قرآن مجيد كى تلاوت كے فورا بعد اجتماعى دعا كرتے ہوئے ايك شخص دعا كرے اور باقى آمين كہيں تو كيا يہ جائز ہے، اور اسى طرح ہر درس اور وعظ كے بعد، اور جب ان سے اس كى دليل مانگى جائے تو وہ اس آيت سے استدلال كرتے ہيں:
اور تيرے رب كا فرمان ہے مجھے پكارو ميں تمہارى دعا قبول كرونگا غافر ( 60 ) كيا يہ صحيح ہے ؟
قرآن مجيد كى تلاوت كے بعد اجتماعى دعا كا حكم
سوال: 106523
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اذكار اور عبادات ميں اصل توقيف ہے يعنى جس طرح وہ ثابت ہيں اسى طرح كيا جائيگا، اس ميں كوئى كمى و زيادتى نہيں كى جا سكتى، اور اللہ كى عبادت اس طرح ہى ہو سكتى ہے جو ثابت ہو، اور اسى طرح اس كا اطلاق اور اس كى تقييد اور كيفيت كا بيان اور تعداد كى تحديد بھى توقيف پر مبنى ہے.
اللہ تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہمارے ليے جو اذكار اور سارى مطلق عبادات مشروع كى ہيں ان كو وقت يا عدد يا جگہ يا كيفيت كے ساتھ تحديد كرنا جائز نہيں بلكہ جس طرح يہ مطلقا وارد ہيں اسى طرح بجا لائى جائينگى.
اور جو قولى يا عملى دلائل كے ساتھ وقت يا عدد يا جگہ يا كيفيت ميں محدد اور مقيد ہيں ہم انہيں جس طرح شريعت ميں ثابت ہے اسى طرح كرينگے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے قولى يا فعلى يا تقريرى طور پر نمازوں كے بعد اجتماعى دعا ثابت نہيں اور نہ ہى قرآن مجيد كى تلاوت كے فورا بعد يا درس اور وعظ كے بعد اجتماعى دعا ثابت ہے، چاہے وہ امام كى دعا اور مقتديوں كى آمين كى صورت ميں ہو، يا سب نمازوں كے اجتماعى دعا كى صورت ميں ہو، يا قرآن مجيد كى تلاوت يا درس كے بعد، دين ميں وہ كچھ ايجاد كر ليا گيا ہے جو اس ميں سے نہ تھا اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے:
” جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں ايسى چيز نكالى جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے ”
اور ان كا اس آيت سے استدلال كرنا:
اور تمہارے رب كا فرمان ہے مجھے پكارو ميں تمہارى دعا قبول كرونگا غافر ( 60 ).
اس ميں ان كى كوئى دليل نہيں، كيونكہ يہ مطلق نص سے استدلال ہے جس ميں اس كيفيت كى تعيين نہيں ہے جس كا وہ التزام كر رہے ہيں، اور مطلق پر بغير كسى خاص حالت كے التزام كيے اطلاق پر ہى عمل ہوتا ہے.
اگر كسى معين كيفيت كا التزام كرنا مشروع ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كا ضرور التزام كرتے، اور آپ كے بعد خلفاء راشدين بھى اس پر عمل كرتے، اوپر بيان ہو چكا ہے كہ ايسا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں، اور نہ ہى صحابہ كرام سے ثابت ہے.
اور پھر خير و بھلائى اور بہترى تو اسى ميں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے خلفاء كے طريقہ كى پيروى كى جائے، اور ان كے طريقہ كى مخالفت اور بدعات پر چلنا برائى اور شر ہى شر ہے جس سے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اجتناب كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:
” تم نئى نئى بدعات سے اجتناب كرو كيونكہ ہر نيا كام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہى ہے ”
اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے ” انتہى
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب