہو كر اللہ كو بھول جائے، بلكہ اس سے بھى زيادہ نقصان اور خسارہ اٹھانے والا شخص وہ ہے جو اپنے آپ كو بھول كر لوگوں ميں مشغول ہو جائے ”
الفوائد ( 58 ).
3 ـ اسے لوگوں كے بارہ ميں سوء ظن اور غلط گمان نہ ركھ كر اپنے بارہ ميں يہ اعتقاد مت ركھے كہ وہ خود كمال نفس ركھتا ہے اور پھر لوگ جو كچھ كہتے ہيں وہ غلط ہے اور اس كے ليے اہم ہے اور اسى كے بارہ ميں ہى ہے، بلكہ يہ تو لوگوں كے قصے اور حالات سننے اور ان كى عزت كى سے كھيلنے كى خواہش ہے.
4 ـ اس خاوند سے اميد تو يہ تھى كہ اگر بيوى اپنے خاندان يا كسى اور شخص كى بات اس كے ليے نقل بھى كرتى تو وہ اسے قبول نہ كرتا، چاہے وہ كلام اس كے اپنے بارہ ميں ہى ہوتى، كيونكہ اس كى بيوى اس صورت ميں چغل خور اور غيبت كرنے والى ہوتى.
بعض سلف رحمہ اللہ كا قول ہے: چغل خور اور غيبت كرنے والا شخص ايك لحظہ ميں اتنى خرابى پيدا كر ديتا ہے جو جادوگر ايك برس ميں خرابى نہيں كر سكتا ”
تو يہ خاوند اپنے ليے كيسے قبول كر رہا ہے كہ وہ ايسا كرنے كى بيوى كو خود وصيت كرے، بلكہ اگر بيوى ايسا نہ كرے تو اسے سزا كى دھمكى ديتا ہے!؟
امام نووى رحمہ اللہ ابو حامد غزالى رحمہ اللہ سے نقل كرتے ہوئے كہتے ہيں:
” ہر وہ شخص جس كے پاس كوئى كسى شخص كى چغلى اور غيبت كرے اور اسے كہا جائے كہ: فلاں شخص تيرے بارہ ميں يہ كہتا ہے، يا تيرے بارہ ميں يہ كر رہا ہے تو اس شخص كو درج ذيل چھ اشياء كرنى چاہيں:
اول:
وہ اس كى تصديق مت كرے، كيونكہ چغل خور فاسق ہے.
دوم:
وہ چغل خور كو ايسا كرنے سے منع كرے، اور اسے نصيحت كرے، اور اس كے اس فعل كو برا كہے.
سوم:
اس سے اللہ كے ليے بغض ركھو، كيونكہ وہ اللہ كے نزديك مبغوض شخص ہے، اور جس پر اللہ كا غضب ہو اس سے بغض ركھنا واجب ہے.
چہارم:
اپنے بھائى كے بارہ ميں غالبا برا ظن نہيں ركھے.
پہنجم:
اسے جو كچھ بتايا گيا ہے اس كى بنا پر وہ جاسوسى پر آمادہ نہ ہو، اور اس كى كھوج ميں نہ لگ جائے.
ششم:
جس چيز سے چغل خور كو روكا ہے اس چيز پر خود راضى نہ ہو جائے، اس ليے وہ اس كى چغلى كو نقل كرتے ہوئے يہ مت كہنا شروع كر دے كہ: فلاں شخص نے مجھے يہ بتايا، اس طرح تو وہ خود بھى چغل خور بن جائيگا، اور اس نے بھى وہى كام كر ليا جس سے منع كيا گيا ہے ” انتہى
ديكھيں: الاذكار ( 275 ).
ـ خاوند جو اپنى بيوى سے چاہتا ہے وہ چغلى اور غيبت ہے، جو كہ كبيرہ گناہ ميں شامل ہوتى ہے، اس ليے بلاشك و شبہ اس كے نقل كرنے ميں فساد و خرابى اور بغض و عداوت پيدا ہوتى ہے، اور پھر بيوى كے خاندان والے اپنى بات كو خاوند تك نقل كرنے كو ناپسند كرتے ہيں.
اور يہ علم ميں ہونا چاہيے كہ فساد و خرابى كى نيت سے ہى كلام نقل كرنے كو چغلى اور غيبت نہيں كہا جاتا، بلكہ بعض اوقات تو صرف بطور تماشہ اور كھيل اور فائدہ كے ليے ہوتى ہے.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” جس چيز سے اجتناب كرنا اور بچنا اور دور رہنا ضرورى ہے وہ چغلى اور غيبت ہے، جو ايك شخص سے دوسرے شخص يا پھر ايك جماعت سے دوسرى جماعت كى طرف نقل كى جاتى ہے، يا پھر ايك قبيلہ سے دوسرے قبيلہ كى طرف خرابى وفساد كى غرض سے اور انہيں لڑانے كے ليے، اور يہ چيز ايسى چيز كا انكشاف كرنا ہے جسے وہ ظاہر كرنا پسند نہيں كرتا، چاہے جسے بتائى جا رہى ہے وہ ناپسند كرے يا پھر جس كى جانب سے نقل كى جا رہى ہے وہ ناپسند كرے، يا پھر كوئى تيسرا شخص، اور چاہے يہ بات ہو يا قول يا اعمال، يا كتابت يا پھر اشارہ كنايہ اور چاہے منقول اقوال ہوں يا پھر اعمال، اور چاہے عيب ہو يا منقول عنہ كا نقص، يا نقص نہ ہو.
انسان پر واجب ہے كہ وہ جو لوگوں كے حالات ديكھ رہا ہے وہ اس پر خاموش رہے، ليكن وہ جسے بيان كرنے ميں كسى دوسرے مسلمان شخص كا فائدہ ہو يا اسے شر سے محفوظ ركھنا.
چغلى اور غيبت كا سبب يہ ہوتا ہے: يا تو جس كى جانب سے جچغلى اور غيبت كا سبب يہ ہوتا ہے: يا تو جس كى چغلى كى جا رہى ہے اس سے برا ارادہ ركھتا ہو، يا پھر جس سے چغلى كى جا رہى ہے اس سے محبت كا اظہار كرے، يا پھر فضول اور باطل باتوں ميں مشغول ہو كر لطف اندوز ہونا چاہتا ہو، يہ سب حرام ہے.
چغلى اور غيبت كى حرمت پر كتاب و سنت ميں بہت دلائل پائے جاتے ہيں جن ميں سے چند ايك ذيل ميں پيش كيے جاتے ہيں:
فرمان بارى تعالى ہے:
اور تو كسى ايسے شخص كا بھى كہا نہ ماننا جو زيادہ قسميں كھانے والا ہو
بے وقار كمينہ، عيب گو چغل خور كى بھى بات مت مانو القلم ( 10 – 11 ).
بڑى خرابى ہے اس شخص كى جو عيب ٹٹولنے والا غيبت كرنے والا ہو الھمزۃ ( 1 ).
حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” چغل خور جنت ميں داخل نہيں ہوگا “
متفق عليہ.
اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” كيا تمہيں العضہ كے بارہ ميں بتاؤں ؟ يہ غيبت و چغلى ہے جو لوگوں كى باتيں نقل كرتا پھرتا ہے ”
اسے امام مسلم نے روايت كيا ہے.
اور پھر چغلى اور غيبت ان اسباب ميں شامل ہوتى ہے جس كى بنا پر عذاب قبر ہوتا ہے؛ كيونكہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم دو قبروں كے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمايا:
” ان دونوں كو عذاب ہو رہا ہے، اور انہيں كسى بڑے ( گناہ ) كى بنا پر عذاب نہيں ہو رہا ”
پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” كيوں نہيں، ان ميں سے ايك شخص تو پيشاب كے چھينٹوں سے نہيں بچتا تھا، اور دوسرا چغلى كرتا تھا ”
متفق عليہ.
غيبت اور چغلى اس ليے حرام كى گئى ہے كہ اس كى وجہ سے لوگوں كے مابين فساد اور خرابى پيدا ہوتى ہے، اور دشمنى و عداوت چل نكلتى ہے، اور پھر بدنظمى پيدا ہوتى ہے، اور لڑائى كى آگ بھڑك اٹھتى ہے، اور حسد و كينہ اور بغض اور نفاق پيدا ہوتا ہے، اور ہر قسم كى ممحبت و مودت كا خاتمہ ہو جاتا ہے، اور تفريق و اختلاف پيدا ہوتا ہے، اور خيانت و دھوكہ كا باعث بنتى ہے، برى اور معصوم لوگوں پر بہتان بازى كا باعث بنتى ہے، اور سب و شتم اور قبيح اشياء كا باعث بنتى ہے.
اور اس ليے بھى كہ يہ دونوں بزدلى اور كمزورى نيچ پن كا عنوان ہيں، اس كے ساتھ ساتھ چغلى اور غيبت كرنے والا شخص اور بھى بہت سارے گناہ كا ذمہ دار ٹھرتا ہے، جو اسے اللہ كے المناك عذاب اور ناراضگى و غضب كى طرف لے جاتے ہيں ” .
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز رحمہ اللہ ( 3 / 237 – 239 ) مختصرا.
اور العضہ كے بارہ ميں كہا گيا ہے كہ: يہ قريش كى زبان ميں جادو كے معنى ميں ہے، اور ايك قول ہے كہ كذب و بہتان كو كہا جاتا ہے.
شيخ عبد اللہ بن جبرين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ميرا خاوند ميرى باتيں اپنے گھر والوں كو بتاتا ہے، اور پھر ان كى باتيں مجھے بتاتا رہتا ہے، جس كے نتيجہ ميں بہت سارى مشكلات پيدا ہو جاتى ہيں، ميں نے كئى بار خاوند كو كہا ہے كہ وہ ايسا مت كيا كرے، ليكن وہ اس سے باز نہيں آتا برائے مہربانى مجھے يہ بتائيں كہ ميں كيا كروں ؟
شيخ كا جواب تھا:
” اس عمل كو چغلى اور غيبت كہا جاتا ہے، كہ خرابى پيدا كرنے كے ليے كلام نقل كى جائے، اس كى وعيد كے بارہ ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
بے وقار كمينہ، عيب گو چغل خور كى بھى بات مت مانو القلم (11 ).
يہ جہنميوں كے اوصاف ميں سے ايك وصف ہے.
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
بڑى خرابى ہے اس شخص كى جو عيب ٹٹولنے والا غيبت كرنے والا ہو الھمزۃ ( 1 ).
اور ايك اثر ميں ہے كہ:
” چغل خور اور غيبت كرنے والا شخص ايك لمحہ ميں اتنى خرابى پيدا كر ديتا ہے جو جادوگر ايك سال ميں بھى نہيں كر سكتا “
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے كہ:
” چغل خور جنت ميں نہيں جائيگا “
بلاشك و شبہ اس كى حرمت اس وقت اور بھى شديد ہو گى جب يہ عمل خاوند اور بيوى اور اس كے رشتہ داروں كے مابين ہو، اس ليے خاوند كو اللہ سے ڈرتے اور تقوى اختيار كرتے ہوئے ايسے قبيح عمل سے باز آ جانا چاہيے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نگرانى كر رہا ہے.
اور پھر اسے ان اسباب سے دور رہنا چاہيے جو اسے جلدى يا دير ميں عذاب سے دوچار كرنے والے ہوں، اور اسے جھوٹ اور غيبت اور چغل خورى اور بہتان سے اجتناب كرنا چاہيے، اور لوگوں ميں خرابى پيدا كرنے سے باز رہے.
اس كى بجائے وہ صدق و سچائى اختيار كرے، اور لوگوں كى عزت كى حفاظت كرے، اور اللہ كا خوف و ڈر اختيار كرے، اور اللہ كى نگرانى كا يقين ركھے كيونكہ وہ اللہ بڑى سخت سزا كا مالك ہے ” انتہى
ديكھيں: الحلول الشرعيۃ للخلافات و المشكلات الزوجيۃ و الاسريۃ فتوى نمبر ( 42 ).
اس ليے خاوند اپنى بيوى سے يہ مطالبہ واپس لے لے، اور اگر خاوند اس مطالبہ پر اصرار كرتى ہے تو پھر بيوى كے ليے حلال نہيں كہ وہ خاوند كى اس بات كو تسليم كر كے لوگوں كى باتيں بتاتى پھرے، كيونكہ كلام نقل كرنے كى موافقت كرنا اسے گناہ جارى ركھنے ميں معاونت ہوگى، اور كلام نقل كرنے سے رك جانے ميں اس معصيت كا خاتمہ ہے.
اور اگر بيوى كو خدشہ ہو كہ اگر اس نے كلام نقل نہ كى تو پھر خاوند اور بيوى كے مابين مشلات بڑھ سكتى ہيں تو پھر خاوند كے اصرار پر كلام نقل كرنے ميں كوئى حرج نہيں كہ وہ اپنے خاندان كى كلام نقل كر سكتى ہے مثلا وہ يہ كہے:
وہ آپ كى تعريف كرتے تھے اور آپ كا ذكر خير كرتے تھے اس طرح كے الفاظ نقل كرے جو ان ميں محبت و مودت قائم كرنے كا باعث ہوں، اور آپس ميں الفت پيدا ہو، اور خاوند اور اس كے سسرال والوں كے مابين اختلافات ختم ہو جائيں.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے خاوند كى اصلاح فرمائے، آپ اور آپ دونوں كو خير و بھلائى پر جمع كرے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب