مجھے درج ذیل سوالات کا جواب چاہیے: 1) ولی کون ہوتا ہے؟ 2) ولایت کے کتنے درجے ہیں؟ 3) کیا اولیائے کرام کو "اصحاب اللہ"کہہ سکتے ہیں؟
اولیائے کرام کون ہیں اور ان کے درجات کی تفصیلات کیا ہیں؟
سوال: 107283
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اولیاء اللہ کی دو ٹوک اور واضح تعریف یہ ہے کہ یہ لوگ: اہل ایمان اور متقی ہوتے ہیں، جو اپنی زندگی کے ہر لمحے میں اللہ تعالی کو اپنا نگران سمجھتے ہیں، چنانچہ ہر وقت اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل کرتے ہیں اور نواہی سے بچتے ہیں۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ . الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ . لَهُمْ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی کے اولیاء پر کبھی نہ تو خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقوی اختیار کیے رہے، ان کے لیے دنیا کی زندگی اور آخرت میں خوش خبری ہے، اللہ تعالی کے کلام میں کوئی تبدیلی نہیں، یہی عظیم کامیابی ہے۔[یونس: 62 – 64]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ "تفسير القرآن العظيم" (4/278) میں کہتے ہیں:
"یہاں اللہ تعالی نے یہ بتلایا کہ: اللہ کے ولی وہ ہیں جو ایمان لاتے ہیں اور تقوی اختیار کیے رہتے ہیں، اللہ تعالی نے اولیاء اللہ کی یہی وضاحت فرمائی ہے، چنانچہ جو بھی متقی ہے وہ اللہ کا ولی ہے؛ انہیں قیامت کے دن اور مستقبل کے بارے میں کسی قسم کا خوف نہیں ہو گا، نہ ہی وہاں جا کر انہیں دنیا کے متعلق کسی قسم کا غم ہو گا۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود اور سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سمیت دیگر متعدد سلف صالحین کہتے ہیں کہ: اللہ کے ولی وہ ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ یاد آ جائے، یہ بات ایک مرفوع حدیث میں بھی مذکور ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی کے کچھ بندے ایسے ہیں کہ انہیں دیکھ کر انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں گے۔) کہا گیا: وہ کون ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ؟ ممکن ہے ہم بھی ان سے محبت کریں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یہ وہ قوم ہے جو دولت یا نسب کی وجہ سے باہمی محبت نہیں کرتے، ان کے چہرے نور کے منبروں پر نور والے ہوں گے، جب لوگوں خوف میں ہوں گے انہیں کوئی خوف نہیں ہو گا، اور جب لوگ غمگین ہوں گے تو انہیں کوئی غم نہیں ہو گا) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ آیت تلاوت فرمائی: أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ یقیناً اللہ تعالی کے اولیاء پر کبھی نہ تو خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔[یونس: 62] اس حدیث کو ابو داود نے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے، اور البانیؒ نے اسے سلسلہ صحیحہ : (7/1369) میں صحیح قرار دیا ہے۔" مختصراً ختم شد
دوم:
انسان کے ایمان اور تقوی کے مطابق ولایت کا درجہ بھی مختلف ہوتا ہے، کیونکہ کوئی بھی مومن ہے تو اسے اللہ تعالی کی ولایت، محبت اور قربت کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ملا ہوا ہوتا ہے، لیکن یہ حصہ انسان کے اپنے بدنی اور قلبی اعمال صالحہ کی مقدار کے مطابق کم یا زیادہ ہوتا ہے، چنانچہ ہم ولایت کے تین درجے بنا سکتے ہیں:
1- اپنے آپ پر ظلم کرنے والا، ایسا مومن جو نافرمان بھی ہے، تو اس کے پاس ولایت کا درجہ اس کے ایمان اور عمل صالح کے مطابق ہے۔
2-درمیانہ درجہ: یہ ایسا مومن ہے جو اللہ تعالی کے احکامات کی پابندی کرتا ہے، اور اس کی نافرمانی سے بچتا ہے، لیکن نوافل کی ادائیگی میں کسی قسم کی محنت نہیں کرتا، یہ درجہ سابقہ درجے سے بلند ہے۔
3-نیکیوں میں سبقت لے جانے والا، یہ ایسا مومن شخص ہے جو فرائض کے ساتھ نوافل کی بھی پابندی کرتا ہے، اور اللہ تعالی کے لیے قلبی عبادات کے ذریعے بڑا بلند درجہ پا لیتا ہے، یہ درجہ سابقہ درجے سے بھی بلند ہے۔
اس سے آگے چلیں تو نبوت ؛ ولایت کا سب سے اعلی ترین درجہ ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" (10/6) میں کہتے ہیں:
"لوگوں کی تین قسمیں ہیں: ظالم، درمیانے درجے کے لوگ، اور خیر کے کاموں میں آگے بڑھنے والے۔
ظالم: اوامر کی تعمیل نہیں کرتا، اور ممنوعہ کاموں کا ارتکاب کرتا ہے۔
درمیانے درجے والا: جو صرف واجبات ادا کرتا ہے، اور حرام کاموں سے بچتا ہے۔
خیر کے کاموں میں آگے بڑھنے والا: جو حسب استطاعت واجب اور نفل نیکیاں بجا لاتا ہے، اور حرام کاموں کے ساتھ مکروہ کاموں سے بھی بچتا ہے۔
درمیانے درجے والے اور خیر کے کاموں میں آگے بڑھنے والے کی برائیاں مٹا دی جاتی ہیں، یا تو توبہ کی وجہ سے؛ کیونکہ اللہ تعالی توبہ کرنے سے والوں سے محبت فرماتا ہے اور پاکیزہ رہنے سے والوں سے محبت کرتا ہے۔ یا پھر گناہ مٹانے والی نیکیوں کی وجہ سے ان کی برائیاں مٹا دی جاتی ہیں، یا کفارہ بننے والی مصیبتوں کی وجہ سے گناہ مٹ جاتے ہیں، یا کسی اور سبب سے ان کے کھاتے سے گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے۔ دوسری اور تیسری قسم کے لوگ اللہ تعالی کے ولی ہیں، اللہ تعالی نے ان کا تذکرہ قرآن کریم میں بھی کیا ہے: أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ . الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی کے اولیاء پر کبھی نہ تو خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقوی اختیار کیے رہے ۔[یونس: 62 – 63]
تو اللہ تعالی نے اولیاء اللہ کی تعریف یہ بیان فرمائی کہ: وہ مومن اور متقی لوگ ہیں۔
لیکن یہی اللہ تعالی کے اولیاء پھر دو قسموں میں تقسیم ہو جاتے ہیں: عام، اس میں درمیانے درجے والے لوگ آتے ہیں، اور خاص، اس میں نیکیوں کے لیے آگے بڑھنے والے لوگ آتے ہیں، اور سابقون میں سے بھی کچھ لوگ انتہائی اعلی درجے کے مالک ہیں، جیسے کہ انبیائے کرام اور صدیقین ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں قسموں کا تذکرہ ایک حدیث میں کیا ہے جسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی فرماتا ہے: جس نے میرے کسی ولی کو تکلیف دی اس نے میرے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے اور میرا قرب حاصل کرنے کے لیے میرے بندے کے واسطے فرائض پر عمل سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ہے، میرا بندہ جب نوافل کے ساتھ میرا مزید قرب تلاش کرتا ہے تم میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا اور میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا قدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ، تو وہ میرے لیے ہی سنتا ہے، اور میرے لیے ہی دیکھتا ہے ، میرے لیے پکڑتا ہے اور میرے لیے ہی چلتا ہے۔ اور جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں اور جب پناہ طلب کرتا ہے تو میں اسے ضرورت پناہ دیتا ہوں اور مجھے کسی کام کو کرنے میں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا مجھے مومن کی روح کو قبض کرنے میں ہوتا کہ بندہ موت کو اچھا نہیں سمجھتا ، اور میں بھی اسے تکلیف نہیں دینا چاہتا لیکن موت کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔)
جبکہ ظالم بھی اہل ایمان میں سے ہوتے ہیں، انہیں بھی کچھ نہ کچھ اللہ تعالی کی ولایت اپنے ایمان اور تقوی کے مطابق حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح اس بندے کے ساتھ اللہ کی ولایت کا متضاد بھی اس کے فسق و فجور کے مطابق ہوتا ہے، کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ ایک ہی شخص میں ثواب کے لیے نیکیاں بھی ہوں ، اور عذاب کے لیے برائیاں بھی ہوں، تا کہ ایک ہی بندے کو ثواب اور عقاب دونوں دینا ممکن ہو۔ یہ موقف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے تمام صحابہ کرام ، ائمہ ، اہل سنت والجماعت اور ان لوگوں کا ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ: جس کے دل میں بھی ذرہ برابر ایمان ہے وہ جہنم میں ہمیشہ نہیں رہ سکتا۔" ختم شد
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "فتاوى مهمة" (ص/83) میں کہتے ہیں کہ:
"ہر مومن اور متقی شخص اللہ کا ولی ہے، اور اگر کسی میں تقوی اور ایمان نہیں ہے تو وہ اللہ کا ولی بھی نہیں ہے، ہاں اگر اس کے پاس معمولی ایمان اور تقوی ہوا تو اتنی ہی مقدار میں اسے اللہ کی ولایت حاصل ہو گی۔" ختم شد
سوم:
ولایت کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ وہ کسی کے قبضے میں ہو، نہ ہی یہ کوئی ایسی چیز ہے جو لوگوں میں سے صرف مخصوص طبقے کے لیے خاص ہو، نہ ہی یہ کوئی موروثی چیز ہے، نہ ہی یہ تمغوں کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، بلکہ در حقیقت ولایت اللہ تعالی کی جانب سے ایک خاص مقام ہے جو دل میں اللہ تعالی کی محبت سے شروع ہوتا ہے، اور پھر اس کا اظہار انسانی کردار میں عیاں ہو کر اسے اللہ تعالی کی محبت اور ولایت کا حقدار بنا دیتا ہے۔
چہارم:
ولایت کبھی بھی کسی ولی کو حرام کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی نہ ہی کسی واجب کو ترک کرنے میں سہولت دیتی ہے، اگر کوئی شخص حرام کام کا ارتکاب کرے یا کسی واجب کو ترک کرے تو اس کا یہ عمل ولایت میں کمی کی دلیل ہے۔ اسی طرح ولایت اس چیز کی بھی اجازت نہیں دیتی کہ لوگ جنہیں ولی قرار دیں -اور حقیقت میں وہ ولی نہ ہو- تو انہیں مقام نبوت تک پہنچا دیں، کہ ان کی کسی بات کو ٹال نہ سکیں، ان کی کسی بات پر سوال نہ اٹھا سکیں، نہ ہی ان کے خلاف اپنی رائے دے سکیں۔ یہ سب باتیں غلو ہیں، اللہ تعالی نے ان سے منع فرمایا ہے، اور اسی کی وجہ سے لوگوں میں شرکیہ امور پھیلتے ہیں۔
بلکہ کچھ لوگ تو حد سے ہی تجاوز کر جاتے ہیں اور ولایت کے غلط مفہوم اور اولیائے کرام کے غلط تصور کی وجہ سے شرک اکبر میں مبتلا ہو جاتے ہیں، چنانچہ لوگ انہیں دعاؤں میں پکارنے لگتے ہیں، انہی کے لیے جانور ذبح کرتے ہیں، اور ان کی قبروں کا طواف تک کرنے لگ جاتے ہیں!
پنجم:
اولیائے کرام کے لیے "اصحاب اللہ" کا استعمال کیسا ہے؟ تو اس کے صحیح ہونے کی ہمیں کوئی دلیل نہیں ملی۔
اللہ تعالی کے سب افضل ترین اولیائے کرام ، اللہ تعالی کے رسول اور انبیائے کرام ہیں، ان کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام ہیں، پھر ان کے بعد آنے والے تابعی، پھر تبع تابعین وغیرہ ہیں۔ ہمیں کہیں ایسا نہیں ملا کہ ان تمام بزرگوں میں سے کسی کے لیے "اصحاب اللہ" کا لفظ استعمال ہوا ہو۔
البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اہل قرآن کو اہل اللہ کہنا ثابت ہے۔
چنانچہ مسند احمد: (11870) اور ابن ماجہ: (215) میں ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (لوگوں میں سے کچھ اللہ تعالی کے اہل ہیں) لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وہ کون ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (وہ اہل قرآن ہیں، وہ اہل اللہ اور اللہ تعالی کے خاص ہیں۔) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔
اہل قرآن: قرآن کریم کو حفظ کرنے والے، قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے والے۔
اہل اللہ: یعنی اللہ تعالی کے خاص بندے، جس طرح انسان کے اہل انسان کے ساتھ خاص ہوتے ہیں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب