بعض آئمہ كرام نماز تراويح ميں چار ركعات يا اس سے زائد ركعات ايك ہى سلام كے ساتھ ادا كرتے ہيں اور اور دو ركعت ميں بيٹھتے نہيں، اور يہ دعوى كرتے ہيں كہ ايسا كرنا سنت ہے، كيا اس عمل كى كوئى شريعت مطہرہ ميں دليل ملتى ہے ؟
نماز تراويح دو دو ركعات
سوال: 106463
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
” يہ عمل مشروع نہيں بلكہ اكثر اہل علم كے ہاں مكروہ يا حرام ہے، اس ليے كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” رات كى نماز دو دو ركعات ہے ” متفق عليہ.
اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم رات كو گيارہ ركعت نماز ادا كرتے، ہر دو ركعت كے بعد سلام پھيرتے اور ايك ركعت كے ساتھ وتر فرماتے ” متفق عليہ.
اس موضوع كے متعلق احاديث بہت ہيں.
رہى يہ مشہور حديث كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم رات كو چار ركعات ادا كرتے، تم ان كے حسن اور طوالت كے بارہ ميں مت پوچھو، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم چار ركعت ادا فرماتے تم ان كے حسن اور طوالت كے بارہ ميں مت پوچھو .. ” متفق عليہ.
اس حديث سے مراد يہ ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم دو ركعت كے بعد سلام پھيرا كرتے تھے، اس سے يہ مراد نہيں كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم اكٹھى ايك ہى سلام كے ساتھ چار ركعت ادا كرتے اس كى دليل سابقہ احاديث ہيں.
اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” رات كى نماز دو دو ركعت ہے “
جيسا كہ اوپر بھى يہ حديث بيان ہوئى ہے، يہ احاديث ايك دوسرے كى تصديق كرتى ہيں، اس ليے مسلمان شخص پر واجب ہے كہ وہ سب احاديث پر عمل كرے اور انہيں لے اور مجمل حديث كى مبين حديث كے ساتھ تفسير كرے.
اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے ” انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب