ايك جوان لڑكى اپنى نانى اور ماموں كے ساتھ دوسرے ملك رہتى ہے اور اس ملك ميں اس كا كوئى عصبہ مرد نہيں ہے اس كا بھائى ہى اس كے عقد نكاح ميں ولى بننے كا حق ركھتا ہے ليكن اس نے بھى اپنے ماموں كو وكيل بنا ديا تا كہ وہ عقد نكاح كے معاملات مكمل كرے.
اور ايك عالم دين نے بھائى كےوكيل ماموں اور گواہوں كى موجودگى ميں شادى كے معاملات سرانجام ديے تو كيا يہ شادى صحيح ہے يا نہيں، اور عقد نكاح ہو چكا ہے ليكن ابھى رخصتى نہيں ہوئى تو كيا اگر رخصتى كى تقريب ميں لڑكى كا بھائى آئے اور عقد نكاح كى تجديد ہو جائے تو كيا عقد نكاح صحيح ہو گا ؟
اگر ولى بھائى ہو اور وہ عقد نكاح ميں ماموں كو وكيل بنا دے
سوال: 105152
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
عورت كے ولى كو حق حاصل ہے كہ وہ عقد نكاح ميں كسى اور كو وكيل بنائے، چاہے وہ اس كا قريبى ہو مثلا ماموں يا كوئى اور.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
نكاح ميں وكيل بنانا جائز ہے، چاہے ولى موجود ہو يا غائب ہو، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مروى ہے كہ:
” آپ نے ابو رافع كو ميمونہ رضى اللہ تعالى عنہا كى شادى ميں وكيل بنايا تھا، اور عمرو بن اميۃ كو ام حبيبہ كے ساتھ شادى ميں اپنا وكيل بنايا تھا ”
اور اس ليے بھى كہ عقد معاوضہ ہے اس ليے بيع كى طرح اس ميں بھى وكيل بنانا جائز ہوا ” انتہى مختصرا
ديكھيں: المغنى ( 7 / 14 ).
اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
” عقد نكاح شرعى طريقہ پر ہوگا وہ اس طرح كہ ولى يا اس كے وكيل كى جانب سے ايجاب اور خاوند يا اس كے وكيل كى جانب سے قبول اور دو عادل گواہوں كى موجودگى ميں ہو ” انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميہ والافتاء ( 18 / 103 ).
اس بنا پر يہاں ماموں نے بھائى كى نيابت كرتے ہوئے جو عقد نكاح كيا ہے وہ عقد نكاح صحيح ہے، اور اس رخصتى كى تقريب ميں بھائى كا حاضر ہونا شرط نہيں ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب