0 / 0

كمپيوٹر كے ذريعہ تصوير بدلنا اور جسم پر كسى دوسرے كا سر لگانا

سوال: 105826

كسى كارٹون ( سوپر مين ) كى شخصيت پر كسى انسان كا سر لگانے كا حكم كيا ہے، يا كسى شخص كا كسى دوسرے شخص كے جسم پر ( يعنى ميں اپنے بھائى كا سر كسى ايسے شخص كے جسم پر لگا دوں جو عمرہ كر رہا ہے، تو اس سے پتہ چلے كہ عمرہ كرنے والا ميرا بھائى ہے ) ليكن چہرے ميں كوئى تبديلى نہ كى جائے، اور نہ ہى اس ميں كوئى خرابى كا مقصد و رغبت نہ ہو ؟
برائے مہربانى آپ اس كا تفصيلى جواب ديں.

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

سوال نمبر ( 82366 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ جس نے فوٹو گرافى والى تصوير كى اجازت دى ہے اس نے شرط ركھى ہے كہ مصور اس ميں كسى بھى قسم كى تبديلى يا خوبصورتى كا اضافہ نہ كرے؛ كيونكہ يہ رسم اور خاكہ ميں شامل ہوتا ہے، اور جمہور علماء كے ہاں يہ حرام ہے.

اس ميں كوئى فرق نہيں كہ وہ تبديلى حقيقى ہو يا خيالى، كيونكہ يہ سب حرام ہے؛ اس كى دليل صحيح مسلم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے حديث مروى ہے:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سفر سے واپس تشريف لائے تو ميں نے اپنے دروازے پر ايك پردہ لٹكا ركھا تھا جس ميں پروں والے گھوڑوں كى تصوير تھيں، تو انہوں نے مجھے حكم ديا تو ميں نے اسے اتار ديا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2107 ).

الدرنوك: ايك قسم كے پردے كا نام ہے.

تو يہ حديث ذى روح كى تصوير كى ممانعت پر دلالت كرتى ہے چاہے وہ تصوير خيالى ہى ہو، اور اس كا حقيقت ميں كوئى وجود نہ ہو، كيونكہ حقيقت ميں پروں والے گھوڑے موجود ہى نہيں ہيں.

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" تصوير ميں حرمت كا دارومدار اس پر ہے كہ وہ ذى روح كى تصوير ہو، چاہے وہ تصوير كريد كر بنائى گئى ہو، يا پھر رنگ كى ساتھ، يا ديوار پر بنائى گئى ہو، يا كسى كپڑے پر، يا كسى كاغذ پر، يا كپڑے ميں بن كر بنى ہوئى ہو، چاہے وہ برش كے ساتھ بنى ہو، يا قلم كے ساتھ، يا كسى آلے اور مشين كے ساتھ، اور چاہے كسى چيز كى تصوير اس كى طبيعت اور حقيقت كے مطابق ہو، يا پھر اس ميں كوئى تبديلى اور تغير و تبدل كيا گيا ہو، يا اسے ميں كوئى خيالى تبديلى كر كے اسے چھوٹا يا بڑا كيا گيا ہو، يا اسے خوبصورت كر ديا گيا يا اسے بدصورت بنا ديا گيا ہو، يا وہ لائنيں لگا كر جسم كى ہڈيوں كا ہيكل بنايا گيا ہو، يہ سب برابر ہے.

تو حرمت كا دائرہ يہ ہوا كہ جو ذى روح كى تصوير بنائى گئى ہو وہ حرام ہے، چاہے وہ خيالى تصوير ہى ہو، جيسا كہ مثال كے طور پر قديم فراعنہ اور صليبى جنگوں كے قائدين اور فوجيوں كى خيالى تصاوير بنائى جاتى ہيں، اور اسى طرح عيسى عليہ السلام اور مريم عليہا السلام كى تصاوير اور مجسمے جو عيسائيوں كے گرجوں اور چرچوں ميں كھڑے كيے جاتے ہيں.. الخ.

يہ سب عمومى دلائل كى بنا پر حرام ہيں، كيونكہ اس ميں برابرى ہے، اور يہ شرك كا ذريعہ ہيں.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 1 / 479 ).

اور اگر تصوير ميں تبديلى دھوكہ اور فراڈ كے ليے ہو يا پھر كسى شخص كى بےعزتى كرنے كے ليے تو پھر يہ اور بھى زيادہ حرام اور شديد گناہ كا باعث ہو گى.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android