كيا جب نماز ميں امام ” اياك نعبد و اياك نستعين ” پڑھتا ہے تو كيا مقتدى استعنا باللہ كہنيگے ؟
” اياك نعبد ” پڑھتے وقت ہم اللہ سے مدد طلب كرتے ہيں كہنے كا حكم
سوال: 103429
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مقتدى كے ليے امام كى قرآت خاموشى سے سننا واجب ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے خاموشى سے سنو تا كہ تم پر رحم كيا جائے الاعراف ( 204 ).
امام كى قرآت كے وقت صرف سورۃ فاتحہ ہى پڑھى جا سكتى ہے اس كے علاوہ كچھ نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جو شخص سورۃ الفاتحہ نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 714 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 595 ).
اور ” اياك نعبد و اياك نستعين ” كے وقت مقتديوں كا استعنا باللہ كہنا يا پھر ” اياك نعبد و اياك نستعين ” آيت ہى دوبارہ پڑھنے كو قديم اور نئے سب علماء نے بدعت قرار ديا ہے جس سے اجتناب كرنا چاہيے.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” عوام ميں سے بہت سارے افراد كى عادت ہے كہ جب وہ امام كو ” اياك نعبد و اياك نستعين ” پڑھتے ہوئے سنتے ہيں تو وہ بھى ” اياك نعبد و اياك نستعين ” كہتے ہيں، اور يہ بدعت ہے جس سے منع كيا گيا ہے ” انتہى.
ديكھيں: المجموع ( 4 / 14 ).
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے يہى سوال كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
” وہ اسے خاموشى سے سنے، اور استعنا باللہ كے الفاظ مت كہے، اور نہ ہى اس كے علاوہ كچھ اور بلكہ خاموشى اختيار كرے كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور جب قرآن مجيد كى تلاوت كى جائے تو تم خاموشى سے سنو تا كہ تم پر رحم كيا جائے ” انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى الشيخ ابن باز ( 29 / 274 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” جب امام ” اياك نعبد و اياك نستعين ” كہتا ہے تو مقتدى كا استعنا باللہ كہنے كى كوئى اصل اور دليل نہيں؛ كيونكہ جب امام سورۃ الفاتحہ كى قرآت سے فارغ ہو تو مقتدى آمين كہے، اور يہ آمين ان الفاظ ” استعنا باللہ ” كے كہنے سے كفائت كر جائيگى ” انتہى
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب