تين ماہ قبل ميرا ايك نوجوان كے ساتھ عقد نكاح ہوا، اس كے متعلق بہت سارے شبہات پائے جاتے تھے، ليكن ميں اس نوجوان كے ساتھ كھڑى ہوئى كيونكہ اس ميں ايك دين والى لڑكى سے مرتبط رہنے كى سچى رغبت پائى جاتى تھى، ميں نے سوچا كہ ہو سكتا ہے ميں اس كے ثابت قدم ہونے اور اطاعت ميں ايك دوسرے كے معاونت كا سبب بن جاؤں، اور نيك و صالح اولاد كى تربيت كا باعث بنوں.
ميرے كہنے پر ہى ميرے گھر والے اس كے ساتھ نكاح كرنے پر راضى ہوئے، اور عقد نكاح كے ايك ہفتہ بعد اس نے كہا كہ ميں جماع كيے بغير لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں، تو ميں اس ليے راضى ہو گئى كہ اب ميں اس كى بيوى ہوں اور بالفعل اس نے ميرے جسم كے ساتھ دو بار لطف اندوزى كى.
اور اس دوران ہى انكشاف ہوا كہ ميرے جسم ميں خلقى عيب ہے يعنى فرج كى شكل ميں كوئى عيب پايا جاتا ہے ـ ميں اللہ كو گواہ بنا كر كہتى ہوں كہ مجھے اس كا علم بھى نہيں تھا ـ اس نے مجھ سے عليحدگى طلب كى كيونكہ وہ مجھ سے نفرت سى محسوس كرنے لگا تھا، اور مستقبل ميں مجھے سعادت و خوشى دينے سے قاصر محسوس كرنے لگا، يا پھر كسى دوسرى عورت سے شادى كر ليتا.
ہم دونوں ليڈى ڈاكٹر كے پاس گئے اور ڈاكٹر نے كہا يہ عيب شمار نہيں ہوتا، بلكہ صرف بناوٹ ميں اختلاف پايا جاتا ہے جس طرح ايك شخص كا چہرہ دوسرے شخص كے چہرے سے مختلف ہوتا ہے يہ بھى اسى طرح ہے، اور اس كو ايك چھوٹے سے آپريشن كے ذريعہ خوبصورت بنايا جا سكتا ہے، اور پھر يہ نہ تو استمتاع پر اثرانداز ہوتا ہے اور نہ ہى اولاد پيدا كرنے پر.
ليكن اس كے باوجود ميرا خاوند طلاق دينے پر مصر رہا اور مجھے ايك حديث لكھ كر دى كہ:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بنو غفار قبيلہ كى ايك عورت سے شادى كى اور جب اس كے پاس گئے تو اس كے پہلو ميں سفيدى ديكھى تو فرمايا كپڑے پہن لو اور اپنے ميكے چلے جاؤ ”
اور طلاق ہو گئى ميں نے اس كا سارا مہر بھى واپس كر ديا اور بعد ميں ديا جانے والا بھى معاف كر ديا…..
حالانكہ طلاق كو ڈيڑھ ماہ گزر چكا ہے ليكن ميں اب تك غمزدہ اور پريشان ہوں، اور اس وقت تك ميرے آنسو نہيں ركے… اب تو ميں اپنے ارد گرد اشخاص پر بھروسہ بھى كھو چكى ہوں، اور اپنے اندر موجود عيب كى وجہ سے نقص محسوس كرتى ہوں، ميرا سوال يہ ہے كہ:
اس نے جو قصہ ارسال كيا ہے كيا واقعى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ پيش آيا تھا ؟
ميرا ايمان اور يقين ہے كہ ہمارے رسول صلى اللہ عليہ وسلم بڑے اعلى اخلاق كے مالك تھے، چاہے يہ واقعہ صحيح ہے يا باطل آپ اخلاق اعلى كے مالك تھے….
كيا ميرے خاوند نے مجھے اس سخت حالت ميں اپنى شہوت كى وجہ سے چھوڑ كر مجھ پر ظلم كيا ہے، اور ميرے ساتھ نہيں كھڑا ہوا ؟
كيا خاوند كو حق حاصل ہے كہ بيوى كے جسم ميں كوئى ايسى چيز ديكھ لے جو اسے پسند نہ ہو تو وہ بيوى كو چھوڑ دے ؟
ميں ايك اور چيز سوچتى ہوں كہ ميرے خاوند يا مجھے طلاق دينے والے ميرے ساتھ دخول كيا ہے يا نہيں ؟ كيونكہ ہم نے تو قاضى كو يہى بتايا ہے كہ دخول نہيں ہوا، كيونكہ پردہ بكارت ختم نہيں ہوا ؟
عقد نكاح كرنے كے بعد بيوى ميں عيب ديكھ كر طلاق دے دى
سوال: 102636
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ہمارى دعا ہے كہ اللہ تعالى آپ كو اس كا نعم البدل عطا فرمائے، اور آپ كے ايمان اور صبر و رضا ميں زيادتى فرمائے، ہم كہتے ہيں كہ:
آپ اللہ كى نعمت اور اس كے فضل پر شكر ادا كريں، كيونكہ آپ كو علم نہيں خير كس ميں پنہاں ہے، ہو سكتا ہے آپ كا اس خاوند سے عليحدہ ہونے ميں ہى بڑى خير ركھى ہو، ليكن يہ چيز آپ كى شخصيت پر اثرانداز نہيں ہونى چاہيے، اور نہ ہى آپ كے عزم ميں كمزورى پيدا ہو، بلكہ اس تجربہ سے مستقبل ميں فائدہ اٹھائيں، كہ كسى بھى ايسے شخص كو قبول مت كريں جس كا دين اور اخلاق پسند نہ ہو، اور اس سلسلہ ميں آپ تساہل سے كام مت ليں.
دوم:
عقد نكاح كے بعد خاوند كے ليے بيوى سے استمتاع كرنا جائز ہے، ليكن وہ عرف كا خيال كرتے ہوئے بيوى كے ساتھ جماع اور دخول مت كرے، كيونكہ عليحدگى كى صورت ميں مشكلات پيدا ہو سكتى ہيں.
آپ نے جو بيان كيا ہے كہ دونوں نے ايك دوسرے سے استمتاع كيا تو يہ دخول كے معنى ميں آتا ہے، اور اكثر اہل علم كے ہاں اس سے مكمل مہر اور عدت لازم آتى ہے.
اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 97229 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
چنانچہ مكمل مہر اور بعد ميں ديا جانے والا آپ كا حق تھا، جبكہ اب آپ اس كو معاف كر چكى ہيں تو اس كى طرف التفات مت كريں، كيونكہ مال تو آنے جانے والى چيز ہے، اور ہميں اميد ہے كہ اللہ تعالى آپ كو اس كا نعم البدل عطا فرمائيگا.
سوم:
جس حديث سے خاوند نے استدلال كيا ہے، اور اس حديث ميں بيان ہوا ہے كہ:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے غفار قبيلہ كى ايك عورت سے شادى كى اور اس كے پہلو ميں سفيدى ديكھى تو فرمايا: اپنے كپڑے پہنو اور ميكے چلى جاؤ ”
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كو پورا مہر بھى ديا ”
اس حديث كو احمد اور حاكم نے روايت كيا ہے، اور اس كى سند ميں جميل بن زيد راوى ہے جس كے متعلق يحي بن معين كہتے ہيں: يہ ثقہ نہيں، اور امام نسائى نے اسے ليس بقوى كہا ہے، اور امام بخارى كہتے ہيں: اس كى حديث صحيح نہيں اس ليے يہ حديث بہت ضعيف ہے، جيسا كہ علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 6 / 326 ) ميں كہا ہے.
اور شيخ شعيب ارناؤط نے بھى مسند احمد كى تحقيق ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے.
چنانچہ يہ حديث ضعيف ہے، صحيح ثابت نہيں، پھر آپ كے خاوند نے اس حديث كے مطابق بھى عمل نہيں كيا بلكہ صرف اتنا ہى عمل كيا ہے جو اس كا دل چاہتا تھا، اور اگر وہ سارى حديث پر عمل كرتا تو آپ كو سارا مہر ادا كرتا جيسا كہ حديث ميں بيان ہوا ہے.
چہارم:
آپ ميں جو عيب ہے اگر ا سكا آپريشن كے ذريعہ علاج ممكن ہے جيسا كہ ليڈى ڈاكٹر كا كہنا ہے تو پھر يہ نكاح كے عيوب ميں شمار نہيں ہوتا جس كى بنا پر طلاق مباح ہوتى ہے.
اس بنا پر ہميں تو يہى لگتا ہے كہ آپ كے خاوند نے آپ كو طلاق دے كر ظلم كيا ہے.
ليكن جبكہ طلاق ہو چكى ہے تو آپ ہر حال ميں اللہ كا شكر ادا كريں، اور اپنى حالت كو بہتر بنائيں اور اس كا خيال كريں، اور جو ہو چكا اس كو بھول جائيں، اور اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا كريں كہ آپ كو نيك و صالح خاوند اور اولاد نصيب كرے.
ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو اور ہميں بھى توفيق اور ثابت قدمى نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات