كيا اسلام ميں اكيلا صرف ايك دن كا روزہ ركھنا جائز نہيں، اور يہ ضرورى ہے كہ يہوديوں كى مخالفت كرتے ہوئے كم از كم دو دن كا روزہ ركھا جائے، كيونكہ يہودى ايك دن كا روزہ ركھتے ہيں، ميرے رائے كے مطابق يہ علت صحيح نہيں آپ اس سلسلہ ميں كيا كہتے ہيں ؟
صرف جمعہ كا روزہ ركھنے كى ممانعت ميں حكمت
سوال: 107124
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
صرف ايك دن كا روزہ ركھنا جائز ہے، ليكن اگر يہ صرف جمعہ يا صرف ہفتہ يا پھر دس محرم كا ہو تو پھر مستحب يہ ہے كہ اس كے ايك دن قبل يا ايك دن بعد روزہ ركھا جائے.
ليكن اتوار يا سوموار يا منگل يا بدھ يا جمعرات كا اكيلا روزہ ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ سوموار اور جمعرات كا روزہ ركھنا تو سنت ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" تم ميں سے كوئى بھى جمعہ كا روزہ مت ركھے، الا يہ كہ اس سے پہلے دن يا بعد والے دن بھى روزہ ركھے، يا پھر وہ اس دن كے اس كى روزہ ركھنے كى عادت كے موافق آ جائے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1985 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1144 ).
مسلم شريف كى روايت ميں ہے:
" ايام ميں جمعہ كے دن روزہ ركھنے كو خاص مت كرو "
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ان احاديث ميں جمہور اصحاب شافعى اور ان كے موافقين كے قول كى ظاہر دلالت پائى جاتى ہے كہ: صرف جمعہ كے دن كا روزہ ركھن مكروہ ہے، ليكن اگر كسى كى عادت كے موافق آ جائے تو وہ ركھ لے، اور اگر وہ جمعہ سے پہلے يا بعد والے دن كا روزہ ساتھ ملا لے تو صحيح ہے، يا پھر اس كى عادت كے موافق ہو جائے، كہ اس نے نذر مانى كہ جس دن اسے شفايابى حاصل ہوگى وہ اس دن كا مستقل طور پر روزہ ركھےگا، تو اسے جمعہ كے دن شفايابى حاصل ہوئى تو ان احاديث كى بنا پر مكروہ نہيں ہوگا.
علماء كرام كا كہنا ہے كہ:
اس سے منع كرنے ميں حكمت يہ ہے كہ: جمعہ كا دن ذكر اور دعا اور عبادت كا دن ہے، كہ اس دن غسل كرنا اور نماز جمعہ كے ليے جلد جانا اور نماز جمعہ كا انتظار كرنا اور خطبہ جمع سننا اور جمعہ كے بعد كثرت سے ذكر كرنا، اس كے علاوہ دوسرى عبادات كى بنا پر جو اس دن سرانجام دى جاتى ہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
جب نماز ختم ہو جائے تو زمين ميں پھيل جاؤ اور اللہ كا فضل تلاش كرو اور كثرت سے اللہ كى ياد كرو .
اس ليے اس دن روزہ نہ ركھنا مستحب قرار ديا گيا ہے تا كہ عبادت ميں ممد و معاون ثابت ہو سكے، اور آدمى نشيط ہو كر يہ عبادات سرانجام دے، اور بغير كسى تنگى و ملل كے عبادت كا سرور و لذت حاصل كر سكے.
يہ بالكل اسى طرح ہے جيسے يوم عرفہ ميں حاجى حضرات كو روزہ ركھنے كى ممانعت ہے كيونكہ اس كے حق ميں سنت يہى ہے كہ وہ روزہ نہ ركھے جيسا كہ اس كى حكمت بيان كرتے ہوئے بيان ہو چكا ہے.
اور اگر يہ كہا جائے كہ: اگر واقعى ايسا ہوتا تو جمعہ سے پہلے يا بعد والے دن كا روزہ ساتھ ملانے سے يہ نہى اور كراہت زائل نہ ہوتى كيونكہ يہ معنى تو باقى رہتا ہے ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ: جمعہ سے پہلے يا بعد والے دن كا روزہ ساتھ ملا لينے كى بنا پر وہ كمى دور ہو جاتى ہے جو كمى روزے كى حالت ميں وضائف ميں كمى رہى تھى، جمعہ كے دن روزہ ركھنے كى ممانعت ميں جو حكمت ہے اس كے بارہ يہى معتمد ہے.
اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: صرف جمعہ كے دن كا روزہ ركھنے سے اس خوف كى بنا پر منع كيا گيا ہے كہ كہيں اس كى تعظيم ميں مبالغہ نہ كر ليا جائے، كہ جس طرح يہودى ہفتہ كے دن كے بارہ ميں فتنہ كا شكار ہو گئے اسى طرح مسلمان بھى جمعہ كے دن كے بارہ ميں فتنہ كا شكار نہ ہو جائيں.
ليكن يہ احتمال كمزور اور ضعيف ہے، كيونكہ جمعہ كى نماز وغيرہ دوسرے اعمال پائے جاتے ہيں اور اس كى تعظيم كے بارہ ميں بھى روايات ہيں.
اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: سبب يہ ہے كہ كہيں لوگ اس كے وجوب كا اعتقاد نہ ركھنے لگيں، ليكن يہ بھى كمزور ہے اس كى سوموار كے روزے سے تنقيض ہو جاتى ہے، كيونكہ سوموار كا روزہ ركھنا مندوب ہے اور اس دور كے احتمال كى طرف التفات نہيں كيا جائيگا.
اسى طرح يوم عرفہ اور يوم عاشوراء كے روزے كے ساتھ اس ليے صحيح يہى ہے جو ہم اوپر پيش كر چكے ہيں " واللہ اعلم. انتہى
رہا صرف ہفتہ كے دن كا روزہ ركھنا مكروہ ہے اس ميں حكمت يہ ہے كہ: جب انسان روزہ ركھتا ہے تو وہ كام سے كمزور ہو جاتا ہے اور كچھ كام چھوڑ ديتا ہے جو كيا كرتا تھا، تو اس طرح يہ يہوديوں كے مشابہ ہو جائيگا جو ہفتہ كے دن كے اعمال چھوڑ ديا كرتے تھے، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 106500 ) كے جواب ميں گزر چكى ہے اس كا مطالعہ كريں.
اور رہا عاشوراء كے بارہ ميں تو صحيح مسلم ميں عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت ہے كہ:
" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عاشوراء كا روزہ ركھا اور اپنے صحابہ كرام كو اس دن كا روزہ ركھنے كا حكم ديا تو صحابہ نے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: اس دن كى تو يہودى اور عيسائى تعظيم كرتے ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" آئندہ برس ہم ان شاء اللہ نو تاريخ كا روزہ ركھيں گے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1134 ).
ايك روايت ميں يہ الفاظ ہيں:
" اگر ميں آئندہ برس زندہ رہا تو ميں نو تاريخ كا روزہ ركھوں گا "
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ: دس محرم كے ساتھ نو محرم كا روزہ ركھنے كا سبب يہ ہو سكتا ہے كہ صرف دس محرم كا روزہ ركھنے ميں يہوديوں كے ساتھ مشابہت نہ ہو جائے، حديث ميں بھى اسى طرح اشارہ ہے.
اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: عاشوراء كا روزہ حاصل ہونے ميں احتياط كے ليے، ليكن پہلا قول ہى بہتر ہے, واللہ اعلم " انتہى
آپ كے ليے واضح ہوگيا ہے كہ حكمت اور علت كى تعيين ايك ايسا امر ہے جس ميں علماء اجتھاد كرتے ہيں، اور آپ نے ديكھا كہ امام نووى رحمہ اللہ نے صرف جمعہ كے دن روزہ ركھنے كى حكمت ميں جو قول كہے گئے ہيں انہيں كس قدر سے غلط كہا ہے.
اس ليے مسلمان پر واجب اور ضرورى ہے كہ وہ شرعى حكم كو تسليم كرے اور سرخم تسليم كر دے، چاہے اسے اس حكم كى علت و حكمت سمجھ ميں آئے يا نہ آئے.
اسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بات كو قبول كرتے ہوئے اپنے اوپر نافذ كرنا چاہيے؛ جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
جب اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كے رسول كوئى فيصلہ كر ديں تو كسى بھى مومن مرد اور مومن عورت كے ليے اپنے معاملہ ميں كوئى اختيار باقى نہيں رہتا، اور جو كوئى اللہ تعالى اور اس كے رسول كى نافرمانى كريگا تو وہ واضح گمراہ ہوگيا الاحزاب ( 36 ).
اللہ سبحانہ و تعالى ہميں اور آپ كو ايسے عمل كرنے كى توفيق دے جنہيں وہ پسند فرماتا اور جن سے راضى ہوتا ہے.
واللہ اعلم
.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات