ہم امریکہ میں اپنی استطاعت کے مطابق منھج سلف پردعوت الی اللہ کا کام کررہے ہیں ، لیکن ان آخری دنوں میں ایک بہت ہی خطرناک اوراہم معاملہ پیش آیا جسے آسمانی ادیان ( اسلام ، یھودیت ، عیسائيت ) کوآپس میں ایک دوسرے کے قریب کیا جاۓ ۔
اس کے لیے ایک کمیٹی بنائ گئ ہے اورہردین کا ایک مبعوث بھیجا جاتا ہے تا کہ ان ادیان ميں پیدا شدہ خلاء کوپرکرکے ان ادیان کوقریب کیا جاۓ ، اوریہ لوگ گرجا گھروں کنیسوں اوریھودیوں کے عبادت خانوں میں جمع ہوتے ہیں بلکہ وہ مشترکہ طورپرنماز بھی پڑھتے ہیں ، اوراس میں تینوں ادیان کےافراد بہت بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہيں ۔جیسا کہ فلسطین میں الخلیل کے اندر وہاں قتل وغارت کے بعد کیا گيا ۔
توسوال یہ ہے کہ :
یہ مسلمان علماء یا جواپنے آپ کواہل علم شمار کرتے ہیں کے نمائندہ شمار کیے جاتے ہیں ۔
ہمارے درمیان تواس بات پربحث بھی ہوچکی ہے کہ آیا اس طرح کے اجتماعات میں شرکت کرنی جائز ہے یا کہ نہیں ۔
جتی کہ ان اجتماعات میں اپنے آپ کومسلمان علماء کہنے والے پادریوں سے مصافحے اورمعانقے بھی کرتے ہیں اورایسے اجتماعات میں دعوت کا کوئ موقع نہیں بلکہ یہ توصرف تینوں ادیان کوقریب کرنے کی کمیٹی پرہی سب کچھ ہوتا ہے ۔
توکیا ایسے مسلمان پرجواللہ تعالی اوریوم آخرت پرایمان رکھتا ہے اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اس قسم کے اجتماعات میں شریک ہو اورکنیسوں اوریھودیوں کی عبادت گاہوں جا کرعیسائ پادریوں کوسلام اوران سے مصافحے اورمعانقے کرتا پھرے ؟
اس طرح کہ معاملہ پورے امریکہ میں پھیل چکا ہے آپ سے گزارش ہے کہ اس کا کوئ حل ارسال کریں ، اس لیے کہ ہم نے آپ کوفیصل اورحاکم مانا ہے تاکہ امریکہ کی حد تک اس فتنہ کو ختم کیا جاسکے ، والسلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔
ادیان کوایک دوسرے کے قریب کرنے کی دعوت کا حکم
سوال: 10232
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
الحمدللہ
فتوی کمیٹی نے غور خوض کرنے کے بعد مندرجہ ذیل جواب دیا :
اول :
اللہ تعالی کی اپنے رسولوں پرنازل کردہ کتابوں میں اصول ایمان ایک ہی جیسے تھے ( وہ کتابیں تورات وانجیل اورقرآن ، اور جس کی اللہ تعالی کے رسولوں ابراھیم ، موسی ، عیسی ، وغیرہ نے دعوت پیش کی )
پہلے آنے والوں نے بعد میں آنے والوں کی خوشخبری دی اوربعد میں آنے والوں نے پہلے آنے والوں کی تصدیق اورمدد اوراس کی شان کی تعظیم کی ، اگرچہ بالجملہ حسب ضرررت زمانے اورحالات اوربندوں کی مصلحت اوراللہ تعالی کی حکمت و عدل اوررحمت اور اس کے فضل کے اعتبار سے فروعات میں اختلاف پایا گیا ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
رسول اس چيزپرایمان لایا جو اس کی طرف اللہ تعالی کی جانب سے نازل کی گئ اورمؤمن بھی ایمان لاۓ ، یہ سب اللہ تعالی اوراس کے فرشتوں پراوراس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پرایمان لاۓ ، اس کے رسولوں میں سے کسی میں بھی ہم تفریق نہیں کرتے ، انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اوراطاعت کی ، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب ! اورہمیں تیری طرف ہی لوٹنا ہے البقرۃ ( 285 ) ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اورجولوگ اللہ تعالی اوراس کے تمام رسولوں پرایمان رکھتے ہیں اوران میں سے کسی میں بھی فرق نہیں کرتے انہیں ہی اللہ تعالی پورا اجرو ثواب دے گا اوراللہ تعالی بڑی مغفرت والا بڑي رحمت کا مالک ہے النساء ( 152 ) ۔
ایک اورجگہ پر اللہ تعالی نے فرمایا :
{ جب اللہ تعالی نے نبیوں سے یہ عہد لیا کہ میں تمہیں جوکچھ کتاب وحکمت دوں اورپھرتمہارے پاس وہ رسول آۓ جوتمہارے پاس پائ جانے والی چيزکی تصدیق کرے توتمہارے لیے اس پر ایمان لانا اوراس کی مدد کرنا ضروری ہے اللہ تعالی نے فرمایا کیا تم اس کا اقرارکرتے ہو ؟
سب نے کہا ہمیں اقرار ہے اللہ تعالی نے فرمایا تواب گواہ رہنا اورمیں خود بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں ۔
تواس کے بعد جوبھی پلٹ جائيں وہ یقینا پورے نافرمان ہیں
کیا وہ اللہ تعالی کے دین کے علاوہ اوردین کی تلاش میں ہیں ؟ حالانکہ تمام آسمان وزمین والے اللہ تعالی کے ہی فرمانبرداری اورمطیع ہیں ( ان کی اطاعت ) خوشی سے ہویا ناخوشی ہے ، سب اللہ تعالی ہی طرف لوٹاۓ جائيں گے ۔
آپ کہہ دیجۓ کہ ہم اللہ تعالی اورجوکچھ ہم پرنازل کیا گيا ہے اورجوکچھ ابراھیم علیہ السلام ، اسماعیل علیہ السلام ، اوریعقوب علیہ السلام اوران کی اولاد پرنازل کیا ہے اورجوکچھ موسی علیہ السلام اورعیسی علیہ السلام اوردوسرے انبیاء پرنازل کیاگیا پرایمان رکھتے ہیں ، ہم ان میں سے کسی ایک میں بھی فرق نہیں کرتے ، اورہم اللہ تعالی کے مطیع اورفرمانبردارہيں ۔
جوشخص اسلام کے علاوہ کوئ اوردین تلاش کرے گا اس کا وہ دین قبول نہیں کیا جاۓ گا اوروہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا} آل عمران ( 81- 85 ) ۔
اوراللہ تعالی نے ایک مقام پر ابراھیم خلیل علیہ السلام اوران کے ساتھ دوسرے انبیاءاوران کی دعوت توحید کا ذکر کرنے کےبعد فرمایا :
{ یہ لوگ ایسے تھے کہ ہم نے ان کوکتاب اورحکمت اورنبوت عطا کی تھی تواگریہ ( کافر ) لوگ نبوت کا انکار کردیں توہم نے اس کے لیے ایسے بہت سے لوگ مقرر کردیۓ ہیں جواس کے نہیں ہیں
یہی لوگ ایسے تھے جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت کی تھی توآپ بھی ان ہی کے راستہ پرچلیے آپ کہہ دیجۓ ! کہ میں تم سے اس پرکوئ معاوضہ توطلب نہیں کرتا یہ توصرف تمام جہان والوں کے لیے نصیحت ہے } الانعام ( 89 – 90 )
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان اس طرح بھی ہے :
سب لوگوں سے زيادہ ابراھیم علیہ السلام کے قریب تروہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کا کہنا مانا اوریہ نبی اورجولوگ ایمان لاۓ ، اورمومنوں کا ولی اورسہارا اللہ تعالی ہی ہے آل عمران ( 68 )
اورایک جگہ پرکچھ اس طرح فرمایا :
پھرہم نے آپ کی طرف یہ وحی فرمائ کہ آپ ملت ابراھیم حنیف کی اتباع کریں جو مشرکوں میں سے نہ تھے النحل ( 123 ) ۔
اوراللہ تعالی کایہ بھی فرمایا ہے :
اورجب عیسی بن مریم علیہ السلام نے کہا کہ اے بنواسرائیل میں تم سب کی طرف اللہ تعالی کا رسول ہوں اپنے سے قبل آنے والی تورات کی تصدیق کرنے والا اور اپنے آنے والے رسول کو خوشخبر دینے والا ہوں جس کا نام احمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے ۔
اورفرمان باری تعالی ہے :
اورہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائ ہے جواپنے سے پہلی تمام کتابوں کی تصدیق کرنے والی اوران کی محافظ ہے اس لیے آپ ان کے آپس کے معاملات میں اسی اللہ تعالی کی نازل کتاب کے ساتھ حکم کیجیۓ ، اس حق سے ہٹ کر ان کی خوہشات کے پیچھے نہ جايۓ ،تم میں سے ہرایک کے لیے ہم نے ایک دستور اورراہ مقرر کردی ہے المائدۃ ( 48 ) ۔ اوربھی آیات ہیں
حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمايا :
( میں دنیا وآخرت میں عیسی بن مریم علیہ السلام کے زيادہ قریب اوراولی ہوں سب انبیاء علاتی بھائیوں کی طرح ہیں ان کا دین ایک اورشریعتیں مختلف ہیں ) صحیح بخاری ۔
دوم :
یھودونصاری ہے کلمات کاان کی جگہ سے اٹھا کران میں تحریف کرڈالی اورجوکچھ ان پرنازل کیا گیا اورانہیں حکم دیاگیا اس میں تبدیلی کرلی تواس طرح انہوں نے اپنے اصل دین اوراپنے رب کی شریعت کوبدل ڈالا ۔
ان تبدیلیوں اورتحریفوں میں سے یھودیوں یہ قول بھی ہے کہ وہ عزیرعلیہ السلام کواللہ تعالی کا بیٹا قرار دیتے ہيں ، ان کا خیال وگمان ہے کہ چھ دنوں میں آسمان وزمین کوپیدا کرتے وقت اللہ تعالی کواکتاہٹ اورتھکاوٹ ہوگئی توہفتہ کے دن اللہ تعالی نے آرام فرمایا ۔
ان کا یہ بھی خیال ہے کہ انہوں نے عیسی علیہ السلام کوسولی پرلٹکا دیا اورانہیں قتل کردیا ہے ۔
انہوں نے حیلہ کرکے ہفتہ کے دن اللہ تعالی کی جانب سے حرام کردہ شکار کوحلال کرلیا ۔
انہوں نے حدزنا ( رجم ) کومنسوخ کردیا ، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بلاشبہ اللہ تعالی فقیر ہے اورہم غنی ہیں اور ان کا یہ بھی قول ہے کہ اللہ تعالی کا ہاتھ گردن کے ساتھ بندھا ہوا ہے ۔
اس کے علاوہ خواہشات کے پیچھے چلتے ہوۓ بہت سی قولی اورعملی تحریفات کرلیں ۔
اورعیسائی یہ گمان کرتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام اللہ تعالی کے بیٹے اوراللہ تعالی کے ساتھ انہيں الہ کا درجہ بھی حاصل ہے ، اوریھودیوں کے تصدیق میں وہ یہ بھی کہتے ہیں انہون نے عیسی علیہ السلام کوسولی پرچڑھایا اور انہیں قتل کردیا ہے ۔
اوردونوں فریقوں کا خیال ہے کہ وہ اللہ تعالی کے بیٹے اوراس کے محبوب ہیں ، اوردونوں فریق نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے لاۓ ہوۓ دین کے ساتھ کفر کرتے ہیں ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے طرف سے ہی حسدوبغض اورکینہ رکھتے ہيں ۔
حالانکہ اللہ تعالی نے ان سے یہ عھد لیا تھا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائيں گے اوران کی تصدیق اور مدد وتعاون کریں گے جس کا انہون نے اقرار بھی کیا ۔
اس کے علاوہ اوربھی بہت سے غلط عقائد اوراسلام مخالف کام ، اللہ تعالی نے ان کے بہت سارے جھوٹ اورکذب و افتراء اور ان کی طرف نازل کردہ شریعت و عقائد میں تحریف وتبدیل اپنی کتاب میں بیان کیے ہیں اورانہيں ذلیل کرتے ہوۓ ان کا رد بھی اپنی کتاب میں کیا ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ ان لوگوں کےلیے ہلاکت ہے جواپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئ کتاب کواللہ تعالی کی طرف منسوب کرتے ہيں اوراس طرح دنیا کماتے ہيں ، ان ہاتھوں کی لکھائ کواوران کے کمائ کوہلاکت اورافسوس ہے
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم توصرف چند روز جہنم میں رہیں گے ، ان سے کہو کہ کیا تمہارے پاس اللہ تعالی کا کوئ پروانہ یا عہد ہے ؟ اگرہے تویقینا اللہ تعالی اپنے وعدے کا خلاف نہیں کرے گا ، بلکہ تم تو اللہ تعالی کے ذمے وہ باتیں لگاتے ہو جنہیں تم جانتے ہی نہیں } البقرۃ ( 79 – 90 )
اوراللہ رب العزت نے فرمایا :
اور وہ یہ کہتے ہیں کہ جنت میں یہود ونصاری کے سوا اورکوئ بھی جنت میں نہیں جاۓ گا یہ صرف ان کی آرزوئيں ہیں ، ان سے کہو کہ اگرتم سچے ہوتوکوئ دلیل پیش کرو البقرۃ ( 111 ) ۔
اورایک مقام پراللہ تعالی نے کچھ اس طرح ذکرکیا ہے :
{ اوروہ کہتے ہيں کہ یہودونصاری بن جاؤ توھدایت یافتہ بن جاؤ گے ، آپ کہہ دیں بلکہ صحیح راستہ پرتوملت ابراھیمی پرچلنے والے ہیں اورابراھیم علیہ السلام خالص اللہ تعالی کے پرستار تھے اورمشرک نہ تھے
اے مسلمانوں تم سب یہ کہو کہ ہم اللہ تعالی پرایمان لاۓ اوراس چیزپر بھی ایمان لاۓ جوہماری طرف نازل کی گئ اورجوچيزابراھیم علیہ السلام ، اسماعیل علیہ السلام ، اسحاق علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام اوران کی اولاد پراتاری گئي اورجو کچھ اللہ تعالی کی جانب سے موسی علیہ السلام ، عیسی علیہ السلام اوردوسرے انبیاء علیہم السلام دیۓ گۓ ، ہم ان میں سے کسی ایک درمیان فرق نہیں کرتے ، اور ہم اللہ تعالی کے فرمانبردار ہيں } البقرۃ ( 135 – 136 ) ۔
اورایک جگہ پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :
یقینا ان میں ایسا گروہ بھی ہے جوکتاب پڑھتے ہوۓ اپنی زبان مروڑتا ہے تا کہ تم اسے کتاب ہی کی عبادت شمار کرو حالانکہ دراصل وہ کتاب میں سے نہیں ، اوریہ بھی کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے حالانکہ وہ دراصل اللہ تعالی کی طرف سے نہیں ، وہ تودانستہ اللہ تعالی پرجھوٹ بولتے ہيں
اورسورۃ النساء میں اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا ہے :
{ یہ سزا تھی ) ان کی عہد شکنی اوراحکام الہی کے ساتھ کفر کرنے اوراللہ تعالی کے نبیوں کوناحق قتل کرنے کے سبب سے اوران کے یہ کہنے کے سبب کہ ہمارے دلوں پرغلاف ہے حالانکہ دراصل ان کے کفر کی وجہ سے اللہ تعالی نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اس لیے یہ بہت ہی تھوڑا ایمان لاتے ہیں
اوران کے کفر کے باعث اوراورمریم علیہا السلام پربہت بڑا بہتان باندھنے کے باعث ، یوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ تعالی کے رسول مسیح عیسی بن مریم کوقتل کردیا حالانکہ نہ توانہوں نے اسے قتل کیا اورنہ ہی اسے سولی پرچڑھایا ، بلکہ ان کے لیے ان ( عیسی علیہ السلام ) کا شبیہ بنا دیاگیا تھا ، یقین جانو عیسی علیہ السلام کے بارہ میں اختلاف کرنے والے ان کے بارہ میں شک میں ہیں انہیں اس کا کوئ یقین نہیں یہ سب تخمینی باتوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں اتنا تویقین ہے کہ انہوں نے اسے قتل نہیں کیا } النساء ( 157 ) ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی کا یہ بھی فرمان ہے :
اوریہودو نصاری کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی کے بیٹے اوراس کے چہیتے ہیں ، آپ کہہ دیجیۓ اگر یہی بات ہے توپھر ) تمہیں اللہ تعالی تمہارے گناہوں کی سزا کیوں دیتا ہے ، بلکہ تم تواللہ تعالی کی مخلوق میں سے بشر ہو
اور ایک دوسرے مقام پراللہ تعالی نے اس طرح فرمایا ہے :
{ یہودی کہتےہیں کہ عزیر اللہ تعالی کے بیٹے ہیں اورعیسائ کہتے ہیں مسیح اللہ تعالی کا بیٹا ہے یہ قول توصرف ان کےمنہ کی باتیں ہیں ، پہلے منکروں کی بات کی یہ بھی نقل کرنے لگے ہیں اللہ تعالی انہیں غارت کرے وہ کیسے پلٹے جارہے ہیں
ان لوگوں نے اللہ تعالی کوچھوڑ کر اپنے عالموں اوردرویشوں کورب بنالیا اور مریم کے بیٹے مسیح کوبھی } التوبۃ ( 30 )
اورایک اورمقام پر اس طرح فرمایا :
ان اہل کتاب کے اکثرلوگ باوجود اس کے کہ حق واضح ہوچکا ہے محض حسدو بغض کی بنا پر تمہیں بھی ایمان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں
اس کے علاوہ بھی بہت کچھ جس سے ان کے کذب وافترا اورتناقض وذلت جس سے تعجب ختم نہیں ہوتا ، ان کے حالات کے نمونےذکرکرنے کا مقصد مندرجہ ذیل جواب کی بنیاد فراہم کرنا تھی ۔
سوم :
اورپرجوکچھ بیان کیا گیا ہے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے جودین اپنے بندوں کے لیے مشرع کیے وہ ایک ہے اوراسے قرب کی کوئ ضرورت نہيں ، اوراسی طرح یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یھودی اورعیسائيوں نے نازل کردہ اپنے دین میں تغیر وتبدل اورتحریف کر لی تھی حتی کہ تحریف کے بعد ان کا دین جھوٹ اوربہتان اورکفروضلال کا دین بن کر رہ گيا ۔
تواسی بنا پر اللہ تعالی نے ان کی اوران کے علاوہ دوسروں کی جانب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوعمومی رسول بنا کرمبعوث کیا تا کہ اس حق کوبیان کیا جاۓ جوانہوں نے چھپا رکھا تھا اورعقائد واحکام میں جوفساد پیدا کردیا گيا تھا اس کی تصحیح کریں اورانہیں اوران کے علاوہ دوسروں کوسیدھے راستہ کی طرف راہنمائ کرے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ اے اہل کتاب ! یقینا تہمارے پاس ہمارا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آچکا جوتمہارے سامنے کتاب اللہ کی بکثرت ایسی باتیں ظاہر کررہا ہے جنہیں تم چھپا رہے تھے ، اوربہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے تمہارے پاس اللہ تعالی کی طرف سے نور اورواضح کتاب آچکی ہے
جس کے ذریعہ سے اللہ تعالی انہیں جورضاۓ رب چاہتے ہوں سلامتی کی راہیں بتلاتا ہے اوراپنی توفیق سے اندیھروں سے نکال کرنورکی طرف لاتا ہے ، اورراہ راست کی طرف ان کی راہنمائ کرتا ہے } المائدۃ ( 15 – 16 ) ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا :
اے اہل کتاب ! یقینا ہمارا رسول تمہارے پاس رسولوں کی آمد کے ایک قفے بعد آپہنچا ہے جو تمہارے لیے صاف صاف بیان کررہا ہے تا کہ تمہاری یہ بات نہ رہ جاۓ کہ ہمارے پاس توکوئ بھلائ ، برائ سنانے والا آیا ہی نہیں ، پس اب تویقینا خوشخبری سنانے والا اورآگاہ کرنے والا آپہنچا اوراللہ تعالی ہرچيز پر قادر ہے المائدۃ ( 19 ) ۔
لیکن حق کے واضح ہوجانے کے بعد بھی انہوں نے دشنی وبغاوت اورحسدو کینہ کی بنا پرحق سے لوگوں کوبھی روکا اورخود بھی حق سے اعراض کیا ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
ان اہل کتاب کے اکثر لوگ باوجود حق کے واضح ہوجانے کے محض حسد وبغض کی بنا پرتمہیں بھی ایمان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں ، تم بھی معاف کرو اورچھوڑ دو یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنا حکم نافذ کردے یقینا اللہ تعالی ہرچیز پرقادر ہے البقرۃ ( 109 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پرارشاد فرمایا :
جب کبھی ان کے پاس اللہ تعالی کاکوئ رسول ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والا آیا ، ان اہل کتاب کے ایک فرقہ نے اللہ تعالی کی کتاب کو اس طرح پیٹھ پیچھے ڈال دیا گویا جانتے ہی نہ تھے البقرۃ ( 101 )
ایک اورمقام پراللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا ہے :
اہل کتاب کی کافراورمشرک لوگ جب تک کہ ان کے پاس ظاہر دلیل نہ آجاۓ باز رہنے والے نہ تھے ( اوروہ دلیل یہ تھی ) اللہ تعالی کا ایک رسول جو پاک صحیفے پڑھے جن میں صحیح اوردرست احکام ہوں البینۃ ( 1 – 3 ) ۔
ان کے باطل پراصرار کرنے اورحسدوبغض اورکینہ رکھتے ہوۓ واضح دلائل سے سرکشی کرنے کے باوجود کس طرح ایک عقل مند یہ امید رکھ سکتا ہے کہ ان کے اورپکے سچے مسلمانوں کے درمیان بھی قربت ہوسکتی ہے :
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
مسلمانوں ! ) کیا تمہاری خواہش ہے کہ یہ لوگ ایماندار بن جائيں ، حالانکہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جوکلام اللہ کوسن کر عقل و علم والے ہوتے ہوۓ بھی اس میں تحریف کرڈالتے ہیں البقرۃ ( 75 ) ۔
ایک اورمقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :
{ یقینا ہم نے آپ کوحق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اورڈرانے والا بنا کربھیجا ہے اورجہنمیوں کے بارہ میں آّپ سے پوچھ گچھ نہیں ہوگی
آپ سے یھود ونصاری اس وقت تک ہرگزراضي نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کوقبول نہ کرلیں ، آپ کہہ دیجیۓ کہ اللہ تعالی کی ھدایت ہی ھدایت ہے اوراگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے پھران لوگوں کی خواہشوں کی پیروی کی تواللہ تعالی کے پاس آپ کا نہ توکوئ ولی ہوگا اورنہ ہی مدد کوئ مدد گار } البقرۃ ( 119 – 120 ) ۔
اورایک جگہ پراللہ تعالی کچھ اس طرح فرماتے ہیں :
اللہ تعالی ان لوگوں کوکیسے ھدایت دے گا جواپنے ایمان لانے اوررسول کی حقانیت کی گواہی دینے اوراپنے پاس روشن اورواضح دلیلیں آجانے کےبعد کافر ہوجائيں ، اللہ تعالی ایسے بے انصاف لوگوں کوراہ راست پرنہیں لاتا آل عمران ( 86 ) ۔
بلکہ اگر یہ لوگ اللہ تعالی سے دشمنی اورکفرمیں اپنے مشرک بھائيوں سے زیادہ سخت نہیں توکم از کم ان کے برابر توہیں ہی حالانکہ اللہ تعالی نے ان کے متعلق فرمایا ہے :
توآپ جھٹلانے والے لوگوں کی بات نہ مانیں ، وہ توچاہتے ہیں کہ کچھ آپ نرم ہوجائيں اورکچھ وہ نرم ہوجائيں القلم ( 8 – 9 ) ۔
اورایک مقام پراللہ سبحانہ وتعالی کچھ اس طرح فرماتے ہیں :
آپ کہہ دیجۓ کہ اے کافرو ! میں اس کی عبادت کرتا ہوں جس کی تم عبادت کرتے ، اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں ، اورنہ میں اس کی عبادت کروں گا جس کی تم عبادت کرتے ہو ، اورنہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کررہا ہوں ، تمہارے لیے تمہارا دین ہے اورمیرے لیے میرا دین ہے الکافرون ( 1 – 6 ) ۔
جس کوبھی اس کا نفس اسلام اوریھودیت ، عیسائيت کے درمیان جمع کرنے کا کہے وہ تواسی طرح ہے کہ جو دومخالف چيزوں یعنی حق وباطل اور کفروایمان ، یا آگ اورپانی کوجمع کرنے کی کوشش کرے ۔
ایسا شخص تواس جیسا ہی ہوگا جس کے متعلق کسی نے کہا ہے :
اے ثریا اورسہیل ستارے کا آپس میں نکاح کرنے والے اللہ تیری عمردراز کرے یہ دونوں آپس ميں کیسے مل سکتے ہیں ؟
ثریا شام کی جانب اور سہیل یمن کی طرف ہے کچھ توحوش وحواس قائم کرو ۔
پھردوسری بات یہ ہے کہ یھودیت اورعیسائیت کوتو اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے منسوخ کردیا ہے اور زمین پربسنے والے سب یہودیوں اورعیسائيوں پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع وپیروی واطاعت واجب اورضروری قرار دی ہے ۔
اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کچھ اس طرح فرمایا ہے :
{ جولوگ ایسے نبی امی کی اتباع کرتے ہیں جن کووہ لوگ اپنے پاس تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ، وہ ان کونیک باتوں کا حکم فرماتا اور بری باتوں سے منع کرتا ہے اورپاکیزہ چيزوں کوحلال بتاتے ہیں اورگندی چيزوں کوان پرحرام فرماتےہیں اوران لوگوں پرجوبوجھ اورطوق تھے ان کودورکرتے ہیں توجولوگ اس نبی پرایمان لاتے ہیں اوران کی حمایت کرتے ہیں اوران کی مدد و ونصرت کرتے ہیں اوراس نور کی پیروی کرتے ہیں جوان کے ساتھ بھیجا گیا ہے ، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں
آپ کہہ دیجۓ کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اس اللہ تعالی کا بھیجا ہوا ہوں ، جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اورزمین میں ہے اس کے سوا کوئ عبادت کے لائق نہیں وہی زندگی دیتا ہے اوروہی موت دیتا ہے تواللہ تعالی پرایمان لاؤ اوراس کے نبی امی پرجوکہ اللہ تعالی پراوراس کے احکام پرایمان رکھتے ہیں اوران کا اتباع کرو تا کہ تم راہ راست پرآجاؤ } الاعراف (157- 158 )
تواگر اب بھی وہ اپنے منسوخ شدہ دین پرقائم رہتے ہیں تویہ باطل کا تمسک بےدین زندگی ہے لھذا مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ان کے قریب ہوتے پھریں اس لیے کہ ان کے قریب ہونے میں باطل پران کا ساتھ دینا اوراقرار کرنا ہے اوردوسرا بات یہ ہے کہ جاھل قسم کے لوگوں کوہلاکت میں ڈالنا ہے ، واجب تویہ ہے کہ ان کے باطل کولوگوں کے سامنے واضح کرکے انہيں رسوا کیا جاۓ جس طرح کہ اللہ تعالی نے بھی قرآن کریم میں بیان کیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
چہارم :
اگرکوئ کہے کہ کیا ان کے درمیان مصالحت ہوسکتی ہے ، یا پھرکوئ صلح کا معاھدہ کیا جاسکتا ہے تا کہ خون محفوظ اورجنگوں کا سلسلہ روکا جاسکے اورلوگ دنیا میں آسانی سے سفرکرسکیں ، اورزندگی میں رزق کمانے کی کوشش کی جاسکے اوردنیا کی تعمیر و ترقی ہو ۔
صلح اس لیے کی جاۓ کہ حق کی دعوت دی جاۓ اوران دونوں امتوں کے درمیان عدل انصاف قائم کیا جاسکے ، ( اگر ایسی بات کہی جاۓ تو بہت اچھا ہے اوراسے ممکن اوراثرانداز بنانے کےلیے بہت اچھا مقصد ہے لیکن یہ بھی اس وقت ہوگا جب ان سے جزیہ نہ لینا ممکن نہ ہو ۔
اس لیے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کچھ اس طرح فرمایا ہے :
ان لوگوں سے قتال ولڑائ کرو جو اللہ تعالی اورروز قیامت پرایمان نہیں رکھتے جو اللہ تعالی کے رسول کی حرام کردہ اشیاء کوحرام نہیں جانتے ، اورنہ ہی دین حق کوقبول کرتےہیں ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئ ہے یہاں تک کہ وہ ذلیل وخوار ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں التوبۃ ( 30 ) ۔
اوراس مصالحت میں حق کوثابت اوراس کی مدد و نصرت کرنی چاہیے اوریہ مصالحت اورصلح مسلمانوں کا مشرکوں کے ساتھ مداہنت جسے کچھ لواورکچھ دو کا اصول کہا جاتا ہے کے طریقہ پرنہيں ہونی چاہیے اورنہ ہی اس میں اللہ تعالی کے احکام میں سے کسی کا تنازل کرنا اوراسے ترک کرنا چاہيے ، یا پھراس صلح میں مسلمانوں کی عزت و احترام سے بھی تنازل کرنا چاہيۓ بلکہ اس میں بھی انہیں اپنی عزت واحترام برقرار رکھنا اوراللہ تعالی کی کتاب اورسنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرعمل کرنا ہوگا ، اس میں کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرعمل کرتے ہوۓ اللہ تعالی کے دشمنوں سے بغض رکھنا اوران سے دوستیاں نہ لگانا ہوگا ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :
پس تم کمزوربن کردشمن سے صلح کی درخواست پرنہ اتر آؤ جبکہ تم ہی بلنداورغالب رہو گے اوراللہ تعالی تمہارے ساتھ ہے یہ ناممکن ہے کہ وہ تمہارے اعمال ضائع کرد ے محمد ( 35 ) ۔
اوراس کی عملی تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبہ میں کر دکھائ جوعام حدیبیہ میں قریش مکہ کے ساتھ کی اورمدینہ میں جنگ خندق سے قبل یھودیوں سے بھی صلح کی اوراسی طرح غزوہ خیبرمیں بھی ہوئ اور غزوہ تبوک میں رومیوں کےساتھ صلح کی گئ ۔
تواس صلح کے امن وسلامتی مین بہت ہی عظیم اثر اورنتائج نکلے اورحق کی مدد ونصرت ہوئ اورحق کوزمین میں پھلنے پھولنے کا موقع ملا اورفوج درفوج لوگ اسلام قبول کرنے لگے ، اوران کی دنیاوی اوردینی زندگی میں ہرقسم کے عمل پربھی اس کا بہت اثرہوا جوکہ مسلمانوں کی قوت وطاقت اورمال کی فراوانی اقتصادی مضبوطی کی شکل میں سامنے آئ ۔
اوراسلام اس تیزی سے پھیلا جوکہ اس کے حق ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے اورتاريخ وواقعات اس کے سب سے بڑے گواہ اوردلیل ہيں ، لیکن یہ سب کچھ اسے نظرآتا ہے جوتعصب کی عینک اتار کر اپنے دل سے انصاف کی نظردوڑاۓ اوریا پھراپنے کان اس طرف لگاۓ اور اپنے مزاج اورسوچ وتفکیر میں اعتدال پیدا کرے ۔
اوران سب میں نصیحت توصرف اس کےلیے ہے جس کا دل ہواوروہ اپنے کان بھی حق کےلیے استعمال کرے اورپھر وہ گواہ ہو ۔
اللہ تعالی ہی حق کی طرف راہنمائ کرنے والا ہے ، اوروہ ہمیں کافی ہے اوربہت ہی اچھا کارساز ہے ۔ .
ماخذ:
اللجنۃ الدائمۃ ( 12/284-297 )