وزارت اوقاف ميں ملازمت كرنے والا ايك مؤذن سوال كرتا ہے كہ:
ميں مؤذن اور مسجد كا خادم ہوں ہميں ريڈيو كے ذريعہ ايك ہى اذان نشر كرنے كا كہا گيا ہے، اور اسى طرح اذان سے قبل قرآن مجيد كى تلاوت اور اذان كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر بلند آواز سے درود پڑھا جاتا ہے، سوال يہ ہے كہ كيا مجھے اس كام كا گناہ ہو گا، اور اگر ميں ايسا نہيں كرتا تو مجھے نقصان اور ضرر پہنچ سكتا ہے، يہ علم ميں رہے كہ مجھے سركارى طور پر اس كا مكلف كيا گيا ہے ؟
اذان سے پہلے قرآن مجيد اور بعد ميں درود پر مشتمل آلہ آن كرنے كى متقاضى ملازمت كا حكم
سوال: 102824
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ريكارڈ شدہ اذان يا ريڈيو كے ذريعہ ايك باقى مساجد ميں اذان نشر كرنا نئى ايجاد كردہ بدعت ہے، اس كى تفصيل سوال نمبر (48990 ) كے جواب ميں گزر چكى ہے اس كا مطالعہ كريں.
دوم:
نماز پنجگانہ كى اذان سے قبل قرآن مجيد كى تلاوت اور اذكار بھى نئى ايجاد كردہ بدعات ہيں.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
جمعہ كے دن ظہر سے قبل لاؤڈ سپيكر ميں قرآن مجيد كى تلاوت كرنے كا اسلام ميں كيا حكم ہے، اگر آپ يہ كہيں كہ اس كا حديث ميں ثبوت نہيں ملتا، تو وہ آپ كو كہے گا: آپ قرآن مجيد كى تلاوت سے منع كرنا چاہتے ہيں ؟
اور اذان فجر سے قبل لاؤڈ سپيكر ميں دينى اشعار پڑھنے كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے، اگر آپ اسے كہيں كہ اس كى كوئى دليل نہيں تو وہ آپ كو جواب ديگا يہ خير و بھلائى كا عمل ہے، اور لوگوں كو فجر كى نماز كے ليے بيدار كرنے كے ليے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
” ہمارے علم ميں تو اس كى كوئى دليل نہيں جو اس پر دلالت كرتى ہو كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں ايسا كيا گيا ہو، اور ہمارے علم ميں كے مطابق تو صحابہ كرام ميں سے بھى كسى نے ايسا نہيں كيا، اور اسى طرح لاؤڈ سپيكر ميں اذان فجر سے قبل لوگوں كو جگانے كے ليے اشعار كہنا بھى بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى نيا كام نكالا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے ” انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 2 / 495 – 496 ).
سوم:
اذان كے بعد مؤذن كى جانب سے لاؤڈ سپيكر ميں بلند آواز سے درود پڑھنا بھى بدعت ہے؛ كيونكہ اذان عبادت ہے اور اس كے الفاظ ميں زيادتى يا كمى كرنا حلال نہيں، اور اذان اللہ اكبر اللہ اكبر سے شروع ہو كر لا الہ الا اللہ پر ختم ہوتى ہے، اس ليے اذان سے قبل يا بعد ميں جو بھى اضافہ كيا جائے وہ نئى ايجاد كردہ بدعت ہو گى.
ان لوگوں نے اذان سے قبل اور بعد جو ملا ليا حتى كہ اذان ضائع كر دى اور اسے ان جملوں اور بدعات ميں شامل كر ديا اور اسى طرح يہ لوگوں كو تكليف اور ان كى نيند اور عبادت ميں خلل كا باعث بنتے ہيں.
ابن جوزى رحمہ اللہ مؤذن پر شيطان كى تلبيس كى وجوہات ذكر كرتے ہوئے كہتے ہيں:
” اس ميں يہ بھى ہے كہ يہ لوگ فجر كى اذان كو وعظ و نصيحت اور تسبيح كے ساتھ مخلوط كر ليتے ہيں، اور اذان كو ان كلمات كے درميان ركھتے ہيں اس طرح اذان خلط ملط ہو كر رہ جاتى ہے، علماء كرام نے اذان كے ساتھ ملائى جانے والى ہر چيز كو مكروہ سمجھا ہے.
ہم نے ديكھا كہ رات كو اكثر منارہ پر كھڑے ہو كر وعظ و نصيحت كرتا اور كچھ تو بلند آواز سے قرآن مجيد كى تلاوت بھى كرتے ہيں، اور لوگوں كى نيند ميں خلل پيدا كرتے ہيں، اور تھجد ادا كرنے والوں كو يہ قرآت خلط ملط كا شكار كر ديتى ہے، يہ سب منكرات اور برائى ہے ” انتہى
ديكھيں: تلبيس ابليس ( 157 ).
اور مقريزى رحمہ اللہ اس بدعت كى تاريخ اور حكم بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
” يہ بدعت سن ( 791هـ ) ميں ايجاد ہوئى، بعض فقراء خلاطوں نے جمعرات كى رات مؤذنوں كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سلام پڑھنا سنا ( اور يہ بھى بدعت ہے ) كچھ لوگوں نے اس كو اچھا جانا اور اپنے ان بدعتى بھائيوں كو كہنے لگے كيا تم پسند كرتے ہو كہ يہ سلام ہر اذان كے وقت ہو ؟
تو انہوں نے جواب اثبات ميں ديا، اس نے وہ رات بسر كى اور صبح ہوئى تو اس كا گمان تھا كہ اس نے خواب ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديكھا كہ وہ محتسب كے پاس جانے كا حكم دے رہے ہيں اسے جا كر كہے كہ وہ مؤذنوں كو ہر اذان كے وقت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سلام پڑھنے كا حكم دے، تو وہ قاہرہ كے ذمہ دار كے پاس گئے اور ان دنوں قاہرہ كا محتسب نجم الدين محمد الطنبدى تھا جو كہ ايك جاہل اور بوڑھا تھا اور اپنے اس محكمہ قضاء وغيرہ ميں اس كى سيرت و شہرت اچھى نہ تھى، وہ روپے كے پيچھے بھاگنے والا ہوتا چاہے وہ اسے تكليف و مصيبت ميں ہى ڈال دے.
وہ رشوت خور تھا، اور كسى بھى مومن و مسلمان شخص كے متعلق وہ ذمہ كا خيال تك نہ ركھتا، اور اس كى جہالت مشہور تھى، اور اس كے برے افعال بھى معروف تھے.
وہ جا كر اس شخص كو كہنے لگا: رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كا تجھےحكم ہے كہ سب مؤذنوں كو اپنى اذان ميں ” الصلاۃ و السلام عليك يا رسول اللہ ” كہنے كا حكم دو، جس طرح ہر جمعرات كى رات كيا جاتا ہے، تو اس جاہل كو يہ بہت پسند آئى، اور اس جاہل كو يہ معلوم نہ ہوا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى وفات كے بعد كيسے حكم دے سكتے ہيں جب زندگى ميں شريعت كے مخالفت كام كا حكم نہيں ديا.
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى كتاب عزيز ميں شريعت ميں زيادتى كرنے سے منع كرتے ہوئے فرمايا ہے:
كيا ان لوگوں نے كوئى ايسے بھى شريك بھى مقرر كر ركھے ہيں جنہوں نے ان كے ليے ايسے احكام دين مقرر كر ديے ہيں جو اللہ كے فرمائے ہوئے نہيں .
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” تم دين ميں نئے نئے كام ايجاد كرنے سے بچو ”
اس بدعت كا اس نے جاہل نے اسى برس شعبان ميں حكم ديا اور سارے مصر اور شام كے علاقوں ميں يہ آج تك جارى ہے، اور عام جاہل قسم كے لوگ اسے اذان كا حصہ شمار كرنے لگے ہيں جسے ترك كرنا حلال نہيں، اور اس كے نتيجہ ميں بعض ملحد قسم كے لوگوں نے بعض ديہات اور بستيوں ميں اذان كے بعد فوت شدگان پر سلام پڑھنے كا اضافہ كر ليا, لا حول و لا قوۃ الا باللہ، و انا للہ و انا اليہ راجعون ” انتہى
ديكھيں: الخطط المقريزيۃ ( 2 / 172 ) اور الابداع فى مضار الابتداع تاليف على محفوظ ( 172 – 174 ) كا بھى مطالعہ كريں.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ہمارے ہاں يہاں اردن اور بعض دوسرے علاقوں ميں مؤذن اذان كے بعد ” اللہم صلى اللہ سيدنا محمد و على آلہ و صحبہ اجمعين ” كہتے ہيں ايسا كرنے ميں كيا ہے، اور اس كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” اس ميں تفصيل ہے:
اگر تو مؤذن اسے آہستہ آواز ميں كہتا ہے تو يہ مؤذن اور غير مؤذن اذان كا جواب دينے والے كے ليے مشروع ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جب تم مؤذن كى اذان سنو تو تم بھى اس جيسے كلمات كہو اور پھر مجھ پر درود پڑھو كيونكہ جو مجھ پر ايك بار درود پڑھتا ہے اللہ تعالى اس پر دس رحمتيں نازل فرماتا ہے پھر ميرے ليے اللہ تعالى سے وسيلہ طلب كرو يہ جنت ميں ايك مقام ہے جو صرف اللہ كے ايك بندے كو ہى حاصل ہو گا اور مجھے اميد ہے وہ ميں ہوں، جس نے بھى ميرے ليے وسيلہ مانگا اس كے ليے شفاعت حلال ہو گئى “
اسے امام مسلم نے صحيح مسلم نے روايت كيا ہے.
اور صحيح بخارى ميں جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جو شخص اذان سن كر درج ذيل دعا پڑھتا ہے اس كے ليے روز قيامت ميرى شفاعت حلال ہو جاتى ہے:
” اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محموداً الذي وعدته ”
اے اللہ اس كامل اور قائم نماز كے رب محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو مقام وسيلہ اور فضيلہ عطا فرما جس كا تو نے ان سے وعدہ كر ركھا ہے ”
ليكن اگر مؤذن اذان كى طرح بلند آواز سے پڑھے تو يہ بدعت ہے؛ كيونكہ اس سے يہ وہم ہوتا ہے كہ يہ اذن كا حصہ ہے، اور اذان ميں زيادتى كرنا جائز نہيں؛ اس ليے كہ اذان كا آخرى كلمہ لا الہ الا اللہ ہے، لہذا اس سے كچھ زائد كرنا جائز نہيں.
اور اگر يہ خير و بھلائى اور اچھائى ہوتى تو سلف صالحين اس ميں ہم سے سبقت لے جاتے، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى امت كو اس كى تعليم ديتے اور ان كے ليے مشروع كرتے.
اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان تو يہ ہے:
” جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے ”
اسے امام مسلم نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے، اور اس كى اصل صحيحين ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ہے.
اللہ تعالى سے ميرى دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ سب كو اور ہمارے بھائيوں كو دين كى سمجھ عطا فرمائے، اور ہم سب كو دين پر ثابت قدمى كى نعمت سے نوازے، يقينا وہ سننے والا اور قريب ہے ” انتہى
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 1 / 439 – 440 ) اور ( 10 / 362 – 363 ).
اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
” مؤذن اور اذان سننے والے كے ليے اذان كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنا اور پھر درج ذيل دعا پڑھنا مشروع ہے:
” اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محموداً الذي وعدته ”
اے اللہ اس كامل اور قائم نماز كے رب محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو مقام وسيلہ اور فضيلہ عطا فرما جس كا تو نے ان سے وعدہ كر ركھا ہے ”
ليكن مؤذن اور غير مؤذن آہستہ اور پست آواز ميں كہے گا، اس ميں آواز بلند نہ كرے، كيونكہ بلند آواز سے كہنا منقول نہيں جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے ” انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 101 – 103 ).
چہارم:
جب ايك اذان ( يعنى ريكارڈ شدہ اذان مساجد ميں نشر كرنا ) كى بدعت واضح ہو گئى اور اذان سے قبل سے قرآت قرآن اور تسبيح وغيرہ كى بدعت بھى واضح ہو گئى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر بلند آواز سے درود و سلام كى بھى بدعت واضح ہوئى تو مؤذن كا ايسے افعال كرنے كا حكم بھى واضح ہو گيا يعنى يہ جائز نہيں.
اگرچہ مؤذن اسے موقت سجھتا ہو، اور اس كو باطل اور ختم كرنے كى راہ ہو، يا پھر اس كے ليے آسانى سے امامت يا كوئى اور دفترى كام حاصل كرنا ممكن ہو تو اس وقت تك وہ اس ميں باقى رہے، ليكن اگر يہ معاملہ مستقل اور استقرار حاصل كر جائے تو پھر اس مؤذن كو اس ملازمت پر باقى رہنے كا كوئى حق نہيں جس كى وجہ سے يہ بدعت عام ہو گى.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات