0 / 0

موسی علیہ السلام کے متعلق معلومات

سوال: 10242

ہم اللہ تعالی کے نبی موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کے متعلق کچھ معلومات چاہتے ہیں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اللہ تعالی نے موسی بن عمران علیہ السلام کی طرف وحی فرما‏ئ اور انہیں نبی بنا کر بنی اسرا‏ئیل کی طرف مبعوث کیا تا کہ وہ انہیں اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کی طرف دعوت دیں ۔

جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :

یاد رکھو جب ہم نے موسی علیہ السلام کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ تو اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال اور انہیں اللہ تعالی کے احسانات یاد دلا اس میں ہر ایک صبر وشکر کرنے والے کے لۓ نشانیاں ہیں

ابراہیم / 5

اور ھارون علیہ السلام جو کہ موسی علیہ السلام کے نسبی بھائ‏ ہیں انہیں بھی اللہ تعالی نے جب موسی علیہ السلام کو فرعون کی طرف نبی بنا کر بھیجنا چاہا تو موسی علیہ السلام کی طلب پر ان کا بازو بنا کر بھیجا جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے :

اور ہم نے اپنی خاص رحمت و مہربانی سے اس کے بھائ ھارون کو نبی بنا کر عطا کیا مریم / 53

_ اس وقت بنو اسرائیل مصر میں فرعون کی حکومت کے ماتحت ہو کے رہتے تھے اور فرعون نے انہیں ظلم و استبداد میں جکڑ رکھا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا اور لڑکوں کو قتل کروا دیتا تھا۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اور ان میں سے ایک فرقہ کو کمزور کر رکھا تھا اور ان کے لڑکوں کوتو ذبح کرڈالتا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑدیتا تھا بیشک وشبہ وہ تھا ہی مفسدوں میں سے القصص / 4

موسی علیہ السلام مصر میں پیدا ہوۓ اور اللہ تعالی نے چاہا کہ وہ فرعون کے گھر میں پرورش پا‏ئیں تو ان کی والدہ نے انہیں صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دیا ۔

آل فرعون نے انہیں اٹھا لیا اور فرعون کی بیوی آسیہ خوش ہو‏ئ اور انہیں اس کے قتل سے روک دیا جب موسی علیہ السلام پختہ عمر میں پہنچـے تو اللہ تعالی نے انہیں حکمت و علم سے نوازا ۔

ایک دن بنی اسرائیل کے ایک شخص نے موسی علیہ السلام سے اپنے دشمن کے خلاف مدد مانگی تو موسی علیہ السلام نے اسے مکہ مارا جس سے وہ مر گیا تو اس پر موسی علیہ السلام نادم ہوۓ اور اپنے رب سے بخشش طلب کی تو اللہ تعالی نے انہیں معاف کر دیا ۔

توموسی علیہ السلام شہر میں ڈرے ڈرے سے رہنے اور انتظار کرنے لگے اور دوسرے دن پھرموسی علیہ السلام نے اسی شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے دشمن سے لڑ رہا ہے تو اس نے دوبارہ موسی علیہ السلام سے مدد طلب کی تو موسی علیہ السلام اسے غصہ ہوۓ جس سے اس شخص نے یہ خیال کیا کہ وہ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں ۔

تو وہ کہنے لگا کیا جس طرح تو نے کل ایک شخص کو قتل کیا تھا مجھے بھی مارڈالنا چاہتے ہو القصص / 19

تو اس دشمن نے یہ خبر قوم فرعون کو دے دی اور وہ موسی علیہ السلام کوقتل کرنے کے لۓ‌ تلاش کرنے لگے تو ایک صالح اور نیک شخص نے آ کرموسی علیہ السلام کو قوم فرعون کےارادہ سے آگاہ کیا اور انہیں یہ نصیحت کی کہ وہ مصر سے نکل جائیں ۔

ارشاد باری تعالی ہے :

توموسی علیہ السلام وہاں سے خوفزدہ ہو کر دیکھتے بھالتے نکل کھڑے ہوۓ کہنے لگے اے میرے رب ! مجھے ظالموں کے گروہ سے بچا لے القصص21

اور موسی علیہ السلام مدین کی طرف چل نکلے اور وہاں جاکر آٹھ سال کی ملازمت کے بدلے ایک کریم اور اچھےشیخ کی بیٹی سے شادی کر لی جب مدت ملازمت پوری ہو‎ئ تو موسی علیہ السلام اپنی بیوی کو لیکر مصر روانہ ہوۓ جب طور سیناء پہنچے تو اللہ تعالی نے چاہا کہ وہ انہیں اپنی کرامت اور نبوت اور کلام کی خصوصیت سے نوازے تو موسی علیہ السلام راستے سے بھٹک گۓ اور آگ دیکھی ۔۔

{ تو اپنے گھر والوں کو کہنے لگے تم ذرا سی دیر ٹھر جا‌‎‎‌ؤ مجھے آگ دکھا‏‏ئ دی ہے بہت ممکن ہے کہ میں اس کا کوئ انگارہ تمہارے پاس لا‎ؤں یا آگ کے پاس سے راستے کی اطلاع پا‎‎ؤں جب وہ وہاں پہنچے تو آواز دی گئ اے موسی ، یقینا میں ہی تیرا رب ہوں تو اپنی جوتیاں اتار دے کیونکہ تو پاک میدان طوی میں ہے ، اور میں نے تجھے منتخب کر لیا ہے اب جو وحی کی جاۓ گی اسے کان لگا کر سن ، بیشک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا اور کو‎ئ عبادت کے لا‏ئق نہیں تو تو میری ہی عبادت کر اور میری یاد کے لۓ نمازقا‎ئم رکھ ، یقینا قیامت آنے والی ہے جسے میں پوشیدہ رکھنا چاہتاہوں تاکہ ہر شخص کووہ بدلہ دیا جا‎ۓ جو

اس نے کوشش کی ہو } طہ / 10-15

پھر اللہ تعالی نے کچھ معجزات دکھانے چاہے تو اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنی لاٹھی زمین پر رکھیں تو وہ زمین پر رکھتے ہی سانپ بن گئ ،،، اوریہ کہ وہ اپنا ھاتھ بغل میں ڈالیں تو وہ چمکتا ہوا نکل آیا ،، پھر اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کوفرمایا یہ دونوں معجزے لے کر فرعون کے پاس جا‎ؤ ہو سکتا ہے کہ وہ نصیحت حاصل کرلے یا ڈر جاۓ کیونکہ وہ سرکشی اورفساد کی حدیں پھلانگ چکاہے ۔

اور اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کے ساتھ ان کے بھائ ھارون علیہ السلام کوبھی نبی بناکر بھیجا جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں مذکور ہے :

آپ دونوں فرعون کے پاس جائیں بے شک وہ حد سے گذر چکا ہے ، تو اس سے نرم گفتگو کریں شائد کہ وہ نصیحت قبول کرلے یا اس کے دل میں اللہ تعالی کا ڈر پیدا ہو جاۓ ، دونوں نے کہا ، اے ہمارے رب ! ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہم پر زیادتی نہ کر جاۓ یا تیرے حق میں مزید سرکشی نہ کرنے لگے ، اللہ تعالی نے کہا تم دونوں ڈرو نہیں ، بے شک میں تم دونوں کے ساتھ ہوں سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہوں ، لہذا تم دونوں اس کے پاس جا‎ؤ اور کہو کہ ہم دونوں تمہارے رب کے رسول ہیں ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو جانے دو ، اور انہیں عذاب و تکلیف سے دوچار نہ کرو ہم تمہارے پاس تمہارے رب کا معجزہ لے کر آۓ ہیں ، اور سلامتی اس آدمی پر ہو جو راہ حق کی پیروی کرے طہ / 43 – 47

_ تو موسی اور ھارون علیہما السلام فرعون کے پاس گۓ اور اسے پیغام پہنچایا ، اور فرعون نے موسی علیہ السلام سے سوال کیا < اور فرعون کہنے لگا رب العالمین کون ہے ؟ موسی علیہ السلام نے کہا ، وہ آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان پائ جانے والی تمام مخلوقات کا رب ہے ، اگرتمہیں اس بات کا یقین ہو ، > الشعراء / 23

پھر فرعون نے موسی علیہ السلام سے ان کے صدق کی دلیل مانگی ، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

فرعون نے کہا ، اگر تم کوئ نشانی لے کر آۓ ہو تو اسے ظاہر کرو ، اگر سچے ہو ، تو موسی علیہ السلام نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دی اور وہ ایک اژدہا بن کر ظاہر ہوگئ اور اپنا ھاتھ باہر کیا تو وہ دیکھنے والوں کو سفید چمکتاہوا نظر آنے لگا الاعراف /

جب فر عون اور اس کے درباریوں نے یہ کچھ دیکھا تو موسی علیہ السلام جادو کی تہمت لگائ اور ان کے مقابلے میں جادوگروں کومال ودولت دے کر اکٹھا کرلیا اور پھر لوگوں کوبھی ان کے قومی تہوار پر اکٹھا کرلیا تو جادوگروں نے اپنا جادو دکھانے کے لۓ اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں ۔۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوۓ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

جب انہوں نے اپنا جادر پیش کیا تو لوگوں کی آنکھوں کو مسحور کردیا اور ان کے دلوں میں رعب پیدا کر دیا اور انہوں نے بڑا جادو پیش کیا الاعراف / 116

اس کے بعد اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کی جادو گروں کے مقابلہ میں مدد فرما‏ئ اور ان کی تدابیر کو باطل کر کے رکھ دیا تو جادو گر اللہ رب العالمین پر ایمان لے آۓ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :

اور ہم نے موسی علیہ السلام کو بذریعہ وحی کہا کہ اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دو ، تو وہ دیکھتے ہی دیکھتے جادو گروں کے جھوٹ کو نگل گئ ، تو حق ثابت ہوگیا اور جادوگروں کا عمل بے کار ہوگیا ، چنانچہ وہ سب مغلوب ہو کررہ گۓ اور انہیں ذلت ورسوائ کا سامنا کرنا پڑا ، اور جادو گر سجدہ میں گر گۓ انہوں نے کہا ہم رب العالمین پر ایمان لے آۓ ، جو موسی اور ھارون علیہما السلام کا رب ہے الاعراف / 117- 122

اور جب جادوگر اللہ تعالی پر ایمان لے آۓ تو فرعون نے جادرگروں کے الٹے ھاتھ پا‎ؤں کاٹ کر سولی پر لٹکا دیا ، لیکن وہ ان سب تکلیفوں کوبرداشت کرتے ہو‎ۓ اسلام کی حالت میں ہی اللہ تعالی سے جاملے اور اس کی کسی دھمکی کی پرواہ تک نہ کی ، پھر قوم فرعون کے بڑے بڑے لوگوں نے فرعون کویہ مشورہ دیا کہ وہ موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو قتل کردے تاکہ وہ زمین میں فساد نہ کریں ۔

تو انہوں نے بچوں کوقتل کرنا شروع کردیا اور لڑکیوں کوزندہ چھوڑ دیا تو موسی علیہ السلام نے اس پر بنو اسرائیل کو صبر کرنے کی وصیت کی اس کے بعد فرعون نے موسی علیہ السلام کے لۓ تنگی پیدا کردی اور موسی علیہ السلام کے قتل کا منصوبہ بنایا اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے :

اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑ دو میں موسی کو قتل کردوں ، اور وہ اپنے رب کو بلا لے ، مجھے ڈر ہے کہ وہ تمہارے دین کوبدل کر رکھ دے گا ، یا ملک میں فساد پیدا کردے گا غافر / 26

اورجب وہ موسی علیہ السلام کے قتل میں سوچ رہے تھے تو آل فرعون میں سے ایک مومن شخص جو کہ اپنا ایمان چھپاۓ ہوۓ تھا کو اس کے ضمیر نے جھنجھوڑا تو وہ موسی علیہ السلام کا دفاع کرتے ہوۓ کہنے لگا اگر وہ جھوٹا ہے تو ہمیں کوئ نقصان نہیں دے سکتا ، اور اگر وہ سچا ہے تو جس چیز کا وہ تمہارے ساتھ وعدہ کررہا ہے وہ آپہنچے گا اور ا س شخص نے فرعون اور اس کی قوم کو نصیحت میں کوئ کمی نہ چھوڑی لیکن انہوں نے اس کی بات نہ مانی اسی کی طرف اشارہ فرماتے ہوۓ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

فرعون نے کہا میں تو تمہیں وہی سجھا رہا ہوں جو میں مناسب سمجھ رہا ہوں ، اور میں تو تمہیں وہ راہ دکھا رہا ہوں جسے اختیار کرنے میں ہی تمہاری خیر ہے غافر / 29

اور موسی علیہ السلام فرعون اور اس کی قوم کو اچھے طریقے سے وعظ و نصیحت کرتے رہے لیکن اس کے باوجود وہ زمین میں فساد کرنے سے باز نہ آۓ اور نہ ہی وہ مومنوں کوتکالیف دینے سے ہی رکے ، تو موسی علیہ السلام نے ان کے لۓ بد دعا کی تو اللہ تعالی نے اقوم فرعون کو قحط سالی اور خشک سالی سے دوچار کردیا اور پھلوں میں بھی کمی کردی شائد کہ وہ نصیحت حاصل کریں لیکن انہوں نے پھر بھی اطاعت نہ کی بلکہ وہ اپنے جرائم اور سرکشی پر ڈٹے رہے تو اللہ تعالی نے انہیں مختلف قسم کے مصائب میں مبتلا کردیا شائد کہ وہ پلٹ آئیں اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں :

اور فرعونیوں نے کہا کہ تم چاہے جو نشانی لے آ‎ؤ ، تاکہ اس کا جادو ہم پر کرو ، ہم لوگ تم پر ایمان لانے والے نہیں ہیں ، تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈیوں اور جؤوں اور مینڈکوں اور خون کا عذاب کھلی اور واضح نشانیوں کے طور پر بھیجا ، پھر بھی انہوں نے تکبر کیا ، اور وہ تھے ہی مجرموں کی جماعت الاعراف / 132 – 133

جب فرعون کی سرکشی بڑھ گئ تو حکم الہی سے مصائب سے نجات کا وقت آیا تو اللہ تبارک وتعالی نے موسی علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ بنو اسرائیل کومصر سے چوری چھپے نکال ليں ۔

فرعون کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے موسی علیہ السلام اور انکی قوم کوپکڑنے کے لۓ بہت بڑا لشکر اکٹھا کیا قبل اس کےکہ وہ فلسطین پہنچ جائیں ، فرعون اور اس کا لاؤ لشکر اپنے پیچھے مال ودولت اور محلات وباغات چھوڑ کر موسی علیہ السلام اوران کی قوم کے پیچھے نکلے اور انہیں طلوع شمس کے وقت بحر احمرکے ساحل کے پاس جالیا تو اللہ تبارک وتعالی نے موسی علیہ السلام اور انکی قوم کو نجات دی اور فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کو غرق کردیا جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :

اورہم نے موسی علیہ السلام کو بذریعہ وحی حکم دیا کہ آپ ہمارے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جایۓ ، اس لۓ کہ آپ لوگوں کا پیچھا کیا جاۓ گا ، اس کے بعد فرعون نے (فوج جمع کرنے کے لۓ ) شہروں ميں اپنے نمائندے بھیج دیۓ ، اس پیغام کے ساتھ کہ بنی اسرائیل (ہمارے مقابلے میں ) بہت تھوڑی میں ہیں ، اور انہوں نے ہمارے غیظ وغضب کوبھڑکا دیا ہے ، اور ہم سب پورے طور پر چوکنا اور دشمن کے مقابلے لۓ تیار ہیں ، پس ہم نے انہیں (اس طرح ) ان کے باغات اور چشموں اور خزانوں اور عالی شان مکانات سے نکال باہر کیا ، ہم نے ان کے ساتھ ایسا کیا ، اور ان تمام چیزوں کا مالک بنی اسرا‏ئیل کوبنا دیا ، تووہ لوگ صبح کے وقت ان کے قریب پہنچ گۓ ، جب دونوں جماعتیں ایک دوسرے کونظر آنے لگیں ، تو موسی علیہ السلام کے ساتھیوں نے کہا ، اب ہم یقینا پکڑ لۓ گۓ ، موسی علیہ السلام نے کہا ، ایسا ہر گز نہیں ہوگا ، بےشک میرا رب میرے ساتھ ہے ، ،وہ ضرور میری مدد کرے گا ،تو ہم نے موسی علیہ السلام کو بذریعہ وحی کہا کہ آپ لاٹھی سمندر کے پانی پر ماریۓ ( انہوں نے ایسا ہی کیا ) اورسمندر (دو حصوں میں ) پھٹ گیا اور ہرایک حصہ ایک بڑے پہاڑ کی مانند ہوگیا ، اور ہم دوسروں کوبھی اس کے قریب لے آۓ ، اور موسی علیہ السلام اور ان کے تمام ساتھیوں کو ہم نے بچا لیا ، پھر دوسروں کوڈبو دیا ، یقینا اس واقعہ میں ایک نشانی ہے لیکن اکثر مشرکین ایمان لانے والے نہیں ہیں ، اور بے شک آپ کا رب بڑی عزت والا بے حد مہربان ہے الشعراء / 52 – 68

تو اس طرح فرعون اور اس کا لاؤ لشکر ہلاک ہو ا اور جب وہ غرق ہونے

لگا تو ایمان لے آیا لیکن یہ ایمان اسے کچھ بھی فائدہ نہ دے سکا ، اور اللہ تعالی نے اس کا بدن باقی رکھا تاکہ اس کے بعد آنے والوں کے لۓ نشان عبرت ہو ، دنیا میں آل فرعون کوسمندر میں غرق کرکے سزا دی گئ اور آخرت میں ان کے لۓ شدید ترین عذاب ہوگا اسی چیز کا ذکر کرتے ہوۓ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

اور فرعونیوں کو برے عذاب نے گھیرلیا،وہ لوگ صبح وشام نار جہنم کے سامنے پیش کۓ جاتے ہیں ، اورجس دن قیامت آۓ گی ، اللہ تعالی فرماۓ گا فرعونیوں کو سب سے سخت عذاب میں داخل کرو غافر / 46-47

اوربنو اسرائیل نے موسی علیہ السلام کے معجزات دیکھے جن میں سے آخری معجزہ بنواسرائیل کی نجات اور ان کے دشمن فرعون اور اس کے لا‎ؤ لشکر کی ہلاکت تھی اور یہ سب معجزات بنو اسرائیل کے دلوں میں سے بت پرستی کی جڑکو اکھیڑنے کے لۓ کافی تھے مگر یہ کہ بعض اوقات ان کی بت پرستی کی رگ پھڑک اٹھتی تھی ، اور موسی علیہ السلام کو انہیں اللہ وحدہ کی عبادت کی طرف لانے میں بہت تگ ودو کرنی پڑی اور بہت سے ادوار میں سے گذرنا پڑا اسی میں سے یہ بھی ہے :

بنواسرائیل نے سمندر کراس کیا تو ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرے جو بت پرست تھی ، تو انہوں نے موسی علیہ السلام سے بت طلب کیا تاکہ وہ بھی ان کی طرح بت کی عبادت کریں تو موسی علیہ السلام نے انہیں کہا :

واقعی تم لوگ بالکل نادان ہو ، بے شک یہ لوگ جس دین پر ہیں وہ تباہ کردیا جاۓ گا ، اور ان کا تمام کیا دھرا بے کار ہو جاۓ گا موسی علیہ السلام نے کہا کیا میں تمہارے لۓ اللہ تعالی کے علاوہ کوئ اورمعبودڈونڈھ لا‎ؤں حالانکہ اس نے تمہیں سارے جہان پر فضیلت دی ہے الاعراف / 138 – 140

اور جب بنو اسرائیل بیت المقدس کی طرف چلے تو راستے میں انہیں پیاس نے آلیا جس کی انہوں نے موسی علیہ السلام سے شکایت کی تو موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے دعا کی تو اللہ عزوجل نے انہیں پانی پلایا اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

اور جب موسی علیہ السلام سے ان کی قوم نے پانی کا مطالبہ کیا ، تو ہم نے انہیں بذریعہ وحی بتایا کہ اپنی لاٹھی پتھر پر ماریۓ ، چنانچہ اس سے بارہ چشمے ابل پڑے ، توتمام لوگوں نے اپنے گھاٹ پہچان لۓ الاعراف /

اورانہوں نے راستے میں ہی سورج کی گرمی اور کھانے کی قلت کی شکایت کی تو موسی علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالی سے دعا کی تو اللہ تعالی نے ان پر بادلوں سے سایہ کیا ، اور انہیں اچھی اچھی اشیاءکا رزق عطا کیا لیکن انہوں نے اس پرشکر ادا نہیں کیا بلکہ اس کے علاوہ اور کچھ بھی طلب کیا اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے :

اور ہم نے ان پر بادل کا سایہ کردیا ، اور ان پر من وسلوی اتارہ ، اور کہا کہ ہم نے تمہیں جو اچھی چیزیں بطور روزی دی ہیں انہیں کھا‎ؤ ، اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا ،بلکہ خود اپنے حق میں ظلم کیا ہے الاعراف / 160

اسکے بعد پھر وہ شکایت کرنے لگے اور کہنے لگے :

ہم توایک کھانے پرہرگز صبر نہیں کریں گے ، اس لۓ اپنے رب سے دعا کیجۓ کہ وہ ہمارے لۓ وہ چیزیں پیدا کرے جو زمین اگاتی ہے یعنی ساگ ، ککڑی ، گندم ، مسور ، اور پیاز البقر‏ۃ /

اور اللہ عزوجل نے موسی علیہ السلام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ان پر کتاب نازل کرے گا جس میں بنواسرائیل کے لۓ اوامر و نواہی ہونگے ، تو جب فرعون ہلاک ہوگیا تو موسی علیہ السلام سے کتاب کا سوال کیا تو اللہ عزوجل نے موسی علیہ السلام کو چالیس دن روزے رکھنے کا حکم دیا تو موسی علیہ السلام نے اپنے بھائ ھارون علیہ السلام کو اپنی قوم میں خلیفہ بنایا اوران دنوں کے ررزے رکھے ۔

پھر اللہ عزوجل نے کوہ طورکے پاس موسی علیہ السلام پر تورات نازل فرمائ جس میں وعظ ونصیحت اور ہر چیزکا بیان تھا ، اور جب موسی علیہ السلام اپنی قوم میں واپس آۓ تو انہیں بچھڑے کی عبادت کرتے ہوۓ پایا جسے سامری نے زیورات سے ان کے لۓ تیار کیااور انہیں یہ کہا کہ تمہارا اور موسی علیہ السلام کا الہ تو یہ ہے ، ارشاد باری تعالی ہے :

پھرسامری نےان کے لۓ ( ان زیورات سے ) ایک بچھڑے کا جسم بنا کر نکالا جس سے گاۓ کی آواز نکلتی تھی ، تو سامری کے پیروکاروں نے کہا یہی تمہارامعبود ہے اور موسی علیہ السلام کابھی لکین موسی علیہ السلام بھول گۓ ہیں ، کیا وہ دیکھتے نہیں کہ وہ بچھڑا ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتااورنہ انہیں نفع یا نقصان دینے کی قدرت رکھتا ہے ، اور ھارون علیہ السلام نے تو انہیں اس سے پہلے خبردار کردیا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو ! تم بچھڑے کے ذریعے فتنہ میں پڑ گۓ ہواور بے شک تمہارا رب رحمن ہے پس تم لوگ میری پیروی کرو اور میرا حکم مانو ، سامریوں نے کہا ، ہم تو اسی بچھڑے کی عبادت پر جمے رہیں گے حتی کہ موسی علیہ السلام ہمارے پاس لوٹ کر آجائیں طہ / 88 – 91

تو جب موسی علیہ السلام واپس آۓ تو انہیں غصہ ہوۓ اور انہیں ملامت کی اور انہیں حق بیان کیا ، اور پھربچھڑے کو جلا کرراکھ کردیا اور اسے سمندر میں پیھنک دیا ، اور سامری کو سزا دی تو سامری کسی بھی چیز کے لمس سے تکلیف محسوس کرتا تھا ۔

بنواسرائیل بچھڑے کی عبادت کرنے پر نادم ہوۓ تو موسی علیہ السلام نے ان میں سے ستر آدمی اختیار کۓ اورانہیں کوہ طورلے گۓ تاکہ وہ اللہ تعالی کی اطاعت کریں اور اپنے کۓ کی ندامت کا اظہار کریں ، تو اس وقت اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے کلام کی لیکن ان میں سے بعض اس پر ایمان نہ لاۓ کہ موسی علیہ السلام سے کلام کرنے والا اللہ تعالی ہی ہے اور نافرمانی کی اور یہ کہنے لگے کہ ہم اللہ تعالی کو اپنے سامنے دیکھنا چاہتیں ہيں اسی کا ذکر اس فرمان ربانی میں ہے :

اور جب تم نے موسی علیہ السلام سے کہا کہ ہم تو تم پر ہرگز ایمان نہیں لائيں گے جب تک اللہ تعالی کو سامنے نہ دیکھ لیں ، تو دیکھتے ہی دیکھتے کڑک اور گرج والی آگ نے تمہیں پکڑ لیا پھر ہم نے تمہاری موت کے بعد تم کو زندہ کیا ، تاکہ تم شکرگزار بنو البقرۃ / 55 – 56

اور جب موسی علیہ السلام بنواسرائیل میں تورات لے کرواپس آۓ تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے ہی انکار کردیا اوراس کےاحکام سے کنی کترانے لگے تو موسی علیہ السلام کے ڈرانےاور دھمکانے پراسے قبول کیا جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :

اورجب ہم نے تم سے عہدلیا ، اورطور پہاڑکو تمہارے اوپر اٹھایا (اورکہاکہ ) ہم نے تمہیں جودیا ہے اسے مضبوطی کے ساتھ تھام لو ، اور اس میں جوکچھ ہے اسے یاد کرو تاکہ ( اللہ تعالی سے ) ڈرو ، پھر اس کے بعد تم (اپنے عہدسے ) پھر گۓ ، تو اگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوتے البقرۃ / 63 – 64

پھر موسی علیہ السلام نے بنو اسرائیل کو یہ حکم دیا کہ وہ ان کے ساتھ ارض مقدس فلسطین میں چلیں تو وہ ان کے ساتھ چل پڑے اور پھر اھل فلسطین جوکہ سخت تھے ان سے ڈر گۓ اور موسی علیہ السلام کی نافرمانی کی اور سرکشی کرنے لگے ، اس کاذکر اس آیت میں ہے :

ان لوگوں نے کہا ، اس موسی جب تک وہ لوگ وہاں رہیں گے ہم لوگ کبھی بھی وہاں نہیں جائیں گے ، تم اور تمہارا رب دونوں جا کر جنگ کروہم تو یہاں بیٹھے رہیں گے المائدۃ / 24

تو موسی علیہ السلام نے ان کے لۓ بد دعا کی تو اللہ تعالی نے اس دعا کو شرف قبولیت بخشا اور انہیں یہ خبر دی کہ ارض مقدس ان کے لۓ حرام ہے ، اور رہ کہ وہ زمین میں چالیس سال تک گھومتے پھریں گے تو ان پر غمزدہ نہ ہوں ۔

فرمان باری تعالی ہے :

موسی علیہ السلام نے کہا ، اے میرے رب ! مجھے اپنے بھائ اور اپنے علاوہ کسی پر اختیار حاصل نہیں ہے ، پس تو ہمارے اور نافرمانوں کے درمیان فیصلہ کردے ، اللہ تعالی نے فرمایا ، تو وہ زمین چالیس سال تک کے لۓ ان کے لۓ حرام کردی گئ ہے وہ لوگ زمین میں سرگرداں پھرتے رہیں گے ، پس ان نافرمانوں پر افسوس نہ کریں الما‏ئدۃ / 25 – 26

تو اس طرح موسی علیہ السلام نے بنو اسرائیل کی ملامت اور ان کے شکوہ شکایت کی کثرت پر صبر کیا اور ان چالیس سالوں میں ھارون علیہ السلام کی وفات بھی ہوئ اور پھر موسی علیہ السلام بھی اللہ تعالی سے جاملے اور بنو اسرائیل کی اکثریت بھی فوت ہو گئ ۔

اورجب یہ مدت ختم ہوئ تو یوشع بن نون علیہ السلام انہیں لے کر ارض مقدس میں داخل ہوۓ اور اس کا محاصرہ کیا حتی کہ اسے فتح کرلیا، اور انہیں یہ حکم دیا کہ وہ ارض مقدس میں سجدہ کرتے ہوۓ داخل ہوں لیکن انہوں نے اس پر عمل نہ کیا اور وہ اپنے سرینوں کے بل داخل ہوۓ ۔

اور اللہ عزوجل نے بنو اسرا‏ئیل کو بہت عظیم نعمتوں سے نوازا اور انہیں فرعون سے نجات دلائ ، اور انہیں اچھا اور طیب رزق دیا اور ان میں انبیاء اور بادشاہ پیدا کۓ ، اور انہیں سب جہانوں والوں پر فضیلت دی لیکن اس کے باوجود انہوں نے ان سب نعمتوں کا کفر اور ناشکری کی اور اللہ تعالی کا شکر ادا نہیں کیا ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اور یاد کرو جب موسی علیہ السلام نے اپنی قوم کو کہا اے میری قوم ! تم اپنے اوپر اللہ تعالی کے احسان یاد کرو کہ اس نے تم میں انبیاء پیدا کۓ اور تمہیں بادشاہ بنایا ، اور تمہیں وہ کچھ دیا جو جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا المائدۃ / 20

اور یہودیوں کے برے اقوال اور خبیث قسم کے افعال ہیں جن کی وجہ سے وہ لعنت کے واجب ٹھرے اور اللہ تعالی کے غیض وغضب کا شکار ہوۓ ، ان اقوال و افعال میں سے کچھ کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے :

_ انہوں نے اللہ تعالی پر بخل کی تہمت لگائ :

اوریہود نے کہا کہ اللہ تعالی کا ہاتھ بندھا ہوا ہے ، انہی کے ہاتھ (ان کی گردن کے ساتھ ) باندھ دیۓ گۓ ہیں ، اور ان کے اس قول کی وجہ سے ان پر لعنت بھیج دی گئ ہے بلکہ اللہ تعالی کے دونوں ہاتھ کھلے ہو ۓ ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتاہے المائدۃ / 64

_ اور انہوں نے اپنے اس قول ساتھ کفر کا ارتکاب کیا جوکہ بہتان عظیم ہے :

اور اللہ تعالی نے یقینا ان لوگوں کی بات سن لی جنہوں نے یہ کہا کہ بے شک اللہ تعالی فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں آل عمران / 181

_ اللہ تعالی انہیں تباہ وبرباد کرے وہ کہاں الٹے جارہے ہیں انہوں نے اللہ تعالی کی طرف اولاد کی نسبت کرڈالی :

اور یہودیوں نے یہ کہا کہ اللہ تعالی کی اولاد ہے التوبۃ / 30

_ اورجب انہیں تورات پہنچی تو اس کے بہت سارے احکام کا انہوں نے انکار کردیا ،، اور اللہ تعالی کے راستے سے روکا ، ظلم کومباح کرلیا تو اللہ تعالی نے انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے سزا دی ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

پس یہود کے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر کچھ حلال چیزوں کوحرام کردیا جو ان کے لۓ پہلے حلال کی گئی تھیں اور اس وجہ سے کہ انہوں نے بہتوں کواللہ تعالی کی راہ سے روکا اورسود لیا حالانکہ انہیں اس سے روکا گیا تھا اورلوگوں کا مال ناحق کھایا اور ہم نے ان میں سے کفر کرنے والوں کے لۓ ایک درد ناک عذاب تیار کررکھا ہے النساء / 161

_ اور ان کے بہتانوں میں سے ان کا یہ قول بھی ہے کہ ہم اللہ تعالی کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں ۔

ارشاد باری تعالی ہے :

اوریہود ونصاری کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں آپ کہہ دیجۓ کہ پھر وہ تمہیں تمہارے گناہوں کی وجہ سے عذاب کیوں دیتاہے بلکہ تم بھی اس کے پیدا کۓ ہوۓ انسان ہو المائدۃ / 18

_ اور ان کے کذب وبہتان میں سے ان کا یہ قول بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں ۔

ارشاد باری تعالی ہے :

اوروہ لوگ کہتے ہیں کہ جنت میں وہی داخل ہوگا جو یہودی یا نصرانی ہوگا ، یہ ان کی من مانی تمنائیں ہیں آپ کہہ دیجۓ کہ اگر تم سچے ہوتو اپنی دلیل لاؤ البقرۃ / 111

_ اورانکے افتراء اورکذب میں سے ان کا یہ بھی قول ہے :

اورانہوں نے کہا کہ ہمیں چند دن سے زیادہ ہرگز آگ نہیں چھوۓ گی، آپ کہہ دیجۓ کہ کیا تم نے اللہ تعالی سے کوئ عہد وپیمان لے لیا ہے کہ اللہ اس کے خلاف نہ کرے گا یاتم اللہ تعالی کے بارہ میں وہ کہتے ہو جو تم نہیں جانتے البقرۃ / 80

_ اور ان کے مکرو خیانت میں سے یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب تورات میں تحریف کرتے تھے ، اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے :

بعض یہودی کلمات کوان کی جگہ سے ہٹا کران میں تحریف کرتے ہیں النساء / 46

_ اوران کے جرائم میں سے یہ بھی ہے کہ ، وہ اللہ تعالی کی آیات کے ساتھ کفر اور اللہ تعالی کے انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے ، تو اللہ تعالی نے انہیں ان کے گناہوں کی سزادی جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

اوران پرذلت ومحتاجی مسلط کردی گئ اور وہ اللہ تعالی کے غضب کے مستحق ہوۓ ، یہ اس لۓ کہ وہ لوگ ہمیشہ اللہ تعالی کی آیتوں کوجھٹلاتے رہے اورانبیاء کوناحق قتل کرتے رہے ، یہ اس لۓ کہ وہ اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے تھے اور اس کی حدود سے تجاوز کرتے تھے البقرۃ / 61

_ اوراس لۓ کہ یہودیوں کے بہت ہی زیادہ ظلم وبہتان ترازیاں اوربرے اعمال اور انکا زمین میں فساد کرنے کے سبب سے اللہ تعالی نے ان کے درمیان آپس میں ہمیشہ ہمیشہ اورقیامت تک کے لۓ دشمنی اور عداوت اور بغض وعناد ڈال دیا ہے ۔

فرمان باری تعالی ہے :

اورہم نے روز قیامت تک کے لۓ ان کی آپس میں دشمنی اور بغض وعناد پیدا کردی ہے ، جب بھی وہ جنگ کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں اللہ تعالی اسے بجھا دیتا ہے ، ان کا تو کام ہی زمین میں فساد پھیلانا ہے ، اور اللہ تعالی فساد بپاکرنے والوں کو پسند نہیں کرتا المائدۃ / 64

_ اوریہودی لوگوں میں سے بزدل ترین انسان ہیں ، اور ان کے دل ایک دوسر ے سے مختلف ہيں ، اوران کی خواہشات بھی ہرایک سے جدا ہیں ۔

فرمان باری تعالی ہے :

یہودی اورمنافق لوگ تم سے اکٹھے ہو کر جنگ نہیں کریں گے ، مگر قلعہ بند بستیوں میں چھپ کر یا پھر دیواروں کی آڑ لے کر ، آپ انہیں اکٹھا سمجھتے ہیں لیکن ان کا آپس میں شدید اختلاف ہے ، حالانکہ ان کے دل ایک دوسرے سے مختلف ہیں ایسا اس لۓ ہے کہ وہ بے عقل لوگ ہیں الحشر / 14

اوریہودی مومنوں کے سب سے بڑے اور جانی دشمن ہیں ، اور یہودی موت کوناپسند کرتے اور اس سے بھاگتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ موت کے بعدان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ۔

جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے اس ارشاد میں ذکرفرمایا ہے :

اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجۓ کہ ، اے قوم یہود ! اگر تمہارہ خیال ہے کہ تمام لوگو ں کے سوا صرف تم ہی اللہ کے دوست ہوتو اپنی موت کی تمنا کرو ، اگر تم اپنے دعوی میں سچے ہو ، اوروہ کبھی بھی اپنے مرنے کی تمنا نہیں کریں گے ان بد اعمالیوں کی وجہ سے جو وہ کرچکے ہیں اور اللہ تعالی ظالموں کوخوب جانتا ہے الجمعۃ /

اوریہودی اپنی ضلالت وگمراہی اور فساد و سرکشی اورتحریف پر قائم رہے اوراللہ تعالی نے بنواسرائیل میں بہت سے انبیاء اور رسول بھی مبعوث کیۓ تا کہ انہیں صراط مستقیم کی طرف واپس لایا جاسکے ، تو ان میں کچھ تو مومن ہو گۓ اور کچھ نے کفر کیا حتی کہ ان میں اللہ تعالی نے عیسی بن مریم علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ۔ .

ماخذ

شیخ محمد بن ابراہیم التویجری کی کتاب : اصول الدین الاسلامی سے لیا گیا ہے ۔

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android