مجھے یہ علم ہے کہ اولاد کےدرمیان عدل کرنا واجب ہے ، لیکن میرے ایک بیٹے پر بہت زيادہ قرض ہے اوروہ فقیر ہونے کی بنا پر ادا نہیں کرسکتا توکیا میرے لیے جائز ہے کہ میں اپنے مال سےاس کے قرض کی کچھ ادائيگي کردوں ؟
کیا محتاج بیٹے کے قرض کی ادائيگي دوسری اولاد کے ہوتے ہوۓ جائز ہے
سوال: 10332
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
الحمدللہ
اولاد کے درمیان عدل کے وجوب کی تفصیل آپ سوال نمبر ( 22169 ) کے جواب میں دیکھیں ۔
اوراسی طرح ہبہ میں بھی اولاد کےدرمیان عدل کرنا واجب ہے ، ان میں کسی ایک کی بھی تخصیص کرنا یا پھراسے افضلیت دینا حرام ہے لیکن اگر اس کا کوئ سبب ہوتو پھر جائز ہے ۔
تواگر کوئ چيز ایسی ہوجو تخصیص یا پھر افضلیت دینے کی باعث ہو تواس میں کوئ حرج نہیں مثلا اگراولاد میں سے ایک بیمار یا اندھا یا پھر معذور ہو یا اس کا گھرانہ بڑا ہو اوریا طالب علم وغیرہ ہو تو اس طرح ان مقاصد کی بنا پر اسے افضلیت دینے میں کوئ حرج نہيں ۔
امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا ہے :
( اولاد میں سے کسی ایک کے لیے وقف کی تخصیص میں ) اس کے بارہ امام صاحب کا کہنا ہے کہ : اگر کوئ ضرورت ہوتو اس میں کوئ حرج نہیں ، لیکن اگریہ کام اس کے ساتھ ترجیجی بنیاد پر کیا جارہا ہوتومیرے نزدیک یہ ناپسندیدہ ہے ۔
اورشيخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے :
( حدیث اورآثاراولاد کےدرمیان عدل کرنے کے وجوب پر دلالت کرتے ہیں ۔۔۔۔ پھر یہاں اس کی دوقسمیں ہیں :
1 – ایک قسم تووہ ہے جواپنی بیماری اورصحت وغیرہ میں خرچہ کے محتاج ہوتے ہیں تواس میں عدل یہ ہے کہ ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق دیا جاۓ ، اورکم اورزيادہ ضرورت مند کے درمیان فرق نہ کیا جاۓ ۔
2 – ایک قسم وہ ہے جس میں ان کی ضروریات مشترک ہیں یعنی عطیہ اورخرچہ یا پھر شادی میں مشترک ہیں تواس قسم میں کمی وزیادتی کرنے میں حرمت میں کوئ شک نہیں ۔
اوران دونوں کے مابین ایک تیسری قسم بھی بنتی ہے :
وہ یہ کہ ان میں سے کوئ ایک ایسا ضرورت مند ہوجو عادتا پیش نہیں آتی ،مثلا کسی ایک کی طرف سے قرض کی ادائيگي جواس کے ذمہ کسی جرم کی بنا پر واجب تھی ( یعنی کسی بھی بدنی تکلیف دینے کی بنا پر مالی سزا کی ادائيگي ) یا پھر اس کا مھر ادا کیا جاۓ اوریا بیوی کا خرچہ دیا جاۓ ، توکسی دوسرے کوواجبی طور پر دینے میں نظر ہے ) ا ھـ اختیارت سے ۔
دیکھیں : کتاب :
تیسیر العلام شرع عمدۃ الاحکام ص ( 767 ) ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال وجواب