سوال: نماز میں تورک ہر نماز کے آخری تشہد میں ہوگا یا صرف چار رکعت والی نماز کے آخری تشہد میں ہوگا؟
نماز میں تورّک کس جگہ ہوگا؟
سوال: 103886
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
نماز میں تورّک کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ سنت ہے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی نماز نبوی سے متعلق بیان کردہ روایت نقل کرتے ہیں، اس میں ہے کہ: “اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری رکعت کے بعد تشہد میں بیٹھتے تو بایاں قدم باہر نکال کر دایاں کھڑا رکھتے، اور اپنی سرین پر بیٹھتے”
تورّک کے متعدد طریقے ثابت ہیں:
1-دایاں قدم کھڑا کر کے بایاں قدم بچھا لے اور دونوں قدموں کو دائیں جانب باہر نکالے اور اپنے سرین پر بیٹھے۔
2-دونوں قدموں کو بچھا کر انہیں دائیں جانب باہر نکالے، اور اپنی سرین پر بیٹھے۔
دوم:
نماز میں تورّک کہاں کرنا ہے؟ اس بارے میں اہل علم کے مختلف اقوال ہیں: چنانچہ حنبلی فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ اگر نماز میں دو تشہد ہیں تو تورّک صرف آخری تشہد میں ہوگا، اور اگر نماز میں ایک ہی تشہد ہے جیسے کہ فجر کی نماز اور دو ، دو رکعت کر کے ادا کی جانے والی سنتیں، تو ایسی صورت میں تورّک نہیں ہوگا۔
بہوتی رحمہ اللہ “كشاف القناع” (1/364) میں نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
“ابو حمید رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق تین یا تین سے زیادہ رکعات والی نماز کے تشہد میں تورّک کر کے بیٹھے، کیونکہ انہوں نے پہلے تشہد کی کیفیت بیان کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تشہد میں تورّک نہیں کیا جبکہ دوسرے تشہد میں تورّک کر کے بیٹھے، ابو حمید رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں پہلے اور دوسرے تشہد کا فرق بیان ہوا ہے، اور اس فرق پر عمل کرنا لازمی امر ہے، چنانچہ اس فرق کی بنا پر تورّک دو بنیادی تشہد والی نماز کے صرف دوسرے تشہد میں کیا جائے گا” انتہی
جبکہ شافعی فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ : ہر نماز کے آخری تشہد میں تورّک کرنا مستحب ہے، چاہے نماز دو تشہد والی ہو یا ایک؛ ان کی دلیل ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ والی حدیث کا عموم ہے، کیونکہ وہاں پر الفاظ ہیں: “اور جب آخری رکعت میں بیٹھے”
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے “فتح الباری” میں لکھا ہے کہ:
“حدیث کے ان الفاظ سے شافعی رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ صبح کی نماز کا تشہد بھی دیگر نمازوں کے تشہد کی طرح ہوگا، کیونکہ اس حدیث کے الفاظ ہیں کہ: “جب آخری رکعت کے تشہد میں بیٹھتے”
اور نووی رحمہ اللہ “المجموع” (3/431) میں کہتے ہیں کہ:
“ہمارا موقف یہ ہے کہ پہلے تشہد میں تورک نہ کرے، اور دوسرے تشہد میں تورّک کر کے بیٹھے، چنانچہ دو رکعت والی نماز کے تشہد میں بھی تورّک ہی کرے” انتہی
راجح موقف حنبلی فقہائے کرام ہے؛ اور انہی کے موقف کو دائمی فتوی کمیٹی نے بھی اختیار ہے، جن میں شیخ عبد العزیز بن باز، شیخ عبد اللہ بن قعود شامل ہیں۔
دیکھیں: “فتاوى اللجنة الدائمة” (7/15)
اور ابن قدامہ رحمہ ا للہ “المغنى” (1/318) میں کہتے ہیں:
“دوسرے تشہد کے علاوہ نماز کے کسی بھی جلسے میں تورّک نہیں ہوگا، کیونکہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ: “نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی تشہد کیلئے بیٹھتے تو اپنے بائیں قدم کو بچھا لیتے اور دائیں قدم کو کھڑا رکھتے” اب اس حدیث میں سلام والا تشہد ہو یا نہ ہو ایسی کوئی قید نہیں ہے۔
اسی طرح مسلم کی روایت کے مطابق عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعت کے بعد “التحيات لله۔۔۔” پڑھتے، اور بائیں قدم کو بچھا کر دایاں قدم کھڑا رکھتے” ان دونوں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر تشہد میں تورک نہیں ہوگا، چنانچہ دوسرے تشہد میں تورّک ہوگا جس کی دلیل ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، جبکہ بقیہ تمام تشہد اپنی اصل پر باقی رہیں گے[یعنی: تورّک نہیں ہوگا]؛ ویسے بھی دو رکعت والی نماز میں دوسرا تشہد ہوتا ہی نہیں ہے، اس لیے ایسی نماز میں دو تشہد والی نماز کی طرح تورّک کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آخری تشہد میں تورّک پہلے تشہد سے امتیاز کرنے کیلئے ہے، اور ایک تشہد والی نماز میں دوسرا تشہد ہے ہی نہیں، اس لیے فرق کی ضرورت بھی نہیں ہے” انتہی مختصراً
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے “لقاء الباب المفتوح” میں استفسار کیا گیا:
“نمازی دوران نماز تورّک کب کریگا؟”
تو انہوں نے جواب دیا:
“تورک دو تشہد والی نماز کے آخری تشہد میں ہوگا، یعنی مغرب، عشاء، عصر، اور ظہر کے آخری تشہد میں تورّک ہوگا، جبکہ دو رکعت والی نماز یا سنتیں ان میں تورّک نہیں ہوگا؛ کیونکہ تورک صرف اس نماز میں ہوگا جس میں دو تشہد ہوں” انتہی
مزید تفصیل کیلئے آپ سوال نمبر: (13340) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات