ہم مغربى مسلمانوں كا ايك گروپ جرمنى ميں مقيم ہيں، اور ہمارے پاس سب نمازوں، جمعہ اور عيدين كى نمازيں ادا كرنے كے ليے ايك جگہ ہے جو ہم نے كرايہ پر حاصل كر ركھى ہے، – الحمد للہ – اس ميں نماز ادا كرنے والوں كى كثرت كى بنا پر جرمنى كى حكومت نے ہميں اس جگہ ميں نماز كى ادائيگى سے منع كر ديا ہے، كيونكہ يہ جگہ تنگ ہے اور غير مناسب جگہ پر واقع ہے، ہم نے شہر سے باہر ايك بہت بڑى جگہ خريدنے كا ارادہ كيا ہے، اور جرمنى كى حكومت بھى اس كى خريدارى پر موافق ہے، اس كى قيمت ساڑھے تين ملين مارك ہے، ليكن ہمارے پاس صرف ڈيڑھ ملين مارك كى رقم ہے، تو كيا يہ جگہ خريدنے كے ليے ہم بنك سے سود پر قرض لے سكتے ہيں؟ اور كيا يہ ضرورت ميں شامل ہو گا؟
اور اگر يہ سود كے ذريعہ خريدى جائے تو كيا اس شہر ميں نماز كے ليے اور جگہوں كى موجود ہونے كے باوجود اس ميں نماز ادا كرنا جائز ہو گى؟
اس بارہ ميں ہميں فتوى سے نوازيں اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.
سودى قرض سے مسجد كى خريدارى كا حكم
سوال: 10234
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
آپ لوگوں كے ليے سود پر قرض حاصل كرنا جائز نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے سود حرام كيا ہے، اور اس پر بہت شديد اور سخت قسم كى وعيد سنائى ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود خور، اور سود كھلانے والے، اور اس كے دونوں گواہوں، اور سود لكھنے والے پر لعنت فرمائى ہے.
سود كسى بھى حالت ميں حلال اور مباح نہيں، اور جس جگہ كى طرف آپ اشارہ كر رہے ہيں وہ جگہ نہ خريديں، ليكن اگر آپ لوگوں ميں اسے خريدنے كے ليے مالى استطاعت ہے تو پھر خريد ليں، ليكن سود پر قرض حاصل نہ كريں، اور آپ لوگ اپنى استطاعت كے مطابق سب اكٹھے ہو كر يا پھر عليحدہ عليحدہ جماعتوں ميں كئى ايك جگہوں ميں نماز باجماعت كا اہتمام كرتے ہوئے نماز ادا كريں.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے .
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 290 )