اول:
جن لوگوں كے ہاں دن بيس گھنٹوں كا ہو تو وہ روزہ كيسے ركھيں، كيا وہ روزہ كے ليے اندازہ لگائيں گے ؟
اور اسى طرح اگر كہيں دن بالكل چھوٹا ہو تو وہ روزہ كيسے ركھيں گے ؟
اور اسى طرح جہاں چھ ماہ تك دن رہتا ہے اور چھ ماہ تك رات رہتى ہے وہ لوگ روزہ كيسے ركھيں اور نماز كس طرح ادا كريں گے ؟
جہاں دن طويل ہو يا پھر سورج غروب نہ ہوتا ہو تو وہاں روزہ كيسے ركھا جائے ؟
سوال: 106527
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
" جہاں رات اور دن چوبيس گھنٹوں ميں ہوتا ہو چاہے چھوٹا ہو يا لمبا تو وہ دن كے وقت روزہ ركھيں گے، اور ان كے ليے يہى كافى ہے الحمد للہ چاہے دن بالكل چھوٹا ہو، ليكن جن لوگوں كے ہاں رات اور دن اس سے طويل ہو مثلا چھ ماہ تك تو وہ نماز اور روزہ كے ليے اندازہ لگا كر نماز اور روزے كى ادائيگى كرينگے.
جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دجال كے دن جو كہ ايك برس كا ہو گا ميں حكم ديا ہے، اور اسى طرح اس كے اس دن كے بارہ ميں جو ايك ماہ كا ہوگا، يا پھر ايك ہفتہ كے برابر اس ميں نماز كے اليے اندازہ لگا كر نماز ادا كى جائيگى.
سعودى عرب كى كبار علماء كميٹى نے اس مسئلہ ميں غور و خوض كر كے درج ذيل فيصلہ كيا ہے يہ قرار نمبر 16 بتاريخ 12 / 4 / 1398 هـ ہے:
و الصلاۃ و السلام على رسولہ و آلہ و صحبہ و بعد:
اول:
جو لوگ ايسے علاقوں ميں بستے ہيں جہاں طلوع شمس اور غروب آفتاب كے ساتھ دن ميں تميز ہوتى ہو ليكن گرميوں ميں ان كے ہاں دن بہت زيادہ طويل ہوتا ہو اور سرديوں ميں دن بہت زيادہ چھوٹا ہو تو ان پر واجب ہے كہ وہ پانچوں نمازيں شرعى طور پر معروف اوقات ميں ادا كريں گے كيونكہ عمومى طور پر اللہ تعالى كا فرمان ہے:
آفتاب كے ڈھلنے سے ليكر رات كى تاريكى تك نماز قائم كريں،اور فجر كا قرآن پڑھنا بھى يقينا فجر كے وقت كا قرآن پڑھنا حاضر كيا گيا ہے الاسراء ( 78 ).
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
يقينا مومنوں پر نماز كى ادائيگى وقت مقررہ پر فرض كى گئى ہے النساء ( 103 ).
اور اس ليے بھى كہ صحيح حديث ميں عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ سے ثابت ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ظہر كا وقت يہ ہے كہ جب سورج زائل ہو جائے اور آدمى كا سايہ اس كى لمبائى كے برابر ہو جب تك عصر كا وقت نہ ہو، اور عصر كا وقت اس وقت تك ہے جب تك سورج زرد نہ ہو، اور مغرب كى نماز كا وقت اس وقت تك ہے جب تك شفق غائب نہ ہو، اور عشاء كى نماز كا وقت آدھى رات تك ہے، اور فجر كى نماز كا وقت طلوع فجر سے ليكر طلوع شمس تك ہے، چنانچہ جب سورج طلوع ہو جائے تو نماز ادا نہ كى جائے كيونكہ سورج شيطان كے دونوں سينگوں كے درميان طلوع ہوتا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 612 ).
اس كے علاوہ دوسرى احاديث كى بنا پر جن ميں نمازوں كے اوقات كى قولى اور فعلى تحديد پائى جاتى ہے، اور ان ميں دن اور رات كے طويل يا چھوٹا ہونے ميں كوئى فرق نہيں كيا گيا، جب تك نمازوں كے اوقات كى ان علامات كے ساتھ تميز ہوتى ہو جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان فرمائى ہيں.
رہا مسئلہ رمضان المبارك كے مہينہ كے اوقات كى تحديد كا تو مكلفين كو چاہيے كہ وہ ہر دن كھانے پينے اور روزہ توڑنے والى باقى اشياء سے اجتناب كر كے طلوع فجر سے غروب آفتاب تك روزہ ركھيں جب تك ان كے ہاں دن اور رات ميں تميز ہوتى ہے يعنى رات سے دن واضح ہوتا ہے، اور دن اور رات كا مجوعى وقت چوبيس گھنٹے ہے، اور ان كے ليے صرف رات كے وقت ہى كھانا پينا اور جماع كرنا حلال ہوگا، چاہے رات بہت ہى چھوٹى ہو.
كيونكہ شريعت اسلاميہ سب ممالك ميں لوگوں كے ليے عام ہے، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا ارشاد ہے:
تم رات كے سياہ دھاگے سے فجر كا سفيد دھاگہ واضح ہونے تك كھاؤ پيئو اور پھر رات تك روزہ پورا كرو البقرۃ ( 187 ).
چنانچہ جو كوئى بھى دن طويل ہونے كى بنا پر روزہ مكمل كرنے سے عاجز ہو جائے يا پھر علامات اور تجربہ كى بنا پر يا پھر امانتدار ڈاكٹر كے بتانے سے اسے علم ہو جائے يا اس كا ظن غالب ہو كہ سارے دن كا روزہ ركھنا اس كى ہلاكت كا باعث بن سكتا ہے، يا پھر اسے شديد بيمار كر دےگا، اور پھر اس كى بيمارى ميں اضافہ كر دےگا، يا اس كى شفايابى ميں ركاوٹ پيدا كريگا تو وہ روزہ نہ ركھے اور بعد ميں كسى بھى مہينہ ميں ان روزوں كى قضاء ميں روزے ركھے جن ميں وہ قضاء كر سكتا ہو.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
تم ميں سے جو كوئى بھى اس مہينہ كو پا لے تو وہ اس كے روزے ركھے، اور جو كوئى مريض ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے البقرۃ ( 185 ).
اور دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
اللہ سبحانہ و تعالى كسى بھى جان اس كى طاقت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا البقرۃ ( 286 ).
اور ايك مقام پر ارشاد ربانى ہے:
اور اللہ تعالى نے تم پر دين ميں كوئى تنگى نہيں كى الحج ( 78 ).
دوم:
جو لوگ ايسے علاقے ميں بستے ہيں جہاں گرميوں ميں سورج غروب ہى نہيں ہوتا، اور سرديوں ميں سورج طلوع ہى نہيں ہوتا، يا پھر وہ ايسے علاقوں ميں رہتے ہيں جہاں چھ ماہ تك دن رہتا ہے، اور چھ ماہ تك رات ہى رہتى ہے تو ان پر واجب ہے كہ وہ ہر چوبيس گھنٹوں ميں پانچ نمازيں ادا كيا كريں، اور وہ ان نمازوں كے ليے اندازہ لگا كر وقت مقرر كريں اور اس كى تحديد كے ليے وہ اپنے قريب ترين ملك پر اعتماد كريں جہاں فرضى نمازوں كے اوقات كى تميز ہوتى ہو.
كيونكہ اسراء و المعراج والى حديث سے ثابت ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اس امت پر دن اور رات ميں پچاس نمازيں فرض كى تھيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تبارك و تعالى سے تخفيف طلب كرتے رہے حتى كہ پانچ رہ گئيں تو اللہ نے فرمايا: اے محمد صلى اللہ عليہ وسلم ہر دن اور رات ميں يہ پانچ نمازيں ہيں "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 162 ).
اور اس ليے بھى كہ طلحہ بن عبيد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث سے ثابت ہے كہ:
" اہل نجد ميں سے ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا جس كے سر كے بال پراگندہ تھے ہم اس كى گنگاہٹ تو سن رہے تھے ليكن ہميں سمجھ نہيں آ رہى تھى كہ وہ كيا كہہ رہا ہے، حتى كہ وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے قريب ہوا تو وہ اسلام كے بارہ ميں دريافت كر رہا تھا چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" دن اور رات ميں پانچ نمازيں ہيں، تو اس نے كہا: كيا مجھ پر اس كے علاوہ اور بھى ہيں ؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا نہيں، الا يہ كہ تم نفلى نماز ادا كرو …. " الحديث
صحيح بخارى حديث نمبر ( 46 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 11 ).
اور يہ بھى ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كو دجال كے بارہ ميں بتايا تو صحابہ كرام نے عرض كيا:
وہ زمين ميں كتنے دن رہے گا ؟
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
چاليس يوم، اس كا ايك دن ايك سال كے برابر ہوگا اور ايك دن مہينہ كے برابر اور ايك دن ايك ہفتہ كے برابر اور باقى سارے ايام تمہارے ايام كى طرح ہونگے.
صحابہ كرام كہتے ہيں ہم نے عرض كيا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم جو دن ايك سال كے برابر ہو گا كيا اس ميں ايك دن كى نمازيں كافى ہونگى ؟
تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: نہيں بلكہ تم اس كے ليے اندازہ لگاؤ "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2937 ).
اس حديث ميں بيان ہوا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس دن كو جو ايك سال كے برابر ہے ميں پانچ نمازيں ادا كرنا كافى قرار نہيں ديا، بلكہ صحابہ كرام پر واجب كيا كہ وہ ہر چوبيس گھنٹوں ميں پانچ نمازيں ادا كريں.
اور انہيں يہ حكم ديا كہ وہ اپنے ملك ميں عام وقت كے مطابق اس دن كو تقسيم كريں، اس ليے جس علاقے كے مسلمانوں نے يہ سوال كيا ہے انہيں چاہيے كہ وہ اپنى نمازوں كے اوقات كے ليے اپنے قريب ترين ملك جس ميں دن اور رات كى تميز ہوتى ہے اس كے مطابق اندازہ لگا كر چوبيس گھنٹوں ميں پانچ نمازيں ادا كريں، جن ميں شرعى علامات كا خيال ركھا جائے.
اسى طرح ان پر واجب ہے كہ وہ رمضان المبارك كے روزے بھى ركھيں، اور انہيں اپنے روزے كے ليے طلوع فجر اور غروب آفتاب يعنى سحرى اور افطارى كے وقت كے ليے اور رمضان كى ابتداء اور اختتام كے ليے اپنے قريب ترين ملك جہاں رات اور دن ميں تميز ہوتى ہو كے مطابق اندازہ لگا كر روزہ ركھيں، اور اس دن اور رات كا مجموع وقت چوبيس گھنٹے ہو؛ كيونكہ اس كى دليل اوپر مسيح الدجال والى حديث گزر چكى ہے جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كرام كى نماز پنجگانہ كے بارہ ميں راہنمائى كرتے ہوئے اوقات كى تحديد كا حكم ديا ہے، اس ليے نماز اور روزے ميں كوئى فرق نہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
كبار علماء كميٹى.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب