0 / 0
5,04507/06/2010

طلاق كسى عمل پر معلق كى اور بھول كر يا جبر كى حالت ميں وہ عمل كر ليا

سوال: 105998

ميں نے نيت كى كہ اگر ميں كوئى كام كروں تو ميرى بيوى كو طلاق بالفعل طلاق كى نيت تھى، تو كيا اگر ميں وہ كام مجبورى كى حالت ميں كروں تو طلاق واقع ہو جائيگى ؟

اور اگر ميں يہ عمل ايك بار سے زائد بار كروں تو كيا ہر بار طلاق واقع ہو گى ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اگر تو يہ معاملہ صرف طلاق كى نيت پر منحصر تھا اور آپ نے زبان سے الفاظ نہيں نكلے تو طلاق واقع نہيں ہوگى.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” طلاق كے لفظ كے بغير طلاق واقع نہيں ہوگى؛ مگر دو حالتوں ميں:

پہلى: جو شخص كلام كرنے كى استطاعت نہ ركھتا ہو مثلا گونگا شخص جب اشارہ سے اپنى بيو كو طلاق دے تو طلاق واقع ہو جائيگى، امام مالك اور امام شافعى اور اصحاب الرائے كا يہى كہنا ہے، ہمارے علم كے مطابق تو اس ميں كوئى اختلاف نہيں…

دوسرى:

جب طلاق لكھ دے اگر تو اس نے بيوى كو طلاق دينے كى نيت كى تو اس كى بيوى كو طلاق ہو جائيگى، امام شعبى اور نخعى اور زھرى اور حكم اور ابو حنيفہ اور مالك رحمہم اللہ كا قول يہى ہے، اور امام شافعى رحمہ اللہ سے يہى منصوص ہے… ” انتہى

ديكھيں: المغنى ( 7 / 373 ).

ليكن اگر آپ نے طلاق كے الفاظ بولے اور اسے كسى معين عمل پر طلاق كى نيت سے معلق كيا تو يہ عمل كرنے پر طلاق واقع ہو جائيگى، ليكن اگر آپ بھول كر يا مجبور ہو كر كريں تو پھر طلاق واقع نہيں ہو گى.

ابن حجر الھيتمى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” جب كسى شخص نے طلاق وغيرہ كى قسم اٹھائى كہ اگر كوئى كام كرے تو طلاق اور اس نے وہ كام بھول كر سرانجام دے ليا يا ياد ہونے كى صورت ميں ليكن وہ اس فعل پر مجبور تھا يا اختيار كے ساتھ ليكن وہ اس معلق كردہ سے جاہل تھا حكم سے نہيں تو مندرجہ بالا حديث ” بلاشبہ اللہ تعالى نے ميرى امت كو بھول چوك اور خطا و نسيان اور جس پر انہيں مجبور كر ديا گيا ہو معاف كر ديا ہے ” كى بنا پر اس كى قسم نہيں ٹوٹےگى، يعنى اللہ تعالى انہيں ان تين امور ميں مؤاخذہ نہيں كريگا جب تك اس كے خلاف دليل نہ ہو، مثلا تلف كرنے كى ضمان تو اس كا كرنا ايسا ہى ہے جيسا كہ نہيں كيا ” انتہى

ديكھيں: الفتاوى الفقھيۃ الكبرى ( 4 / 178 ).

اس ليے اگر مجبور ہونے سے آپ كا مقصد يہ ہے كہ آپ كو اس عمل پر مجبور كيا گيا تو پھر اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى اور اگر آپ مكرہ يعنى مجبور نہ تھے تو طلاق واقع ہو گئى.

اور جب بھول جانے يا جبر كى بنا پر طلاق واقع نہيں ہوئى تو پھر طلاق اپنے حال پر معلق ہے، اس ليے اگر آپ نے بعد ميں يہ عمل كيا تو طلاق واقع ہو جائيگى.

رہا يہ مسئلہ كہ آيا كيا جب بھى آپ يہ عمل كريں تو طلاق واقع ہو جائيگى يا نہيں ؟

تو يہ آپ كے الفاظ پر منحصر ہے جو آپ نے زبان سے ادا كيے تھے، اگر آپ نے كہا: اگر ميں نے ايسا كيا تو ميرى بيوى كو طلاق، تو اس صورت ميں صرف طلاق ايك بار ہى واقع ہو گى.

اور اگر آپ نے كہا: جب بھى ميں نے يہ كام كيا تو ميرى بيوى كو طلاق، تو اس صورت ميں عمل كے تكرار سے طلاق ميں بھى تكرار ہوگا.

ليكن اگر آپ نے كچھ نہيں كہا اور معاملہ صرف ابھى نيت تك ہى محدود تھا تو طلاق واقع نہيں ہوگى، جيسا كہ بيان ہو چكا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android