اگر كوئى شخص عام ايام ميں حيض كى حالت ميں بيوى سے جماع كر لے يا پھر رمضان المبارك ميں حيض كى حالت ميں بيوى سے جماع كرے تو اس كا كفارہ كيا ہے اور اس سے توبہ كيسے ہو گى ؟
ہم سے ايسا ہو چكا ہے، اور ہميں اس كى حرمت كا علم بھى تھا، اب ہمارى نيت توبہ كرنے كى ہے، بتائيں كہ ہم اللہ سے توبہ كس طرح كر سكتے ہيں، برائے مہربانى كوئى ايسا عمل بتائيں جسے كرنے پر اللہ تعالى مجھے معاف كر دے، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.
رمضان ميں حائضہ بيوى سے جماع كرنے والے كا كفارہ
سوال: 104865
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
علماء كرام كا اجماع ہے كہ حائضہ عورت كے ساتھ جماع كرنا حرام ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
}اور آپ سے حيض كے متعلق دريافت كرتے ہيں، آپ كہہ ديں كہ حيض گندگى ہے، چنانچہ تم حيض كى حالت ميں بيوى سے عليحدہ رہو، اور اس كے قريب مت جاؤ حتى كہ وہ پاك صاف ہو جائيں {البقرۃ ( 222 ).
اور حديث ميں ہے كہ:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو كوئى بھى حائضہ عورت سے جماع كرے، يا اپنى بيوى سے پاخانہ والى جگہ كو استعمال كرے، يا كسى نجومى اور كاہن كے پاس جائے تو اس نے محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر نازل كردہ كا كفر كيا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 135 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ترمذى ميں صحيح قرار ديا ہے.
اور جو كوئى بھى اس فعل كا مرتكب ہو اسے توبہ كرنا ہو گى اور اس كا كفارہ ادا كرنا ہو گا، كفارہ يہ ہے كہ: ايك يا آدھا دينار فقراء و مساكين پر صدقہ كرے؛ كيونكہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہى حكم ديا ہے.
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيوى سے حيض كى حالت ميں جماع كرنے والے شخص كے متعلق فرمايا:
" وہ شخص ايك يا آدھا دينار صدقہ كرے "
مسند احمد حديث نمبر ( 2032 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 264 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 135 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 289 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 640 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور دينار سوا چار گرام سونے كا ہوتا ہے، اس ليے آپ اتنے سونے كى قيمت صدقہ كريں، يا اس سے آدھى قيمت، اور اس كے ساتھ پختہ عزم بھى كريں كہ آئندہ كبھى ايسا كام نہيں كرينگے.
دوم:
اگر تو رمضان المبارك ميں جماع سے آپ يہ مقصد لے رہے ہيں كہ: رمضان المبارك كى راتوں ميں حائضہ عورت سے جماع كرنا، تو اس كے ليے وہى واجب ہے جو اوپر بيان ہوا ہے اور توبہ و استغفار بھى كريں.
اور اگر آپ كا مقصد دن كے وقت روزے كى حالت ميں جماع كرنا ہو تو يہاں دو عظيم گناہ جمع ہوئے ہيں، اور وہ رمضان كا روزہ توڑنا اور حيض كى حالت ميں جماع كرنا.
حيض كى حالت ميں جماع كرنے كا حكم تو آپ كو معلوم ہو چكا ہے.
اور رہا مسئلہ جماع كر كے روزہ توڑنا تو اس كے نتيجہ ميں پانچ اشياء مرتب ہوتى ہيں:
اول:
گناہ
دوم:
روزہ ٹوٹنا.
سوم:
باقى سارا دن روزہ توڑنے والى اشياء سے اجتناب كرنا.
چہارم:
قضاء ميں روزہ ركھنا واجب ہوگا.
پنجم:
توبہ كے ساتھ ساتھ كفارہ كى ادائيگى واجب ہوتى ہے.
چنانچہ آپ پر اس دن كے روزے كى قضاء ميں روزہ ركھنا اور اس كے ساتھ اس كا كفارہ بھى ادا كرنا واجب ہوتا ہے، اور اس كا كفارہ يہ ہے:
ايك غلام آزاد كرنا، اگر يہ نہ ملے تو دو ماہ كے مسلسل روزے ركھنا، اور اگر كوئى شخص اس كى بھى استطاعت نہيں ركھتا تو پھر وہ ساٹھ مسكينوں كو كھانا كھلائے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 22938 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اللہ تعالى سب كو ايسے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے جو اللہ كو پسند ہيں اور جن سے وہ راضى ہوتا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات