ميرا باپ كفركى حالت ميں فوت ہوگيا ہے اس كے متعلق ميرى كيا ذمہ دارياں ہيں، كيا ميں اسے دفن اور اس كے جنازہ كا انتظام كروں؟
اور كيا ميں اسے غسل اور كفن دوں يا نہيں؟ اوركيا اس كے علاوہ مجھ پر ميرے والد كے كچھ حقوق ہيں ؟
مسلمان بيٹا كافر باپ كى وفات پر كيا كرے
سوال: 10679
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
صحيح حديث ميں ہے جو ناجيۃ بن كعب عن على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ كے طريق سے مروى ہے، على رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
آپ كا بوڑھا اور گمراہ چچا ( ان كا مقصد اپنا والد ابو طالب تھا ) فوت ہو چكا ہے تو اسے كون دفنائےگا؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جاؤ جا كر اپنے باپ كو زمين ميں چھپا دو"
( يہ على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ كو خطاب تھا )
على رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: ميں اسے نہيں چھپاؤں گا، كيونكہ وہ مشرك فوت ہوا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جاؤ جا كر اسے چھپاؤ اور پھر ميرے پاس آنے تك بات چيت نہ كرنا، تو ميں گيا اور جا كر اسے چھپايا، اور مٹى اور گرد و غبار ميں اٹا ہوا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا تو انہوں نے مجھے غسل كرنے كا حكم ديا اور ميں نےغسل كيا، اور ميرے ليے ايسى دعائيں كيں جو مجھے روئے زمين پر پائى جانے والى اشياء سے بھى زيادہ قيمتى تھيں"
السلسلۃ الصحيحۃ للالبانى حديث نمبر ( 161 ).
شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى اس حديث پر تعليقا كہتے ہيں:
1 – مسلمان شخص كے ليے مشروع ہے كہ وہ اپنے قريبى مشرك رشتہ دار كے دفن كى ذمہ دارى پورى كرے، اور يہ كام اس كے شرك كى بنا پر اس سے بغض و عناد ركھنے كے منافى نہيں ہے، كيا آپ ديكھتے نہيں كہ على رضى اللہ تعالى عنہ شروع ميں اپنے والد كو دفن كرنے سے رك گئے اور علت يہ بيان كى كہ: " وہ مشرك فوت ہوا ہے"
ان كا گمان تھا كہ اس حالت ميں ان كا اسے دفن كرنا ہو سكتا ہے اس منع كردہ دوستى ميں شامل ہو جو اللہ تعالى نے اس فرمان ميں بيان كيا ہے:
تم اس قوم كے ساتھ دوستى نہ ركھو جن پر اللہ تعالى كا غضب ہے.
اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں دوبارہ حكم ديا كہ وہ اپنے والد كو جاكر دفن كريں تو انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيروى كرنے ميں ذرا بھى تامل سے كام نہيں ليا اور اسے فورا تسليم كرتے ہوئے اپنے ذہن ميں جو كچھ پہلے آيا تھا وہ نكال باہر كيا اور اسے دفنانے چل ديے، اور اطاعت بھى اسى كا نام ہے كہ:
انسان نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كے سامنے اپنى رائے اور خيال كو ترك كر دے، مجھے تو يہى محسوس ہوتا ہے كہ بيٹے كا اپنے مشرك باپ يا ماں كو دفن كرنا يہى ايك آخرى چيز ہے جو دنيا ميں ايك بيٹا اپنے مشرك باپ كے ساتھ حسن صحبت كے طور پر كر سكتا ہے.
ليكن دفن كرنے كے بعد اسے يہ حق نہيں كہ وہ اس كے ليے دعائے مغفرت كرتا پھرے، كيونكہ فرمان بارى تعالى ميں صريحا اس كى ممانعت پائى جاتى ہے:
فرمان بارى تعالى ہے:
نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور مومنوں كو يہ حق حاصل نہيں كہ وہ مشركوں كے ليے دعائے مغفرت كرتے پھريں، اگرچہ وہ ان كے قريبى عزيز ہى كيوں نہ ہوں .
اور اگر معاملہ ايسا ہى ہے تو پھر ان لوگوں كا كيا حال ہوگا جو چند ٹكوں اور پيسوں كے لالچ ميں اخبارات اور جرائد و ميگزين كے صفحات پر بعض كفار كے اعلان وفات ميں رحمت و مغفرت كى دعا كرتے پھرتے ہيں! جس كے ليے آخرت كا معاملہ اہميت ركھتا ہے اسے اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرنا چاہيے.
2 – اس كےليے كافر كو غسل دينا اور كفن پہنانا مشروع نہيں اور نہ ہى وہ اس كى نماز جنازہ ادا كرسكتا ہے، اگرچہ وہ اس كا قريبى عزيز اور رشتہ دار ہى كيوں نہ ہو، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے على رضى اللہ تعالى عنہ كو اس كا حكم نہيں ديا، اور اگر يہ جائز ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے بيان كرديتے، كيونكہ ضرورت كے وقت سے بيان كو موخر كرنا جائز نہيں، حنابلہ وغيرہ كا مذہب يہى ہے.
3 – مشرك كے اقرباء و رشتہ داروں كے ليے اس كے جنازہ ميں شركت كرنا مشروع نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے چچا كے ساتھ ايسا نہيں كيا، حالانكہ وہ ان كے ساتھ سب لوگوں ميں سے زيادہ شفقت كرنےوالا اور نيكى و احسان كرنے والا تھا، حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى تخفيف عذاب كے ليے دعا فرمائى تا كہ اسے آگ ميں ہلكا ترين عذاب ہو، ….
اور اس سارے معاملہ ميں اپنے نسب ناموں پر فخر اور دھوكہ ميں پڑنے والوں كے ليے جو كہ آخرت كے ليے عمل نہيں كرتے عبرت ہے، اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى نے سچ فرمايا:
اس دن ان كے مابين كوئى نسب نہيں ہونگے، اور نہ ہى وہ آپس ميں سوال كرينگے.
السلسلۃ الصحيحۃ للالبانى صفحہ نمبر ( 94 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد