0 / 0
20/رمضان/1446 , 20/مارچ/2025

ور بھکاریوں میں سے کسے دینا چاہیے اور کسے نہیں دینا چاہیے؟

سوال: 104781

معاشرے میں بھکاریوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، بالخصوص بچوں کو اس کام کے لیے بہت زیادہ استعمال کیا جانے لگا ہے، کچھ تو آپ سے پیسے اینٹھنے کے لیے حیلے بھی کرنے لگے ہیں، مثلاً: کچھ نابینا ہونے کا دعوی کرتے ہیں حالانکہ ان کی آنکھیں بالکل صحیح سلامت ہوتی ہیں، تو ان کے ساتھ کیسا رویہ اپنایا جائے؟ کیا انہیں پیسے دے دئیے جائیں؟ یا کیا کریں؟ واضح رہے کہ مجھے نہیں معلوم ہوتا کہ وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں یا نہیں؟ نہ ہی میں ان کی مادی حالت کے بارے میں تحقیق کر سکتا ہوں کہ واقعی وہ پیسوں کے محتاج ہیں یا نہیں یا محض پیسے جمع کرنے کے لیے مختلف حیلے استعمال کر رہے ہیں، اور اگر کسی حیلے باز کی میں مدد کر بیٹھوں اور مجھے پتہ بھی نہ چلے تو کیا مجھے اس کا گناہ ملے گا؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

کسی غیر ضرورت مند کے لیے لوگوں سے پیسے مانگنا جائز نہیں ، اسی طرح روزی کمانے کے قابل شخص کے لیے بھی لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے۔ البتہ کچھ قسم کے لوگ ہیں جن کے لیے لوگوں سے مانگنا جائز ہے اور وہ یہ ہیں: غریب شخص جو مفلس ہے، وہ شخص جس پر قرض ہے، اور وہ شخص جس کا مال آفت زدہ ہو گیا اور اس کی تمام دولت تباہ ہو گئی ہے تو ان صورتوں میں بھی ضرورت سے زیادہ مانگنا جائز نہیں ہے، ان کے لیے بھی اس شرط پر مانگنا جائز ہو گا کہ اس کے پاس اثاثہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہ ہو اور وہ اپنی روزی کمانے کے قابل نہ ہو۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"ایسا شخص لوگوں سے مانگ سکتا ہے جس کے پاس اپنی ضرورت پوری کرنے کا کوئی ذریعہ نہ ہو، نہ ہی وہ خود کمانے کی صلاحیت رکھتا ہو، ایسے شخص کو صرف اتنی مقدار میں لوگوں سے مانگنا چاہیے جس سے اس کی ضرورت پوری ہو جائے، لیکن جس شخص کو ضرورت ہی نہ ہو یا کوئی ایسا شخص جو خود تو ضرورت مند ہے لیکن محنت مزدوری کر سکتا ہے تو اس کے لیے لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے۔ ایسی صورت میں یہ شخص لوگوں سے مانگ کر جو کچھ بھی حاصل کرے گا یہ اس کے لیے حرام ہے؛ کیونکہ سیدنا قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ کہتے ہیں کہ: میں نے اپنے ذمہ کسی کی چٹی اٹھا لی، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اسی چٹی کو چکانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے مانگنے کے لیے آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ہمارے پاس ٹھہرو حتی کہ صدقات کا مال آئے تو پھر ہم آپ کو اس میں سے دینے کا حکم دیں گے۔) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (قبیصہ! کسی سے مانگنا صرف تین لوگوں کے لیے جائز ہے: ایک ایسے شخص کے لیے جو کسی کے قرض کی چٹی اپنے ذمے لے تو یہ شخص اس چٹی کے برابر مانگ سکتا ہے مزید مت مانگے۔ اور ایک شخص جس پر کوئی آفت آئی اور اس کا سارا مال تباہ کر گئی تو اس شخص کے لیے بھی مانگنا جائز ہے یہاں تک کہ وہ اپنی زندگی گزارنے کے قابل ہو جائے۔ اور ایک شخص جو فاقہ کشی تک پہنچ جائے، اور تین عقل مند لوگ اس کے بارے میں بتلائیں کہ اسے واقعی فاقہ کشی کا سامنا ہے تو اس کے لیے بھی گزر بسر تک مانگنا جائز ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی مانگنے کا انداز ہو اے قبیصہ ! وہ حرام ہے، اسے کھانے والا حرام ہی کھاتا ہے۔) مسند احمد، مسلم، نسائی اور ابو داود نے اسے روایت کیا ہے۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ : (جو شخص لوگوں سے مال ، دولت جمع کرنے کے لے مانگتا ہے تو وہ ان سے آگ کے دہکتے ہوئے انگارے مانگتا ہے۔)

ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ: (صدقہ خیرات کسی مالدار کے لیے اور صحت مند جسم والے کے لیے جائز نہیں ہے۔) اسے ترمذی، ابو داود، اور مسند احمد نے روایت کیا ہے۔

ایسی صورت میں بھکاری لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا واجب ہے، علمائے کرام کو بھی چاہیے کہ یہ بات لوگوں کو بتلائیں، خطبات جمعہ اور دیگر بیانات میں انہیں نصیحت کریں، اور میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں میں آگہی پھیلائیں۔

البتہ سائلین کو ڈانٹ پلانا اور انہیں سرزنش کرنا منع ہے، اس کے لیے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا: وَأَمَّا السَّائِلَ فَلا تَنْهَرْ ترجمہ: اور سائل کو تو مت ڈانٹ۔ [الضحی: 10] اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ سائل کو بلند آواز سے مت ڈانٹیں، اسے برا بھلا مت کہیں۔ آیت میں مذکور سائل سے مراد پیسے مانگنے والے بھکاری بھی ہیں اور شرعی احکامات کے متعلق دریافت کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔ البتہ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ کوئی سوال کرتے ہوئے غلطی کرے تو اسے اس کی غلطی پر بھی اسے متنبہ نہ کریں، بلکہ حکمت اور اچھے سلیقے اور طریقے کے ساتھ اسے سمجھائیں۔

الشیخ عبد العزیز بن باز،    الشیخ عبد اللہ بن غدیان،      الشیخ صالح الفوزان، الشیخ عبد العزیز آل الشیخ، الشیخ بکر ابو زید۔"
فتاوی دائمی کمیٹی : ( 24 / 377 )

الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:
بھکاری پن کا دین میں کیا حکم ہے؟

تو آپ رحمہ اللہ نے جواب دیتے ہوئے سیدنا قبیصہ بن مخارق الہلالی رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کی، اور پھر فرمایا:
"اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مانگنے کی جائز صورتیں ذکر فرمائی ہیں، اور یہ بھی بتلایا ہے کہ اس کے علاوہ اگر کوئی مانگتا ہے تو وہ اس کے لیے حرام ہے، چنانچہ اگر کسی کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنی ملازمت کی تنخواہ ہو، یا تجارت اور کاروبار ہو، یا وقف اناج ہو، یا پراپرٹی ہو، یا صنعت و حرفت ہو مثلاً: بڑھئی، لوہار، زراعت یا اس کے علاوہ کوئی بھی پیشہ جانتا ہو تو اس کے لیے مانگنا حرام ہے۔

لیکن اگر کسی کی مجبوری ہو تو پھر اپنی ضرورت کی حد تک مانگ سکتا ہے، اسی طرح اگر کوئی دو افراد کے درمیان لڑائی ختم کروانے کے لیے چٹی اپنے ذمے اٹھا لے ، یا کسی کے گھر والوں اور بچوں کے اخراجات کے لیے مانگے تو پھر اس کے لیے بھی کسی سے مانگنا جائز ہے۔" ختم شد

مجموع فتاوی ابن باز: ( 14 / 320 )

دوم:

سڑکوں اور مساجد وغیرہ میں نظر آنے والے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والے سائلین سارے کے سارے حقیقی طور پر ضرورت مند نہیں ہوتے، بلکہ ان میں سے بہت سے لوگ بہت ہی مالدار بھی ہوتے ہیں، اور یہ بات منظر عام پر آ کر ثابت بھی ہو چکی ہے کہ کچھ لوگ بچوں کو بھیک مانگنے کے لیے مجبور کرتے ہیں اور پھر یہ بچے لوگوں سے بھیک مانگتے ہیں، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ کوئی حقیقی سوالی نہیں ہوتا، اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو شخص بھی ان لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہے وہ محتاط رہے اور اسے پرکھے کہ واقعی وہ سچا ہے یا جھوٹا ہے، لیکن سب سے بہتر طریقہ کار یہ ہو گا کہ انہیں زکاۃ و صدقات کی کمیٹیوں کے سپرد کر دیا جائے، تا کہ وہ خود ان کی حقیقت کے متعلق چھان بین کر سکیں، اور ان کی مالی امداد کے بعد ان کی مسلسل دیکھ بھال کر سکیں۔

تو جس کے بارے میں آپ کو علم ہو کہ وہ ضرورت مند نہیں ہے، یا آپ کو اس کا غالب گمان ہو تو آپ اسے نہ دیں۔ اور اگر آپ کو یقین ہو جائے کہ وہ ضرورت مند ہے، یا آپ کا غالب گمان یہ کہتا ہے کہ اسے ضرورت ہے تو پھر آپ چاہیں تو اسے دے سکتے ہیں۔ اور اگر کسی کے بارے میں کوئی رجحان پیدا نہیں ہو رہا کہ وہ ضرورت مند ہے یا نہیں، تو ایسے شخص کو آپ چاہیں تو دے دیں، اور چاہیں تو نہ دیں۔

اور اگر کوئی شخص کسی کو یہ سمجھتے ہوئے کچھ دے دیتا ہے کہ وہ شخص محتاج ہے، تو دینے والے کو صدقہ کرنے کا اجر مل جائے گا، حتی کہ ایسی صورت میں بھی اجر مل جائے گا جب بعد میں پتہ چلے کہ وہ شخص تو لینے کا حقدار ہی نہیں تھا، حتی کہ اگر دیا ہوا پیسہ یا مال وغیرہ زکاۃ کا بھی ہو تو تب بھی اس کی زکاۃ ادا ہو جائے گی اس پر یہ لازم نہیں ہو گا کہ وہ زکاۃ دوبارہ ادا کرے۔

اس کی دلیل سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ایک شخص نے کہا کہ میں آج رات ضرور صدقہ کرو ں گا۔ چنانچہ وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور ( ناواقفی سے ) ایک چور کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ آج رات کسی نے چور کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے۔ ( آج رات ) میں پھر ضرور صدقہ کروں گا۔ چنانچہ وہ دوبارہ صدقہ لے کر نکلا اور اس مرتبہ ایک فاحشہ کے ہاتھ میں دے آیا۔ جب صبح ہوئی تو پھر لوگوں میں چرچا ہوا کہ آج رات کسی نے فاحشہ عورت کو صدقہ دے دیا ہے۔ اس شخص نے پھر کہا اے اللہ! زانیہ کو اپنا صدقہ دے آنے پر بھی تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں! اچھا آج رات پھر ضرور صدقہ نکالوں گا۔ چنانچہ وہ اپنا صدقہ لیے پھر نکلا اور اس مرتبہ ایک مالدار کو تھما دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں کی زبان پر تھا کہ ایک مالدار کو کسی نے صدقہ دے دیا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! حمد تیرے ہی لیے ہے۔ ( میں اپنا صدقہ ( لاعلمی سے ) چور، فاحشہ اور مالدار کو دے آیا۔ تو اسے خواب میں بتلایا گیا کہ جہاں تک چور کے ہاتھ میں صدقہ چلے جانے کا معاملہ ہے۔ تو اس میں اس کا امکان ہے کہ وہ چوری سے رک جائے۔ اسی طرح فاحشہ کو صدقے کا مال مل جانے پر امکان ہے کہ وہ زنا سے رک جائے اور مالدار کے ہاتھ میں پڑ جانے کا یہ فائدہ ہے کہ اسے عبرت ہو اور پھر جو اللہ عزوجل نے اسے دیا ہے، وہ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (1355) اور مسلم : (1022) نے روایت کیا ہے۔

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب کسی انسان کو غالب گمان ہو کہ جس شخص کو اس نے زکاۃ دی ہے وہ زکاۃ کا مستحق ہے، تو دینے والے کی طرف سے زکاۃ ادا ہو جائے گی۔ چاہے لینے والا شخص بھکاری ہو یا اس کی ظاہری شکل و صورت غریب افراد جیسی ہو۔ تو دینے والے کی زکاۃ ادا ہو جائے گی، چاہے بعد میں دینے والے کو پتہ چلے کہ لینے والا تو زکاۃ لینے کا حقدار ہی نہیں تھا۔ تو دینے والے کو دوبارہ زکاۃ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی لیے حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ: جب کسی شخص نے کسی مالدار شخص کو صدقہ دے دیا تو لوگ باتیں کرنے لگے کہ آج کی رات کسی مالدار کو کسی نے صدقہ دے دیا ہے۔ تو اس صدقہ دینے والے کو کہا گیا جو کہ مالدار کو صدقہ دینے کی وجہ سے پشیمان ہو رہا تھا کہ: تمہارا صدقہ قبول کر لیا گیا ہے۔ اور ویسے بھی اللہ تعالی کسی کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر مکلف نہیں بناتا۔ اس لیے ہم پر یہ لازم نہیں ہے کہ پہلے ہم کسی ایسے شخص کو تلاش کریں جو ہمیں یقینی طور پر صدقے کا حقدار نظر آئے اور پھر اسے صدقہ دیں۔ یہ تو ناممکن یا بہت مشکل ہو جائے گا، چنانچہ جب کسی کو غالب گمان کے مطابق لگے کہ یہ شخص زکاۃ کا حقدار ہے تو اسے اپنی زکاۃ دے دیں۔ چنانچہ اگر بعد میں کبھی جا کر یہ واضح ہو جائے کہ فلاں شخص جسے زکاۃ دی تھی وہ تو زکاۃ کا اس وقت حقدار ہی نہیں تھا، تو الحمدللہ پھر بھی آپ کی زکاۃ مقبول ہو گی۔ " ختم شد
اللقاء الشهري " ( 71 / سوال نمبر: 9 )

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (46241) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android
ور بھکاریوں میں سے کسے دینا چاہیے اور کسے نہیں دینا چاہیے؟ - اسلام سوال و جواب