جب بندے كو اللہ تعالى اولاد سے نوازے اور وہ ان كا عقيقہ نہ كرے حتى كہ ان كى عمريں چار برس سے اوپر ہو جائيں تو كيا اس كے بعد ان كا عقيقہ كرنا جائز ہے ؟
اور اگر عقيقہ كرنا جائز ہے تو كيا ان كا عقيقہ كسى اور ملك ميں كرنا جائز ہے جہاں وہ پيدا نہيں ہوئے، كيونكہ ان كے علاقے ميں فقراء و مساكين نہيں ہيں جن كو گوشت ديا جائے، اور علاقے سے دور ايك بستى ميں صدقہ كے مستحق بستے ہيں، تو كيا وہاں جانور ذبح كر كے گوشت تقسيم كر ديا جائے، يا كہ عقيقہ ميں فقراء كو گوشت كھلانے كى شرط نہيں ہے ؟
بچوں كا عقيقہ نہيں اب وہ بڑے ہو چكے ہيں
سوال: 105431
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بچوں كى عمر چار برس سے زيادہ ہو جائے تو ان كا عقيقہ كرنے ميں كوئى حرج نہيں، افضل اور بہتر تو يہى تھا كہ اس ميں جلدى كى جاتى، ليكن اگر اس ميں تاخير ہو گئى ہے تو عقيقہ كرنے ميں كوئى مانع نہيں، جب بھى ميسر ہو عقيقہ كے جانور ذبح كر ليے جائيں.
رہا مسئلہ عقيقہ كرنے كى جگہ كا تو اس كے ليے جگہ مخصوص نہيں، بلكہ جہاں بچوں كى پيدائش ہوئى ہے وہاں بھى عقيقہ كرنا جائز ہے، اور اس كے علاوہ دوسرے علاقے ميں بھى عقيقہ كيا جا سكتا ہے كيونكہ يہ اطاعت اور قرب حاصل كرنا ہے، جو كسى جگہ كے ساتھ مخصوص نہيں.
رہا كھانے كا مسئلہ تو عقيقہ قربانى والا حكم ہى ركھتا ہے، اس ليے اس كے ليے مستحب ہے كہ وہ اس گوشت ميں سے خود بھى كھائے، اور صدبہ بھى كرے، اور اپنے پڑوسيوں اور دوست و احباب اور عزيز و اقارب كو بھى ہديہ كرے ” انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ صالح الفوزان ( 2 / 572 ).
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب